اس وقت یوکرائن پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ امریکہ اور روس ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جیسے کسی زمانے میں برلن کولے کر سرد جنگ کے گرم جنگ میں بدلنے کا خدشہ پیدا ہوتا رہتا تھا‘ اسی طرح آج کل یوکرائن کولے کر ہو رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ کھلے عام روس کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ سچ مچ اگر یورپ میں جنگ چھڑگئی تو اس بار وہاں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے بھی زیادہ لوگ مارے جا سکتے ہیں کیونکہ ان آمادہ بہ جنگ قوموں کے پاس اب ایٹمی ہتھیار اور میزائلوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ روس نے یوکرائن کی سرحد پر تقریباً ایک لاکھ فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے۔ یوکرائن کے دون باس علاقہ پر پہلے سے روسی حامی باغیوں کا قبضہ ہے۔ یوکرائن پر لمبے وقت روس کا راج رہا ہے۔ وہ تقریباً دو دہائی پہلے تک روس کا ہی ایک صوبہ تھا۔ سوویت روس کے عالمی شہرت یافتہ رہنما خروشیف یوکرائن میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت یورپ میں یوکرائن ہی روس کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ تقریباً سوا چار کروڑ کی آبادی والا یہ مشرقی یورپی ملک مغربی یورپ کے امریکی اتحادی ملکوں کے ساتھ گہرے تعلقات بنانے کی کوشش کر تارہا ہے۔ وہ روس کے شکنجے سے اسی طرح نکلنا چاہتا ہے جس طرح سے سوویت خیمے کے دیگر 10 ممالک نکل چکے ہیں۔ اس نے یورپی یونین کی کئی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے کئی سمجھوتے بھی کرلیے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو ڈر ہے کہ کہیں یوکرائن بھی مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا ممبر نہ بن جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تونیٹو روس کی سرحدوں کے بہت قریب پہنچ جائے گا۔ یوں بھی ایستونیا‘ لٹویا اور لتھوانیا نیٹو کے ممبر بن چکے ہیں جو روس کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں۔ یوکرائن اور جارجیا جیسے ممالک کو روس اپنے دائرہ اثر سے باہر نہیں کھسکنے دینا چاہتا ہے۔ لینن کے بعد سب سے زیادہ مشہور روسی رہنما جوزف سٹالن کا جنم جارجیا میں ہواتھا۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ اب بھی وسط ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں میں روس کا غلبہ ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کی وجہ سے روس کی ہمت بڑھی ہے۔ یوں بھی یوکرائن پر بائیڈن اور پوتن کے درمیان سیدھی بات چیت ہوچکی ہے اور دونوں ملکوں کے وزیر خارجہ بھی آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یوکرائن کو لے کر دونوں سپر پاورز کے درمیان جنگ چھڑے گی کیونکہ ایسا ہوگا تو یورپ کے نیٹو ممالک کو ملنے والی روسی گیس بند ہو جائے گی۔ ان کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ادھر روس کی معیشت پیندے میں بیٹھ جائے گی۔ خودیوکرائن بھی جنگ نہیں چاہے گا کیونکہ تقریباً ایک کروڑ روسی لوگ وہاں رہتے ہیں۔اس سے اندازہ کریں کہ یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گزشتہ ہفتے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مغرب سے اپیل کی تھی کہ وہ روس کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر خوف و ہراس پیدا نہ کرے ۔ زیلنسکی کا کہنا تھا کہ بعض انتہائی قابل احترام سربراہانِ مملکت بھی ایسے اشارے دے رہیں گویا کل ہی جنگ شروع ہو جائے گی‘ اس طرح کے خوف و ہراس سے ہمارے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا جس طرح روس کے ساتھ ہماری کشیدگی کو اچھال رہا ہے اس کی یوکرائن کے عوام کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر جو بائیڈن اپنی سخت بیان بازی سے غلطی کررہے ہیں۔ یوکرائن کے صدر کا اشارہ امریکی صدر بائیڈن کے اس بیان کی طرف تھا جس میں صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس اگلے ماہ اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے اس طرح کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو کوئی جنگ نہیں چاہتا۔ ان حالات میں بھارت کو بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا کیونکہ بھارت امریکہ کے لیے چین مخالف پیادے کا کردار ادا کررہ رہا ہے مگر روس کے ساتھ بھی اس کے پرانے تعلقات ہیں۔ اگر بھارت میں کوئی بڑا لیڈر ہوتا تو وہ ان دنوں سپر پاورز کے درمیان ثالثی کراتا۔
دنیا سبزی خور بن رہی ہے ؟
یہ جان کر آپ کے علم میں اضافہ ہو گا کہ دنیا کے سب سے زیادہ خالص شاکاہاری یعنی سبزی خور لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد 40 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ گوشت‘ مچھلی اور انڈہ وغیرہ بالکل نہیں کھاتے۔ یورپ‘ امریکہ‘ چین‘ جاپان اور دیگر ممالک میں مجھے کئی بار یہ جملہ سننے کو ملا کہ ہم نے ایسا آدمی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے جس نے کبھی گوشت کھایا ہی نہیں ۔دنیا کے تمام ممالک میں لوگ اکثر گوشت خور اورسبزی خور دونوں طرح کے ہیں لیکن ایک تازہ خبر کے مطابق برطانیہ میں اس سال80 لاکھ لوگ مکمل سبزی خور بننے والے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو 'Vegan‘کہتے ہیں یعنی وہ گوشت‘ مچھلی‘ انڈے کے علاوہ دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ گھی وغیرہ کا استعمال بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف اناج‘ سبزی اور پھل کھاتے ہیں۔ وہ بھارت کے جین‘ اگروال‘ ویشنو اور کچھ براہمنوں کی طرح اسے اپنا مذہبی فرض مان کر نہیں اپنائے ہوئے‘ اسے وہ اپنی صحت کی خاطر ماننے لگے ہیں۔ نہ تو ا ن کا خاندان نہ ہی ان کا مذہب انہیں گوشت خوری سے روکتا ہے لیکن وہ اس لیے سبزی خور ہورہے ہیں کہ وہ صحت مند اور چست دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ ممبئی کے کئی ایسے فلم اداکار میرے جاننے والے ہیں جنہوں نے 'Vegan‘ بن کر اپنا وزن 40‘40کلو تک کم کیا ہے۔ وہ زیادہ تندرست اور زیادہ نوجوان دکھائی پڑتے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ خالص شاکاہاری کھانا آپ کو موٹاپے سے ہی نہیں ذیابیطس‘ بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔ اسے کسی خاص مذہب کی بنیاد پر ممانعت کے زمرے میں رکھنا ذرا مشکل ہے کیونکہ تمام مذاہب میں گوشت خوری کا کسی نہ کسی قدر تصور مل جاتا ہے؛ البتہ یہ مانا جاتا ہے کہ دنیا میں گوشت خوری کم ہوجائے تو قدرتی وسائل کی بھاری بچت ہو گی اور آلودگی بھی کافی حد تک گھٹ جائے گی۔ ان موضوعات پر مغربی ممالک میں بہت سی نئی تحقیقات ہو رہی ہیں اور سبزی خوری کے مختلف فوائد پر کام ہو رہا ہے۔ دودھ‘ دہی‘ مکھن اور گھی وغیرہ ترک کرنے پر کئی لوگوں کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر وہ Veganنہ ہونا چاہیں تو بھی سبزی خور ہوکر صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔اگرچہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ جانوروں کی پروٹین کی کمی سے نہ صرف آئرن بلکہ وٹامن بی 12 کی بھی کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اعصابی مسائل کے ساتھ ساتھ خون کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اس لیے غذائیت کے بعض ماہرین کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کو صرف سبزیاں کھلانا ٹھیک نہیں کیونکہ اس طرح ان کی جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سبزی خور بننے کے حق میں مہم چلانے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت نہ کھانے سے وٹامن بی 12 کی کمی ہو جاتی ہے جس سے اعصابی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور خون کی کمی ہو جاتی ہے‘ خاص طور پر وہ شیرخوار بچے متاثر ہوتے ہیں جن کی مائیں صرف سبزیاں کھاتی ہیں؛تاہم ان کا مانناہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وٹامن بی 12کی اضافی خوارک دی جاسکتی ہے۔