بہار کے سٹوڈنٹس کا غصہ اس قدر پھوٹاکہ انہوں نے ریل کے ڈبے جلا دیے۔بہار سے شروع ہونے والے اس احتجاج کی لپٹیں جلد ہی اتر پردیش میں بھی محسوس ہونے لگیں‘ کئی سٹیشنوں پر تباہی مچادی گئی اور جگہ جگہ توڑ پھوڑ کی گئی جس کی وجہ سے پریاگ راج (الہ آباد)میں چھ پولیس اہلکار طلبہ کے خلاف مبینہ کارروائی کی وجہ سے معطل بھی ہو گئے۔طلبہ کو پتا تھا کہ دونوں صوبوں کی سرکار یں ان کی مرمت کیے بغیر نہیں رہیں گی پھر بھی انہوں نے پچھلے دو تین دن سے زبردست دنگا مچایا ہواہے۔ پولیس نے سخت کارروائی بھی کی‘ کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے اور سینکڑوں سٹوڈ نٹس پر اب مقدمے بھی چلیںگے۔ یہ سب کیوں ہوا؟ یہ اسی لیے ہوا کہ ریل کے محکمے میں نکلی تقریباً35ہزار نوکریوں کے لیے سوا کروڑ نوجوانوں نے عرضیاں داخل کی تھیں۔ ان کا امتحان بھی ہوگیا اور اس کا رزلٹ بھی 14 جنوری کو سامنے آگیا لیکن انہیں کہا گیا کہ ابھی انہیں ایک امتحان اور بھی دینا ہو گا‘ اگر اس میں وہ پاس ہوگئے تو ہی انہیں نوکریاں ملیں گی۔ یہ نوکریاں سادی ہیں‘ ان میں تکنیکی مہارت کی ضرورت نہیں ہے‘ان کی تنخواہ بھی صرف 20 ہزار سے 35 ہزار روپے تک کی ہے۔ سرکاریں یہ مان رہی ہیں کہ ان لڑکوں کو کچھ اپوزیشن لیڈر اورشدت پسند قوم پرست عناصر بھڑکارہے ہیں۔ یہ الزام ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن وہ اسی لیے بھڑک رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ صرف 35 ہزار نوکریوں کے لیے ایک کروڑ لوگوں کا عرضی دینا کس بات کی علامت ہے؟ بھارت میں چپراسی کی درجن بھر نوکریوں کے لیے ہزاروں عرضیوں کے جمع ہوجانے کا مطلب آپ کیا نکالتے ہیں؟ یہ تو بھارت ہے جہاں نیتااور نوکر شاہ گل چھرے اڑاتے رہتے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ اگر یہی حال یورپ اور امریکہ میں ہو تو وہاں توپتا نہیں کیا ہوجائے۔ بھارت کا تعلیمی نظام اتنا چوپٹ ہے کہ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود سٹوڈنٹس کو کوئی روزگار نہیں ملتا۔ متوسط اور نچلے طبقے کے پریواروں کو اس کورونا دور میں جیسے مسائل کا سامنا کر ناپڑرہا ہے اس نے ان کے غصے کو دوگنا کر دیا ہے۔ بہار اور اتر پردیش کے نوجوانوں کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ ان میں سے مشکل سے 25فیصد نوجوانوں کو ہی روزگار ملاہوا ہے۔ تقریباً 75فیصد نوجوان بے کاری اور بھکمری کے شکار ہیں۔ یہ بے روزگار لوگ تشدد اور توڑ پھوڑ کریں یہ تو ٹھیک نہیں ہے لیکن کیا خالی دماغ اپنے آپ شیطان کا گھر نہیں بن جاتا ہے؟ صوبائی چناؤ کے موسم میں سٹوڈنٹس کی یہ بغاوت کسی بھی سرکار کا دم پھلانے کے لیے کافی ہے۔ ریل وزارت نے ایک جانچ کمیٹی بٹھادی ہے۔ ہماری مرکزی سرکار اور ریاستی سرکار یں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو بھارت میں کاروبار کے لیے آمادہ ضرور کررہی ہیں لیکن اس بات پر ان کی توجہ بہت کم ہے کہ ان کام دھندوں سے روزگار بڑھیں گے یا نہیں۔ بھارت کو لاکھوں کروڑوں لوگوں کو وسطی ایشیا کے وسیع علاقوں میں روزگار کے بے مثال مواقع مل سکتے ہیں لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہمارے نیتاؤں اور ان کے رہنما نوکر شاہوں کو ان علاقوں میں دبے یورینیم‘ لوہے‘ تانبے‘ گیس اور تیل کے بھنڈاروں کے بارے میں پوری جانکاری ہو۔ریلوے بھرتی بورڈ میں غیر تکنیکی کیٹیگری کے نتائج کے خلاف جس طرح طلبہ سڑکوں پر اترے اور احتجاج کیا‘ اس پر کئی سیاسی پارٹیوں نے اپنا موقف پیش کیا۔کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانکاگاندھی نے پریاگ راج کے طلبہ سے بات کی اور انہیں اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ اب اس معاملہ میں عام آدمی پارٹی کی خاموشی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ اس پارٹی کی شروعات ہی ایک تحریک سے ہوئی تھی‘مگر اس طلبا تحریک پر اس پارٹی کی خاموشی حیرانی کا باعث ہے۔عام آدمی پارٹی کے بارے اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ان کی ترجیح بھی صرف اور صرف اقتدار ہے۔ سابق مرکزی وزیر اجے ماکن تو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عام آدمی پارٹی بنیادی طور پر بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور اس کا کام صرف سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچانا اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانا ہے۔واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب عام آدمی پارٹی طلبہ کے معاملے پر خاموش ہے‘ اس سے پہلے بھی جب دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ میں طلبہ کے خلاف پولیس کی کارروائی ہوئی تھی‘ تب بھی وہ خاموش رہی تھی اور CAA اور NRC کے خلاف احتجاج کے دوران بھی خاموش رہی تھی۔ عام آدمی پارٹی پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات پر بھی پراسرار خاموشی بنائے رکھی تھی۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو طلبہ کے اس احتجاج پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔
سپیکرکی من مانی ٹھیک نہیں
سپریم کورٹ کو ودھان سبھا (ریاستی قانون ساز اسمبلی) کے ایک سپیکر کے حکم کو مسترد کرنا پڑا ہے۔ یہ واقعہ افسوسناک ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھارت کی ریاستی اسمبلیوں پریہ الزام لگتا کہ وہ خود مختار ہوتی جا رہی ہیں۔ برطانیہ میں ماناجاتا ہے کہ پارلیمنٹ خودمختار ہوتی ہے۔ اس کے اوپر کوئی نہیں ہوتا لیکن مہاراشٹر ودھان سبھا نے ایک نیا سوال اچھالا‘ وہ یہ کہ کیا ودھان سبھا یا لوک سبھا کا سپیکر بھی خودمختار ہوتاہے؟ وہ جو کہہ دے‘ کیا وہی قانون بن جاتا ہے؟ 5 جولائی 2021ء کو مہاراشٹر کی ودھان سبھا کے سپیکر بھاسکر جادھو کے ساتھ کچھ ارکان نے کا فی کہاسنی کردی۔ انہیں برا بھلا بھی کہہ ڈالا۔ ان کا غصے میں آنا فطری تھا۔ انہوں نے ان ارکان کو پورے ایک سال کے لیے معطل کر دیا۔ یہ 12 ارکان بھاجپا کے تھے۔ بھاجپا مہاراشٹر میں اپوزیشن جماعت ہے۔ شو سینا گٹھ بندھن وہاں حکمران پارٹی ہے۔ سپیکر کے غصے پرہاؤس نے بھی ٹھپہ لگادیا۔ اب ارکان کیا کرتے ؟ کس کے پاس جائیں ؟ گورنر بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔وزیر اعلیٰ تو سپیکرکے ساتھ ہی ہیں۔ آخر کار انہوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے کو کھٹکھٹایا۔ اچھا ہوا کہ عدالت نے اپنا فیصلہ جلدی ہی دے دیا ورنہ ملک میں عدالتی نظام کی حالت تو ایسی ہے کہ مریض کو مرنے کے بعد دوا ملا کرتی ہے۔ ان معطل ارکان کو سال بھر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ عدالت نے مہاراشٹر ودھان سبھا کے ہاؤس میں ان کی موجودگی کو بحال کردیا ہے۔ اپنا فیصلہ دیتے وقت عدالت نے جو دلائل دیے وہ بھارتی جمہوریت کو تقویت دینے والے ہیں۔ وہ عوام کے تئیں ودھان پالیکا کی جوابدہی کو وزن دار بناتے ہیں۔ ججوں نے کہا کہ ارکان کی ایک سال کی معطلی ان کی برخاستگی سے بھی زیادہ بری ہے کیونکہ انہیں نکالے جانے کی صورت میں نئے چناؤ ہوتے اور ان کی جگہ دوسرے عوامی نمائندے ودھان سبھا میں عوام کی آواز بلند کرتے لیکن یہ معطلی توعوامی نمائندگی کی توہین ہے۔ اس کے علاوہ اگرارکان نے کوئی نامناسب رویہ اختیار کیا ہے تو انہیں اس دن یا اس سیشن سے معطل کرنے کا اصول ضرور ہے لیکن انہیں سال بھر کے لیے باہر کرنے کی پیچھے حکمران جماعت کی منشا یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپوزیشن کو بہت زیادہ اقلیت بنا کر من مانے قانون پاس کروالے۔ جہاں مہاراشٹر کی طرح گٹھ بندھن سرکار ہو وہاں تو ایسی تکڑم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس واقعے سے سپیکر‘ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں‘ سب کے لیے مناسب سبق نکل رہا ہے۔