پیگاسس کے جاسوسی سسٹم کولے کر بھارت سرکار پھر دلدل میں پھنس گئی ہے۔ سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے اسے مدعا بنانے کیلئے کمر کس لی ہے۔ سرکار کو نیند نہیں آئے گی کہ پارلیمنٹ کے اس سیشن میں وہ بجٹ پیش کرے گی یا اس اسرائیلی جاسوسی سسٹم کی مار سے خود کو بچائے گی۔ نیویارک ٹائمز نے یہ خبر اچھالی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2017ء میں اسرائیل یاترا کے دوران‘ جب دو ارب ڈالر کے ہتھیاروں کا سودا کیاتھا تبھی 500کروڑ روپے کا یہ جاسوسی سسٹم بھی خریدا تھا۔ پھر کیا تھا‘ بھارت کی تمام اپوزیشن پارٹیاں حاوی ہو گئیں۔ انہوں نے سرکار پر حملے شروع کر دیے۔ انہیں یہ بھی نہیں دھیان رہا کہ سپریم کورٹ نے اس سارے معاملے پر پہلے سے جانچ بٹھارکھی ہے۔ جب یہ معاملہ پارلیمنٹ کے پچھلے سیشن میں اٹھاتھا تو اتنا ہنگامہ ہوا کہ پارلیمنٹ ہی ٹھپ ہوگئی تھی۔ سرکار کی حالت اتنی پتلی ہوگئی تھی کہ اس کی گھگھی بندھ گئی تھی۔ وہ نہ تو پارلیمنٹ کو اور نہ ہی عدالت کویہ صاف صاف بتا سکی کہ اس نے اسرائیل سے یہ جاسوسی سسٹم خریدا تھا یا نہیں اور اس سسٹم سے اس نے مخالف سیاست دانوں، صنعتکاروں، صحافیوں اور اہم شہریوں کی جاسوسی کی تھی یا نہیں۔ بس وہ یہی کہتی رہی کہ یہ قومی سکیورٹی کا معاملہ ہے۔ وہ سارے حقائق عام نہیں کر سکتی‘ عدالت اجازت دے تو وہ خود جانچ بٹھا سکتی ہے۔ عدالت نے سرکار کے عذر کو رد کردیا اور ایک ریٹائرڈ جج کی صدارت میں اپنی جانچ بٹھا دی۔ عدالت، مخالفین اور کئی بڑے صحافیوں کا ماننا تھا کہ قومی سکیورٹی کی آڑ میں کوئی بھی سرکار شہریوں کی نجی آزادی کو پامال نہیں کر سکتی۔ اگر سرکار دہشت گردوں، سمگلروں ، ٹھگوں، شر پسندوں اورجرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاسوسی کرے تو وہ مناسب ہے لیکن اگر ایسا ہی ہے تو اسے ہکلانے، لڑکھڑانے اور گھبرانے کی ضرورت کیا ہے؟ سرکار کی اس گھبراہٹ کو نیویارک ٹائمز نے اب بڑے سر درد میں بدل دیا ہے۔ راہول گاندھی کا کہناہے کہ سرکار نے غلط کام کیا ہے‘ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے حملے کا شکار وزیر اعظم کی کرسی ہی ہو گی۔وزیر اعظم کے علم کے بغیر کسی وزیریا افسر کی ہمت نہیں کہ وہ اس طرح کی جاسوسی کرسکے۔ خود نریندر مودی کو چاہئے کہ وہ چاہے ان سب لوگوں کے نام اجاگر نہ کریں لیکن پارلیمنٹ میں بتائیں کہ کس طرح کے لوگوں کے خلاف پیگاسس سسٹم کا استعمال ہوتا رہا ہے اور اگر غلطی سے یا جان بوجھ کربے قصور، مخالفین، صحافیوں اور صنعت کاروں کے خلاف اس کااستعمال ہوا ہے تو ان سے معافی مانگ لیں اور اس معاملے کو یہیں ختم کریں۔
بجٹ ‘ محض دکھاوا
اس سال بھارت کا جو بجٹ پیش کیاگیا ہے اسے بھاجپاکے سیاستدان اگلے 25 سال اور 100 سال تک بھارت کو مضبوط بنانے والا بتا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن رہنما اسے بالکل بیکار اور مایوس کن قرار دے رہے ہیں۔ ویسے جب یہ بجٹ بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن پارلیمنٹ میں پیش کر رہی تھیں تو ان کے خطاب کو سننے والے لوگوں کو خاص طور پر عام لوگوں کو لگ رہاتھا کہ اس میں ان کیلئے کچھ نہیں ہے۔ سرکار نے نہ تو روزمرہ کے استعمال کی چیزیں سستی کرنے کا اعلان کیا ہے‘ نہ ہی انکم ٹیکس کو گھٹا کر درمیانے طبقے کو کوئی راحت دی ہے اور نہ ہی عام لوگوں کو کچھ مفت سہولتیں دینے کا اعلان کیا‘ جیسا کہ پچھلے بجٹوں کے وقت زبردست نوٹنکیاں ہوتی تھیں‘ اس بار ویسی بالکل دکھائی نہیں پڑیں۔ کل ملاکر یہ بجٹ دکھاواسا لگتا ہے لیکن جب اس کے سارے شماریات الگ سے تفصیل کے ساتھ سامنے آئے اور ٹی وی چینلوں پر طرح طرح کی بحثیں سنیں تو لگا کہ اس بجٹ میں بنیادی اصلاحات کے کئی ایسے قدم اٹھائے گئے ہیں جن پر سرکار کو عوام کو آسان زبان میں اچھی طرح سمجھانا ہوگا۔ سب سے بڑی بات تویہ ہے کہ اس بجٹ میں کہیں بھی ایسی جھلک نہیں ہے کہ اس کا پانچ ریاستوں کے چناؤ سے کچھ تعلق ہے، جیسا ہر شخص سوچ رہا تھا۔ سچ پوچھا جائے تو کسانوں اور متوسط طبقے کے کاروباری اور نوکری پیشہ لوگ تو اس بجٹ سے مایوس ہی ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں ضرور خوش ہوئی ہوں گی کہ ان کے ٹیکس میں کٹوتی ہوئی ہے لیکن سرکار نے جو سپنے اس بجٹ میں دکھائے ہیں اگروہ انہیں ٹھوس شکل دے سکی تو اس کی عوامی مقبولیت کافی حد تک بڑھے گی۔ جیسے اس نے 60 لاکھ نئے روزگاردینے ، 400 نئی ریلیں چلانے، سارے گنگا کے کنارے پر آرگینک فارمنگ کو فروغ دینے، غریبوں کو 80 لاکھ مکان دینے، 200نئے ٹی وی چینلوں کے ذریعے مادری زبان کی تعلیم کا پرچار کرنے‘ تقریباً چار کروڑ گھروں میں نلکوں کے ذریعے صاف پانی پہنچانے، پانچ ندیوں کو جوڑنے، 25 ہزارکلومیٹر کی نئی سڑکیں بنانے اور چھوٹی صنعتوں کے فروغ میں سوا دولاکھ کروڑ روپے لگانے کا اعلان کیا ہے ۔اس طرح کے اعلانات سننے میں تو اچھے لگتے ہیں لیکن ان پر بھروسا تبھی ہوگا جب لوگوں کو ان سے ٹھوس فائدے ملنے لگیں گے۔ کورونا مہاماری نے کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے اور کروڑوں کی آمدنی آدھی رہ گئی ہے، مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے، بہت سے لوگ علاج کی کمی میں مارے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر اس بجٹ میں عام لوگوں کو فوری ریلیف کے کچھ پیغامات ملتے تو اس کا کریڈٹ سرکار کو بھی ضرور ملتا۔ بھارت کیلئے 25 اور 100 سال کی ترقی کی بات کہی گئی ہے لیکن اگر بھارت میں تعلیم اور طب یعنی من اور تن کے سدھار کیلئے کوئی بنیادی انقلابی پہل اس سے ہوتی تو یہ بجٹ سچ مچ دوسرے بجٹوں سے بہتر اور تاریخی بھی کہلا تا۔
گوڈسے کا ذکر
30 جنوری کو مہاتما گاندھی کی برسی تھی لیکن اس دن دل توڑنے والے دو واقعات ہوئے‘ ایک تو گوالیار میں گوڈسے میموریل ڈے منایا گیا اور دوسرے گجرات کے کشن بھردواج کے قتل کی خبر سامنے آئی۔ کشن کو اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے کوئی توہین آمیز بات سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ آزادی کے 75ویں سال میں اگر بھارت میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ واقعات تعداد کے حساب سے نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی ان کا ہوتے رہنا کیااس بات کا مظہر نہیں کہ بھارت میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کے زہریلے بیج آج بھی ہرے ہیں۔ انہیں ذرا سا کھاد‘ پانی ملا نہیں کہ وہ برگد کا درخت بننے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ایسا غلط کام کرنے والوں کوبھارت کے زیادہ تر ہندو اور مسلمان غلط مانتے ہیں اور دبی زبان سے ان کی مذمت بھی کرتے ہیں لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس انتہا پسندی کو پھیلاتے ہیں ان کا ایسا ذہن کیوں بن جاتا ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ دھرم کے پیغام کو ٹھیک سے سمجھے ہی نہیں ہوتے۔ انہیں جو بھی گھٹی پلادی جاتی ہے اسے وہ آنکھ بند کر کے نگل جاتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اس زمانے میں بہت سے لوگ اپنے آپ کو بادشاہوں، حکمرانوں، راجاؤں اور سرکاروں کے چمچے بنادینے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں۔ انہی کے اشاروں پر وہ دھرم کی من چاہی تشریح کرڈالتے ہیں۔ یہ حکمران اپنے اقتدار کی ہوس کو شانت کرنے کیلئے دھرم کو سیڑھیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی لوگ سوچتے ہیں کہ ہم اپنا پنتھ پھیلانے کیلئے ان حکمرانوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان یہ سانپ سیڑھی کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ اسی کھیل کو ہم نے بھارت، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں صدیوں سے چلتا ہوا دیکھا ہے۔ دھرم کے نام پر جتنا خون بہا ہے وہ اقتدار کیلئے بہے خون سے کم نہیں ہے۔ جو سچا انسان ہے وہ انتہا پسندکیسے ہو سکتا ہے؟ ہتیاؤں سے کوئی اختلاف حل نہیں ہوتا‘ کیا ان سوالا ت کا جواب ان قاتلوں کے ہینڈلرز کے پاس ہے؟