بھارت کی پانچ ریاستوں میں ووٹنگ کی شروعات ہو چکی ہے۔ اس بار تقریباً سبھی پارٹیوں نے ووٹرز کو مائل کرنے کے لیے بڑی بڑی چوسنیاں لٹکا دی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اس بار یہ چوسنیاں بہت دیر سے لٹکائی گئی ہیں۔ ہر پارٹی انتظار کرتی رہی کہ دیکھیں دوسری پارٹی کون سی چوسنیاں لٹکاتی ہے‘ ہم اس سے زیادہ میٹھی اور خوبصورت چوسنی لٹکائیں گے۔ ان تمام سیاسی پارٹیوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کی ریاستی سرکاریں ان چوسنیوں کے لیے پیسہ کہاں سے لائیںگی؟ جو وعدے پانچ سال سے بھی پہلے کئے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے تو ان نئے وعدوںکا اعتبار کیا ہے؟ جو بھی ہو یہ پانچ ریاستوں کے چنائو اگلے عام چنائو کا کردار لکھیں گے۔ اس میں ذرا شک نہیں کہ جو پارٹی بھی خاص طور پر اترپردیش میں جیتے گی وہ 2024ء میں دندنائے گی۔ کانگرس اور بسپا (بہوجن سماج پارٹی) کی تو دال کافی پتلی ہونے والی ہے لیکن اگر بھاجپا جیت گئی تو قومی سطح پر یوگی آدتیہ ناتھ پھنکارنے لگے گا اور اس جیت کا سہرا نریندر مودی کے ماتھے بندھ جائے گا۔ اگر سماج وادی پارٹی جیت گئی تو اکھلیش یادو کی قیادت یا پہل پر ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک ہونے کی کوشش کریں گی۔ اسی طرح 2024ء کے عام چنائو میں مودی مخالف مورچہ کھڑا کر لیں گے۔ یہ ناممکن نہیں کہ بھاجپا گٹھ بندھن کی چھوٹی موٹی پارٹیاں بھی ٹوٹ کر اپوزیشن کی اس بارات میں شامل ہو جائیں۔ اترپردیش کا یہ صوبائی چنائو اس لئے بھی اہم ہے کہ ملک کے سب سے زیادہ ایم پیز (80) اسی پردیش سے آتے ہیں۔ ان چنائووں کی ایک دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ کچھ سیاسی اصولوں کی بنیاد پر نہیں لڑے جا رہے۔ جاتی واد اور فرقہ پرستی کا جتنا ڈھول ان چنائووں میں بجا ہے شاید کسی دوسرے چنائو میں نہیں بجا۔ یوگی اور مودی ہندو ووٹ بینک پر رال ٹپکا رہے ہیں اور سپا (سماج وادی پارٹی) کی کوشش ہے کہ پچھڑے‘ مسلمان اور دلت ووٹوں پر وہ قبضہ کر لے۔ ان دونوں پارٹیوں میں سے جو بھی سرکار بنائے گی اب اگلے پانچ سال اس کا راج چلانا مشکل ہو جائے گا۔ گٹھ بندھن میں گُھسے نیتا اور دَل اپنی سرکاروں کو بیچ منجدھار میں ڈبو کر جا سکتے ہیں۔ جہاں تک کسانوں کا سوال ہے ان کے ووٹ تو اپوزیشن کو ملنے ہی ہیں۔ اقتدار میں جو بھی آئے پنجاب اور اترپردیش کے کسان اس کا جینا حرام کر دیںگے۔ دوسرے الفاظ میں ان پانچ ریاستوں کے چنائو 2024ء کے عام چنائو کی عکاسی تو کریں گے ہی لیکن وہ جس طرح سے ہو رہے ہیں وہ بھارتی جمہوریت کے لیے فکر کا موضوع ہے۔ اگر یہ پرامن طریقے سے مکمل ہوتے ہیں تو بھارتی لوگ کم از کم یہ اطمینان کر سکیںگے کہ نوجوان تشدد اور فرضی ووٹنگ سے آزاد ہو رہے ہیں۔
کانگرس پر مودی کا حملہ
پارلیمنٹ کے نئے اجلاس میں بھارتی صدر کا خطاب حکومتی زیادہ اور سیاسی کم ہی ہوتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگرسی ایم پیز کے دھرے اڑا کر رکھ دیے۔ انہوں نے اپنی سرکار کی کامیابیاں بھاری بھرکم آنکڑوں کے ساتھ گنوائیں ہی ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے کانگرس پر اتنے شدید حملے کئے کہ آنے والے کئی دنوں تک کانگرسی نیتاؤں کے زخم ہرے رہیں گے۔ کانگرسی رہنما راہول نے بھی یوں تو کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی مودی سرکار کی ٹانگ کھینچنے میں لیکن راہول کا خطاب شاید کچھ نوسکھیوں نے تیار کروایا تھا جن کی استادی کی وجہ سے راہول مذاق کا موضوع بن گئے۔ مودی کے حکومتی صلاح کار جیسے بھی ہوں لیکن ان کے خطاب کے صلاح کار اعلیٰ معیار کے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ مودی نے اپنے بھاشن میں کانگرس کی قابلِ رحم حالت کو ظاہر کرنے میں حقائق کا انبار لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 60 سال تک بھارت پر تن تنہا راج کرنے والی کانگرس پارٹی نے اب حلف اٹھا لیا ہے کہ وہ اب اگلے سو سال تک اقتدار میں نہیں آئے گی۔ اسے ناگالینڈ میں حکومت کئے 24 سال‘ اڑیسہ میں 27 سال‘ جھاڑکھنڈ میں 37 سال اور تمل ناڈو میں 50 سال ہو گئے۔ جن ریاستوں میں 2014ء اور 2019ء سے پہلے بھی اس کی حکومت رہی وہ بھی کبھی رہی‘ کبھی نہیں رہی۔ بنگال‘ کیرل‘ مدھیہ پردیش‘ اتر پردیش‘ راجستھان اور گوا وغیرہ میں بھی برابر پھیر بدل ہوتا رہا اور تلنگانہ میں بھی وہ پٹ گئی۔ یہ اسی لئے ہو رہا ہے کہ وہ بے بنیاد ہو گئی ہے یعنی اس کی جڑیں زمین میں نہیں‘ عوام میں نہیں‘ بلکہ سیاسی لوگوں یعنی گاندھی خاندان میں ہیں۔ مودی نے کہا کہ میں اپنے الفاظ میں کہوں تو وہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ اسے عوام کے دکھ درد سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ سرکار نے جس بہادری سے کورونا کو ہرایا ہے‘ مہنگائی پر قابو پایا ہے‘ کروڑوں لوگوں کو اناج بانٹا ہے‘ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا دی ہے‘ اس کورونا دور میں نئے نئے کروڑوں کام دھندے لوگوں کو شروع کروائے ہیں‘ وہ سب کانگرس کو دکھائی نہیں دیتے۔ اگر کانگرس کو آئینہ دکھائیں تو اپنا چہرہ دیکھنے کے بجائے وہ آئینے کو ہی توڑ دینا پسند کرے گی۔ مودی کا کہنا تھا کہ کانگرس کے زمانے میں جیسے بدعملی ہی عمل بن گیا تھا‘ کیا بھاجپا سرکار پر کوئی انگلی بھی اٹھا سکتا ہے‘ کسانوں نے اناج پیداوار کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے سرکار نے بہت سے اقدامات کئے ہیں لیکن کانگرس موٹے کسانوں کو بھڑکاتی رہی۔ مودی نے اترپردیش چناؤ کا ذکر کئے بغیر وہاں کئے گئے بھاجپا کے کئی عوامی فلاحی کاموں کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے جواہر لال نہرو کے ذریعے ان کے زمانے میں بڑھی ہوئی مہنگائی پر دی گئی صفائی کا بھی مذاق اڑایا۔ بھاجپا پر کانگرس تقسیم کرنے والی سیاست کا جو الزام لگاتی آ رہی ہے اسی ٹوپی کو مودی نے کانگرس کے سر پر مڑھ دیا۔ مودی نے کانگرس کو ''تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی والی پارٹی قرار دیا۔ کہا کہ وہ ایک قوم کے تصور میں یقین نہیں رکھتی‘ وہ ٹکڑے ٹکڑے اور گینگ بن گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کانگرس کے پاس باصلاحیت اور بااثر مقررین کی کمی نہیں ہے لیکن افسوس کہ وہ اندرا گاندھی پریوار کے ممبران نہیں ہیں۔ نریندر مودی نے انڈیا کی سیاسی بساط پر آتے ہی روزگار‘ خوشحالی میں اضافے اور سرخ فیتے کے خاتمے جیسے بلند بانگ وعدوں کی مدد سے تہلکہ مچا دیا تھا۔ 2014ء اور پھر 2019ء کے انتخابات میں مودی کی جماعت کو ملنے والے بھاری مینڈیٹ سے عوام میں یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ملک میں قابل ذکر اصلاحات لائیں گے‘ لیکن اپنی وزارت عظمیٰ کے ان قریب آٹھ برسوں میں مودی کی حکومت کا معاشی ریکارڈ کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں ہے۔ مودی کی جانب سے 2025ء تک مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا طے شدہ ہدف 50 کھرب ڈالر کا تھا لیکن اب یہ محض ایک خواب لگتا ہے۔ نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے وقت جی ڈی پی سات سے آٹھ فیصد تھی لیکن 2019-20 ء کی آخری سہ ماہی تک یہ گر کر 3.1 فیصد تک پہنچ گئی۔ امریکی ادارے پیو ریسرچ کے مطابق غربت کا شکار ہونے والے بھارتیوں میں سے ایک تہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کو سالانہ کم از کم دو کروڑ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مودی کی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح مودی کا دور بھی حقیقت میں ایسا نہیں ہے جیسا وہ اپنی تقریروں میں بیان کرتے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہیں۔