دنیا کے کن کن مالک میں کیسی کیسی جمہوریت ہے‘ اس کاسروے ہر سال اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) نامی ادارہ کرتا ہے۔ اس سال اس کا اندازہ ہے کہ دنیا کے 167 ممالک میں سے صرف 21ممالک کو آپ حقیقی جمہوری ملک کہہ سکتے ہیں۔ 56ممالک خود کو جمہوریہ بتاتے ہیں لیکن وہ لنگڑاتی ہوئی جمہوریت ہیں یعنی دنیا کے زیادہ تر ممالک یا تو تانا شاہی میں جی رہے ہیں یا فوج شاہی میں یا پارٹی شاہی یاپریوار شاہی یا راج شاہی میں۔ ان ممالک میں عا م عوام کے حقوق کی پروا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ نہ سرکار‘نہ عدالت اورنہ ہی پارلیمنٹ۔ بھارت میں غیر جمہوری طریقے سے حکومت کوتبدیل کرنے کی کوشش نہیں ہوئی‘ آئین بھی اب تک جوں کا توں ہے۔ بھارت کے مرکز اور راجیوں میں اکثر سرکار یں بدلتی رہتی ہیں لیکن ایسا بلٹ سے نہیں‘ بیلٹ سے ہوتا ہے‘ مگر دنیا کے 167 ممالک کی فہرست میں بھارت کا نمبر 46واں ہے حالانکہ بھارت خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے‘ لیکن وہ سب سے اچھی جمہوریت ہر گز نہیں ہے۔ جن اچھے دس جمہوری ممالک کے نام اس فہرست میں سب سے اوپر ہیںوہ اوسطاً بھارت کے صوبوں سے بھی چھوٹے ہیں جیسے ناروے‘ نیوزی لینڈ‘ فن لینڈ‘ سویڈن اور آئرلینڈ وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا میں صرف تین ممالک؛ جاپان‘ جنوبی کوریااور تائیوان میں مکمل جمہوریت ہے۔ ایشیا کے دس ممالک میں ناقص جمہوریت‘ چھ میں ہائبرڈ اور سات میں آمریت ہے۔ بھارت کہہ سکتا ہے کہ چین جو آبادی میں اس سے بھی بڑا ہے وہ اچھی جمہوریتوں میں شامل نہیں ہے۔ اس سے چار سیڑھیاں نیچے بیٹھے ہیں؛ افغانستان‘ میانمار‘ شمالی کوریا اور لاؤس۔ اپنے دوست چین سے دو سیڑھی اوپر بیٹھا ہے پاکستان۔ کسی ملک میں جمہوریت ہے یا نہیں ہے اور کم ہے یا زیادہ ہے‘ یہ ناپنے کا پیمانہ ہے اس کے پانچ معیار، جو یہ ہیں:1‘ چناوی یعنی الیکشن کا عمل۔ 2‘ سرکاری کام کاج۔ 3‘ سیاسی حصے داری۔ 4‘ سیاسی اور ثقافتی آزادی اور 5‘ شہری حقوق۔ان سب بنیادوں پر جانچنے پر پتا چلتا ہے کہ امریکہ جیسا خوشحال ملک 26ویں نمبر پر ہے اور بھارت46ویںپر۔بھارت اور امریکہ سمیت دنیا کے 53 ممالک کے حکومتی نظام کو ناقص جمہوریت یا فلاڈ ڈیموکریسی کے قریب کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی کل آبادی میںصرف 6.4 فیصد عوام ہی صحت مند جمہوریتوں میں رہتے ہیں۔دوسرے ممالک کا جو بھی حال ہو‘ بھارتیوں کو اس کھوج میں لگنا چاہئے کہ ان کی جمہوریت میں کیاکیاخامیاں ہیں۔سب سے پہلی خامی تو یہی ہے کہ بھارت کی تمام سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں۔ ان میں داخلی آزادی صفر ہے۔ دوسری‘ رکاوٹ بھارت میں ووٹنگ کی بنیاد اکثر مذہب یا ذات بن چکی ہے۔ تیسری وجہ عوامی نمائندوں کو واپس بلانے کا حق عوام کو نہیں ہے۔ چوتھی بھارت کی حکومت‘ انتظامیہ‘ قانون اور انصاف سب کچھ اب پرانے مالک انگریز کی زبان میں ہی چل رہا ہے۔پانچویں وجہ‘ بھارتی نیتاؤں کا آئیڈیل دولت اور طاقت ہے‘ جمہوریت ہر گز نہیں! سارا حکومتی کام و انتظام نوکر شاہوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ چھٹی وجہ‘بھارت کے زیادہ تر عوام کے لیے مناسب تعلیم‘ علاج اور خوراک کا انتظام ابھی تک نہیں ہو سکاہے۔ ان سوالوں کے جوابات کوئی تلاش کرے تو بھارت میں جمہوریت لانے کی سوچ بھی پیدا ہو۔
بھارت سرگرم کیوں نہیں؟
یوکرائن کولے کر روس اور امریکہ کے مابین جیسے مڈبھیڑ کا ماحول بنا ہوا ہے‘ اس میں مجھے لگ رہا تھا کہ چوگٹے یعنی کواڈ (Quad) کی میٹنگ میں بھارت کو بھی روس مخالف رویہ اپنانے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔ یہ چوگٹا امریکہ‘ بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کا دوستانہ اتحاد ہے۔ آسٹریلوی شہر میلبرن میں ہوئی اس کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس میٹنگ کے بعد جومشترکہ بیان جاری کیا گیا اس میں یوکرائن کا کہیں نام تک نہیں ہے۔ بھارت کے علاوہ تینوں ممالک یوکرائن کے معاملے میں روس مخالف رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ان کے سربراہانِ حکومت اور وزیرخارجہ تقریباً روزانہ ہی کوئی موقع نہیں چھوڑتے روس پر الزام لگانے کا۔ شاید بھارت کے غیر جانبدارانہ رخ کی وجہ سے کواڈ کی میٹنگ اس مسئلے پر خاموشی رہی ہے۔ جہاں تک بھارتی سلامتی کا سوال ہے‘ تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھارت کی واضح حمایت کا پہلی بار اتنے زوردارا لفاظ میں اعلان کیا ہے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرنے کہا کہ بھارت امریکہ تعلقات میں آتی ہوئی تبدیلی کی وجہ اس صدی کے بہت ہی واضح حالات واقعات ہیں۔ جے شنکر نے کہا کہ کواڈ کے ذریعے رکن ملکوں نے کافی ترقی کی ہے اور زیادہ تر یہ ترقی اس حقیقت کی وجہ سے ہوئی ہے کہ ہم نے اس کے لیے کافی وقت اور توانائی وقف کی ہے اور توجہ دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ترقی زیادہ تر اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ہمارے باہمی تعلقات کافی مضبوط ہیں۔ کواڈچار ملکوں کی سلامتی سے متعلق مذاکرات ہیں‘جن میں سے ہر ایک ملک کے موجودہ عالمی نظام کے تحت کھلے پن‘ شفافیت اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے تئیں کچھ عزائم ہیں۔مشترکہ بیان میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ہم ہر طرح کے بیرونی خطرے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم ممبئی اور پٹھان کوٹ میں ہوئے حملوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ اس مشترکہ بیان میں بھارت کی طرح بقیہ تینوں ممالک نے بھی جم کر بھارت کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ جہاں تک چین کا سوال ہے‘ ان چاروں ممالک نے چین پر بھی اشاروں‘ اشاروں میں تنقید کی ہے۔ البتہ واضح طور پر نہیں کی۔ جرنلسٹس کونسل میں ہر وزیر خارجہ نے چین کے خلاف دو ٹوک رویہ اپنایا لیکن بھارت کا لحاظ رکھتے ہوئے مشترکہ بیان میں صرف یہی کہاگیا کہ بھارت پرشانت سیکٹر کو کھلا اورکنٹرول فری رکھا جانا چاہئے تاکہ مختلف ممالک اپنے مفاد کی حفاظت کرسکیںلیکن اس رویے کی بھی چینی سرکار کے ترجمان نے سخت مذمت کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ چار فریقی اتحاد بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ چین کی مخالفت کی جائے۔ میانمار کے معاملے میں بھی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ میانمار میں ہم جمہوریت اور شہری آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس پر ہم بین الاقوامی پابندیاں لگانے کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت کا یہ رویہ میری نظر میں ا س لیے ٹھیک ہے کہ میانمار ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ہمارے بہت سے مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ کل ملاکر سبھی مدعوں پرکواڈ کی میٹنگ میں بھارت کا رویہ ٹھیک رہالیکن سمجھ میںنہیں آتا کہ یوکرائن اور میانمار کے معاملوں میں بھارت سرگرم کیوں نہیں نظر آرہا ؟ وہ بااثر ثالث بن سکتا ہے لیکن ایسالگتا ہے کہ اب عالمی مسائل حل کرانے کے اس کے اعتماد میں کمی آ چکی ہے۔