یوکرائن کا ماحول ابھی تک کچھ ایسا بناہوا ہے کہ وہاں کیا ہونے والا ہے‘ کوئی بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یہ اعلان تو کر دیا ہے کہ وہ اپنی کچھ فوجوں کو یوکرائن کی سرحد سے ہٹا رہے ہیں لیکن ان کی بات پر کوئی یقین نہیں کر رہا۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے یوکرائن میں پڑھ رہے ا پنے 20 ہزار سٹوڈنٹس کو صلاح دی ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لیے بھارت چلے آئیں۔ ادھر نیٹو کے جنرل سیکرٹری جینز سٹولنبرگ نے روسی افواج کی واپسی کو ابھی ''بیان کی حد تک‘‘ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ان کی واپسی ہوتے ہوئے دیکھیں گے‘ تبھی صدر پوتن کے بیان پر بھروسہ کریں گے۔ پہلے بھی روسی فوجی واپس گئے لیکن وہ اپنے ہتھیار وہیں چھوڑ جاتے ہیں تاکہ دوبارہ سینہ ٹھوکنے میں انہیں ذرا بھی دیر نہ لگے۔ اسی موقع پر یوکرائن کی سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی وزارتِ دفاع اور 2 بینکوں پر کل سائبر حملہ ہوا وہ روسیوں نے ہی کرایا ہے۔ صدر پوتن کے اعلان پر امریکا اور کچھ نیٹو ممبران کو اب بھی بھروسہ نہیں ہو رہا ہے لیکن روسی سرکار کے ترجمان نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ روس کا ارادہ حملہ کرنے کا بالکل نہیں۔ وہ صرف ایک بات چاہتا ہے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے۔ یہ ایسا مدعا ہے جس پر فرانس، جرمنی، روس اور یوکرائن نے بھی 2015ء میں ایک سمجھوتے کے ذریعے اتفاقِ رائے کیا تھا۔ روسی افواج کے جارحانہ تیوروں سے یورپ میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ پہلے فرانس کے صدر میکرون نے روسی صدر پوتن سے بات کی اور اب جرمنی کے چانسلر اولف شولز خود صدر پوتن سے ملنے ماسکو گئے۔ اس سے پہلے وہ یوکرائن کے دارالحکومت کیو (Kyiv) جا کر صدر ولادیمیر (Volodymyr Zelenskyy)سے بھی ملے۔ وہ ایک حقیقی ثالث کا کردار نبھا رہے تھے۔ اس میں ان کا قومی مفاد مضمر ہے، کیونکہ جنگ چھڑ گئی تو اور کچھ ہو یا نہ ہو‘ جرمنی کو روسی تیل اور گیس کی سپلائی بند ہو جائے گی اور جرمنی کی معیشت گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ شولز کی کوششوں کا اثر پوتن پر ضرور ہوا ہے۔ جرمن چانسلر نے روسی صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کی مخالفت کریں گے۔ یوں بھی امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی صدر پوتن سے ہوئی اپنی بات چیت میں کہا تھا کہ نیٹو کی رکنیت یا تعداد بڑھانے کا ان کا کوئی خیال نہیں ہے اور امریکی سرکار نے یہ بھی صاف صاف کہا تھا کہ وہ یوکرائن میں دور تک مار کرنے والی میزائل تعینات نہیں کریں گے۔ لندن میں یوکرائن کے سفیر نے بھی کہا ہے کہ یوکرائن اب ناٹو میں شامل ہونے کے ارادے کو چھوڑنے والا ہے۔ صدر زیلینسکی نے بھی کہا ہے کہ نیٹو کی رکنیت ان کے لیے ایک خواب کی طرح ہے۔ یورپ‘ امریکا اور روس‘ تینوں کو معلوم ہے کہ اگر یوکرائن کو لے کر جنگ چھڑ گئی تو وہ دوسری عالمی جنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اب یہ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا دکھائی پڑ رہا ہے لیکن روسی پارلیمنٹ نے ابھی ایک تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ یوکرائن کے جن علاقوں میں علیحدگی کی مانگ ہو رہی ہے انہیں روس اپنے ساتھ ملا لے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اب مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو بطور آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ''ڈونیٹسک‘‘ اور ''لوہانسک‘‘ کے علاقوں میں روسی حمایت یافتہ باغی 2014ء سے یوکرائن کی افواج سے لڑ رہے ہیں اور وہ ان علاقوں کو ''آزاد ریاستیں‘‘ قرار دیتے ہیں۔ برطانیہ نے تنبیہ کی ہے کہ روسی صدر پوتن کی جانب سے یوکرائن کے بارے میں لیے گئے اقدامات کے باعث روس پر پابندیاں عائد کی جائیں گی مگر روس کے نائب وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر روس کو ضرورت محسوس ہوئی تو وہ باغیوں کے زیر انتظام دونوں ''ریاستوں‘‘ میں اپنے فوجی اڈے قائم کرے گا۔ لگتا ہے روس کل ملا زبردست دباؤ کی ڈپلومیسی کر رہا ہے مگر اس کا اثر عالمی منڈی پر نہایت منفی پڑ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خام تیل کی عالمی منڈی میں قیمت 97 ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ لندن اور ایشیا کی سٹاک مارکیٹوں میں مندی دیکھنے میں آئی ہے اور خدشہ ہے کہ امریکا سمیت باقی دنیا میں بھی یہ رجحان جاری رہے گا۔
بھوپال کے محبوب کا کارنامہ
موت کے منہ میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے کے قصے اکثر سننے میں آتے رہتے ہیں۔ کنویں میں گرے ہوئے بچوں کو باہر نکال لانے‘ دھنسے ہوئے مکانوں میں سے لوگوں کو باہر کھینچ لانے‘ ڈوبتے ہوئے بچوں کو بچا لانے وغیرہ کی خبریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے بہادر لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن بھوپال کا یہ قصہ تو رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ پرانے بھوپال میں ریل کی پٹڑیاں کچھ ایسی بنی ہوئی ہیں کہ آپ انہیں پیدل پاس کیے بغیر آپ ایک طرف سے دوسری طرف جا ہی نہیں سکتے۔ نہ تو وہاں کوئی زیر زمین راستے ہیں اور نہ ہی پٹڑیوں کے اوپر پل بنے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی پٹڑی پار کرکے سنیہا گوڑ نامی ایک 24 سالہ لڑکی دوسری طرف جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس وقت پٹڑی پر 24 ڈبوں والی مال گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی سنیہا نے دو ڈبوں کے درمیان کی خالی جگہ میں پائوں رکھے‘ مال گاڑی اچانک سے چل پڑی۔ وہ وہیں گر گئی۔ اسے گرتا ہوا دیکھ کر ایک 37 سالہ انجان آدمی اس پٹڑی پر لیٹ گیا۔ اس کا نام ہے محمد محبوب! محبوب نے اس لڑکی کا سر اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تاکہ وہ اٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر اس کا سر ذرا سا بھی اونچا ہو جاتا تو ریل کے ڈبے سے وہ پِس جاتا۔ سنیہا کا بھائی پٹڑی کے دوسری طرف کھڑا کھڑا چلا رہا تھا۔ اس کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اسے سنیہا پُرسکون کرنا چاہتی تھی لیکن وہ خود گڑبڑ نہ کر بیٹھے‘ اس لیے محبوب بار بار اسے کہہ رہا تھا ''بیٹا! تُو ڈر مت! میں ہوں‘‘۔ ریل نکل گئی اور دونوں بچ گئے۔ جب سنیہا اور اس کے بھائی نے یہ قصہ گھر جا کر اپنی ماں کو بتایا تو اسے کوئی من گھڑت کہانی سمجھنے لگی۔ سنیہا کے بھائی نے اپنی ماں کو وہ وڈیو دکھائی جو اس نے اپنے موبائل سے بنائی تھی۔ اس وڈیو میں سنیہا کو اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے محبوب دکھائی پڑ رہا تھا۔ محمد محبوب نے اپنی جان پر کھیل کر ایک بیٹی کی جان بچائی۔ اسے کتنا بھی بڑا انعام دیا جائے‘ کم ہے۔ میں تو مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر بھائی شوراج چوہان سے کہوں گا کہ محبوب کا شہری اعزاز دیا جانا چاہئے۔ محبوب ایک غریب بڑھئی ہے۔ اس کے پاس موبائل فون تک نہیں ہے۔ وہ ایک سات رکنی کنبے کا بوجھ ڈھوتا رہتا ہے۔ سنیہا کی حفاظت کا یہ قصہ وزارتِ ریل کو بھی محتاط کر رہا ہے۔ اسے چاہیے کہ بھوپال جنکشن سے ڈیڑھ کلومیٹر دور واقع اس عیش باغ نامی جگہ پر فوراً ایک پل بنوائے۔ اس جگہ پر پچھلے سال اسی طرح 18 اموات ہو چکی ہیں۔ اگر ریل وزارت اس معاملے میں کچھ تعطل دکھا رہی ہے تو مدھیہ پردیش کی سرکار کیا کر رہی ہے؟ مجھے تو بھارتی میڈیا سے بھی شکایت ہے۔ یہ بہادری اور ذہانت کا ایسا شاندار واقعہ ہے جسے ہمارے ٹی وی چینلوں اور اخباروں پر جم کر دکھایا جانا چاہئے تھا لیکن دہلی کے صرف ایک انگریزی اخبار میں ہی یہ واقعہ تصویر کے ساتھ چھپا ہے جسے محمد محبوب پڑھ بھی نہیں سکتا۔ اس واقعے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انسانیت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ مذہب، ذات پات، حیثیت وغیرہ‘ انسانیت کے آگے یہ سب کچھ بہت چھوٹے ہیں۔ آج بھارت میں حجاب کو لے کر ہندوتوا کی نوٹنکیاں زوروں پر ہیں۔ ایسے میں اس واقعے سے بھی کچھ سبق ضرور لیا جا سکتا ہے۔