یوکرین کو بانس پر چڑھا کر امریکہ اور یورپی اقوام اب اس کے ساتھ جھوٹی ہمدردی ظاہر کر رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں امریکہ نے روس کی مذمت کی تجویز رکھی لیکن اسے کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی تجویز اوندھے منہ گر جائے گی؟ ابھی تو سلامتی کونسل کے 15میں سے 11 ارکان نے ہی اس کی حمایت کی تھی‘ اگر پوری سلامتی کونسل یعنی سبھی 14 ارکان بھی اس کی حمایت کردیتے تو بھی وہ تجویز رد ہو جاتی کیونکہ روس اس کو ویٹو کر دیتا۔موجودہ امریکی تجویز پر تین ممالک(چین‘ یو اے ای اور بھارت) نے ایبسٹین کیا یعنی وہ غیر جانبدار رہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہی کہ یہ تینوں ممالک روسی حملے کی نہ حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔ چین نے امریکی تجویز کی مخالفت نہیں کی‘ یہ تھوڑا حیران کن ہے‘کیونکہ اس وقت چین توامریکہ کا سب سے سخت مخالف ملک ہے۔ روس تو امید کر رہا ہو گا کہ کم سے کم چین توامریکی مذمتی قرارداد کی مخالفت ضرور کرے گا۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اس کا رویہ اس کے قومی مفاد کے عین مطابق تھا۔وہ روس مخالف قرارداد کی حمایت کیسے کرے گا؟ امریکہ اور نیٹو اقوام کے ساتھ بڑھتے تعلقات کے باوجود آج بھی بھارت کو سب سے زیادہ ہتھیار دینے والا ملک روس ہی ہے۔ روس وہ ملک ہے جس نے سرد جنگ کے دور میں بھارت کاتقریباً ہر مدعے پرساتھ دیا۔ گوا اور سکم کا بھارت میں ادغام کا سوال ہو ایٹمی بم کامعاملہ‘ روس نے ہمیشہ کھل کر بھارت کاساتھ دیا جبکہ اقوام متحدہ میں جب بھی بھارت سے متعلق کوئی اہم معاملہ آیا تو یوکرین نے بھارت کی مخالفت کی۔ چاہے ایٹمی تجربات کا معاملہ ہو یا سلامتی کونسل میں بھارت کی رکنیت کا‘ یوکرین نے بھارت کے مخالف رویہ ہی اپنایا ہے۔بھارت نے اس سے جب بھی یورینیم خریدنے کی پہل کی وہ اسے کسی نہ کسی بہانے ٹال گیا۔ ایسی حالت میں بھارت یوکرین کو روس کے مقابلے زیادہ اہمیت کیسے دے سکتا تھا؟ اس نے کھلے عام روس کا ساتھ نہیں دیا‘ یہ اپنے آپ میں کافی رہا۔ بھارت نے ثالثی کا موقع کھودیا‘ یہ اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے پاس کوئی تجربہ کار اور بین الاقوامی لحاظ سے نامور لیڈر یا سفارت کار نہیں ہے لیکن وہ چاہتا تو اپنے 20 ہزار سٹوڈنٹس کو جنگ سے پہلے ہی وہاں سے نکال لاتا۔ اگر اس کے پاس تجارتی جہاز نہیں ہیں اور ان کا کرایہ بہت زیادہ ہے تو بھارتی فضائیہ کے جہاز کیا دودھ دے رہے ہیں؟ سرکار انہیں اڑان بھرنے کے لیے کیوں نہیں کہتی؟کیف میں واقع بھارتی سفارت خانے کی حالت یقینی طور پر حیران کن ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ روس کا یہ حملہ کچھ گھنٹوں میں ختم ہو جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تب تک چلے گا جب تک کیف میں روس کی مرضی کی سرکار کا قیام نہیں ہو جاتا۔اگر ایسا ہوگیا تو امریکہ کے گلے میں نئی پھانس پھنس جائے گی۔ اربوںکھربوں ڈالر کی مدد کے جو اعلانات نیٹو ممالک ابھی کر رہے ہیں کیا تب بھی یوکرین کو ملتی رہے گی؟ روس پر پابندیوں کے اعلانات ضرور ہورہے ہیں لیکن نیٹو ممالک کے لیے بھی یہ اعلانات دم گھونٹو ہی ثابت ہوں گے۔
انکم ٹیکس کو جڑ سے تبدیل کریں
اس سال کے بھارتی بجٹ پر میرا مضمون پڑھ کر درجنوں لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے بھارت کی انکم ٹیکس کی خرابی پر سخت تبصرہ کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں کہ بھارت میں ''آئیکر‘‘کی جگہ ''جائیکر‘‘ لگاناچا ہئے‘ یعنی لوگوں کی آمدنی نہیں‘ خرچ پر ٹیکس لگنا چا ہئے تاکہ لوگ بچت کریں اور اس بچت کی رقم کا استعمال قوم کی تعمیر کے لیے بھی ہو سکے۔ دنیا کے تقریباً ایک درجن ممالک میں ان کے شہریوں پر انکم ٹیکس نہیں تھوپا جاتا ہے لیکن ''آئیکر‘‘ کی جگہ ''جائیکر‘‘ کانظام نافذ کرنے میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور اسے نافذکرنے کے لیے سرکاری کارکنوں کا ایماندار ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر بھارت سرکار میں اسے نافذ کرنے کا فی الحال دم نہیں ہے تو کم از کم وہ انکم ٹیکس سسٹم کو سدھارنے کی کوشش تو کرے۔ اس بجٹ میں کوئی کوشش دکھائی نہیں پڑی لیکن پچھلی سرکار وں نے بھی کیا کیا؟ انہوں نے انکم ٹیکس کی حد میں معمولی تبدیلی کرکے اپنی جان چھڑائی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ نوکری پیشہ درمیانے طبقے نے بھگتا۔ بھارت کے 140 کروڑ لوگوں میں سے صرف تقریباً چھ کروڑ لوگوں نے انکم ٹیکس فارم بھرے۔ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں نے ٹیکس دیایعنی مشکل سے دوفیصد لوگ ٹیکس بھرتے ہیں جبکہ دنیا کے جاپان‘ جرمنی‘ فرانس‘ امریکہ‘ برطانیہ جیسے امیر ممالک میں تقریباً 30 سے 50فیصد لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بھارت کے ان دو فیصد لوگوں میں سے ڈیڑھ فیصد سے بھی زیادہ متوسط طبقے کے نوکری پیشہ لوگ ہیں۔ وہ اپنی آمدنی چھپا نہیں سکتے لیکن جو کروڑ پتی‘ ارب پتی اور کھرب پتی لوگ ہیں ان پر اتنا زیادہ ٹیکس تھوپ دیا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس بچانے کے ایک سے ایک نئے طریقے تلاش کر لیتے ہیں۔پچھلے ماہ کانپور میں پرفیوم کے ایک تاجر کے گھر پر انکم ٹیکس اور انٹیلی جنس حکام کی جانب سے مارے گئے چھاپے کے دوران تقریباً 177 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم برآمد کی گئی۔اس تاجر کی ممبئی میں واقع کمپنیوں اور دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے اور حکام کے مطابق مجموعی طور پر ان چھاپوں کے دوران 250 کروڑ روپے سے زیادہ رقم برآمد ہو ئی۔بھارت کے سینٹرل بورڈ آف انڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ رقم جعلی بلوں اور کریڈٹ کارڈز کے بزنس کے ذریعے جمع کی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے یہ لوگ جعلی بل بناتے تھے اور اشیا کی کم قیمت ظاہر کرتے تھے۔ بغیر کسی بل کے سامان فروخت کرتے تھے۔ جتنے بھی بل ملے‘ وہ جعلی تھے۔سخت قوانین کے ذریعے ان تاجروں کو اس طرح ٹیکس چوری کے لیے مجبور کیاجاتا ہے لیکن بھارت کے کسانوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ چھوٹے کسانوں کو جانے دیں لیکن 5‘10 ایکڑ سے زیادہ کے کسانوں پر ٹیکس کیوں نہیں ہے؟ کھیتی کے نام پر نیتا‘ افسر اور موٹے سرمایہ دار اپنی اربوں روپے کی کالی کمائی کو وائٹ کرتے رہتے ہیں۔ جن غریب لوگوں سے سرکار انکم ٹیکس نہیں لیتی ہے وہ بھی زندگی بھر اپناپیٹ کاٹ کر طرح طرح کے ٹیکس بھرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے میری تجویزیہ ہے کہ انکم ٹیکس کی مقدار کافی گھٹانی چاہئے اور بھارت کے کم از کم 60‘ 70 کروڑ لوگوں کو انکم ٹیکس دہندگان بنانا چاہئے۔ اس میں بڑے اور درمیانے درجے کے کسانوں کو بھی جوڑنا چاہئے۔ اس کے علاوہ بھارت کے تقریباً 14‘ 15 کروڑ ایسے لوگوں کو جو 60 سال سے اوپر ہیں‘ انہیں سرکار کو کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دینا چاہئے۔ یہ بہت ہی عملی تجویز ہے بشرطیکہ انکم ٹیکس کے نظام میں انقلابی اصلاحات کی جائیں۔ اس لوک کلیان کاری پرستاؤ کے بارے میں تفصیل سے آگے کبھی لکھیں گے۔ اس تجویز کو نافذ کرنے کے لیے مہاراشٹر میں لاتور کے مشہور سماجی خدمت گار انل بوکیل نے زبردست مہم شروع کی ہے۔یہ وہی بوکیل ہیں جن کی 2014ء میں مَیں نے نریندر مودی سے ملاقات کرائی تھی اور جن سے صلاح لے کر مودی نے بھارت پر نوٹ بندی تھوپ دی تھی اور پھر مودی کی حکومت اس نوٹ بندی کے چکر میں پھنس گئی تھی۔