یوکرین کے معاملے میں امریکہ اور نیٹو بری طرح مات کھاگئے ہیں۔ امریکہ نے اپنی تضحیک یہاںپہلی بارنہیں کرائی ہے اس سے پہلے بھی وہ کیوبا‘ ویتنام اور افغانستان میں دھول چاٹ چکا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دنیا کے سب سے طاقتور اور سب سے خوشحال فوجی گروپ کو چاروںشانے چت کرکے رکھ د یا ہے۔ جو ملک روس سے ٹوٹ کر نیٹو میں شامل ہو گئے تھے اب ان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے۔ انہیں بھی یہ ڈر لگ رہاہوگا کہ یوکرین کے بعد کہیںان کی باری تونہیں آرہی۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ بیان کتنا حیران کن ہے کہ ان کی فوجیں صرف نیٹو ممالک کی حفاظت کریں گی۔ وہ اپنی فوجیں یوکرین نہیں بھیجیں گے۔ پوتن نے پہلے یوکرین کے تین ٹکڑے کردیے اور پھر انہوں نے وہاں اپنی ''شانتی سینا‘‘ بھجوادی یعنی نیٹو ممالک دم دار ہوتے تو وہ فوراً ہی اپنی فوجیں وہاں بھیج کر یوکرین کی خودمختاری کی حفاظت کرتے لیکن ان کا بغلیں جھانکنا ساری دنیا کو حیران کر گیا۔مجھے تو اسی وقت لگا امریکہ اور نیٹو اب تک جو دھمکیاں دے رہے تھے وہ خالص گیدڑ بھبکیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے پہلے سے ہی دعویٰ کیا تھا کہ روس یوکرین پر حملے کی تیاری کر چکا ہے اس لیے بائیڈن اور ان کے وزیر دفاع یہ نہیں کہہ سکتے کہ یوکرین پر روسی حملہ اچانک ہواہے۔ اس کے دور رس اثرات یہ بھی ہیں کہ روس کو اب نئی عالمی طاقت بن جانے کا موقع امریکہ نے فراہم کر دیا ہے۔ یوکرین توسمجھ رہا تھا کہ امریکہ اس کا محافظ ہے لیکن امریکہ نے ہی یوکرین کو مروایا ہے۔ اگر امریکہ اسے بانس پر نہیں چڑھاتا تو اس کے صدرزیلنسکی ہر حال میں پوتن کے ساتھ کوئی نہ کوئی سمجھوتا کر لیتے اور یہ تباہ کن نوبت آتی ہی نہیں۔ جرمنی اور فرانس کے رہنماؤں نے ثالثی کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہی ہونی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک نیٹو کے اہم ستون ہیں اور نیٹو یوکرین کو اپنا ممبر بنانے پر آمادہ ہے جو اس جھگڑے کی اصلی جڑ ہے۔ اس سارے تنازع میں بھارت بھی ثالث کا کردار ادا کر سکتا تھا جو دونوں فریقوں سے وہ صرف شانتی کی اپیل کرتا رہا۔اگرچہ اس کام میں اکیلے بھارت کو ہی شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ متعدد ممالک ایسے تھے جنہوں نے یہی صلاح دی۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان‘ جنہوں نے فروری کے آخر میں ماسکو کا دورہ کیا ہے‘ کی روس کے رہنماؤں سے ملاقات کی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا کہ سفارتکاری کو موقع دیا جانا چاہیے‘ یہ مسئلہ جنگ سے نہیں سفارتکاری سے حل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تنازع کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ترقی پذیر ممالک اس طرح کے تنازع میں معاشی لحاظ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اس لیے مسئلے کو مذاکرات اور سفارتی کاری کے ذریعے حل کرنا چاہیے مگر اس دوران جو بیان بھارت کی حکومت نے دیے وہ خالص لیپاپوتی یا خانہ پری کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں پچھلے کئی ہفتوں سے کہتا رہا ہوں کہ بھارت کوئی پہل ضرور کرے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس اقتدار یا اپوزیشن میںکوئی ایسا دانشمند رہنما نہیں جو اتنی بڑی پہل کر سکے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پوتن سے بات کی‘ اچھا کیا لیکن یہی کام وہ بائیڈن کے ساتھ بھی اگر مہینہ بھر پہلے کرتے تو اس کی قیمت کچھ اور ہوتی۔ بھارت میں یوکرین کے سفیر نے وزیر اعظم مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ روسی صدر سے بات کریں؛ تاہم انہوں نے بھارت کے موقف پر اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اب تو بھارت کی عزت اسی میں ہے کہ اس کے 20 ہزار سٹوڈنٹس اور ڈپلومیٹک لوگ یوکرین میں محفوظ رہیں اور ہم تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو برداشت کر سکیں۔وزیر اعظم مودی کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر پوتن نے یوکرین کے بارے میں تازہ صورتحال سے مودی کو آگاہ کیا جبکہ وزیر اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ فریقین باہمی اختلافات کو بات چیت سے حل کر سکتے ہیں۔ یوکرین معاملے پر امریکہ بھارت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور اس نے نئی دہلی سے مکمل حمایت پر زور دیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملک یوکرین تنازع پر ایک صفحے پر نہیں۔ایک سینئر امریکی اہلکار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کے معاملے پر بھارت کے مؤقف سے متعلق ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کو ٹال دیا تھاتاہم درپردہ گفتگو میں امریکی اہلکاروں نے یوکرین تنازع میں بھارت کے مؤقف پر اپنی ناخوشی جتائی ہے۔ ادھربھارت میں جہاں روسی حملے پر تشویش پائی جاتی ہے وہیں نئی دہلی روس کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو بھی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔
گورنر۔وزیراعلیٰ مڈبھیڑ
کیرالا میں کمیونسٹ پارٹی (مارکس وادی )کی سرکار ہے اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگرس کی سرکار ہے۔ ان دونوں ریاستوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے بیچ مسلسل مڈبھیڑ کا ماحول بنا رہتا ہے۔ ان دونوں ریاستوں سے آئے دن ایسی خبریں دہلی کے اخباروں کے صفحہ اول پر چھائی رہتی ہیں جو وہاں کسی نہ کسی آئینی بحرا ن کا شبہ پیدا کرتی رہتی ہیں اور بھارت کے وفاقی نظام پر دوبارہ غور کرنے کے لیے مجبور بھی کرتی ہیں۔ اگر کیرالا کے گورنر عارف محمد خان نے اپنے ذاتی سٹاف میں کسی شخص کو تعینات کرلیا تو ان کے سینئر افسران کو یہ ہمت کہاں سے آگئی کہ وہ گورنر کو خط لکھ کر اس کی مخالفت کریں۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنرائی وجین کے اشارے کے بغیر وہ یہ بے باکی نہیں کر سکتے تھے۔ اس پر گورنر کی ناراضی فطری ہے۔ گورنر عارف خان کی دلیل ہے کہ کیرالا میں منتری لوگ اپنے 20‘20لوگوں کے ذاتی سٹاف کو تعینات کرنے میں آزاد ہیں۔ انہیں کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا ہے تو گورنر کو اپنے ذاتی معاون کو تعینات کرنے کی آزادی کیوں نہیں ہونی چاہئے ؟ انہوں نے ایک سنجیدہ داؤ پیچ کو ہی اس بحث کے دوران اجاگر کر دیا۔ دہلی کے مرکزی وزیر اپنے نجی سٹاف میں تقریباً درجن سے زیادہ لوگوں کو نہیں رکھ سکتے لیکن کیرالا میں 20 لوگوں کی تقرری کی سہولت کیوں دی گئی ہے؟ اتنا ہی نہیں‘ یہ 20 لوگ عموماً مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہوتے ہیں اور انہیں ڈھائی سال کی نوکری کے بعد زندگی بھر پنشن ملتی رہتی ہے۔ یہ پارٹی بازی کا نیا پینترا سرکاری ملازموں کے کل خرچ میںسیندھ لگاتا ہے۔ گورنر اور مکھیہ منتری کے درمیان اس بات کولے کر بھی پچھلے دنوں شدید تنازع چھڑ گیاتھا کہ کسی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تقرری کرنے کا حق گورنرکو ہے یا نہیں؟ وزیر اعلیٰ تو تجویز کردہ ناموں کی فہرست بھیجتے ہیںعارف خان کچھ نامناسب ناموں سے اس قدر تنگ ہو گئے تھے کہ اپنے اس اختیار کو ہی تج دینے کو تیار تھے۔ اب کیرالاکے کمیونسٹ نیتاؤں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ گورنر کا عہدہ ہی ختم کر دیا جائے یا ریاستی اسمبلی کو حق ہو کہ وہ اسے برخاست کرسکے اور اس کی رضامندی سے ہی گورنر کی تقرری ہو۔ اگر کیرالا کے کمیونسٹ نیتاؤں کی اس بات کو مان لیا جائے تو بھارت کا وفاقی ڈھانچہ ہی چرمرانے لگ سکتا ہے۔ کئی ریاستوں کے گورنرز اور چیف منسٹرز میرے ذاتی دوست ہیں۔وہ ایسے تنازعات کا ذکر اکثرکرتے ہیں۔ ایسے متنازع صوبوں‘ خاص طو پر گورنر جگدیپ دھنکڑ اور مکھیہ منتری ممتا بینرجی کی کشیدگی کی خبریں پڑھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ممتا جی کئی بار اپنے بھاشنوں اور میٹنگوں میں آداب کو پھلانگ جاتی ہیں۔ دیگر ریاستوں سے بھی ایسی شکایتیں آتی رہتی ہیں۔ گورنر کا عہدہ وزیر اعلیٰ سے اونچا ہوتا ہے اس لیے ہر وزیر اعلیٰ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی مدعے پر اپنے گورنر سے غیر متفق ہو تو بھی شائستگی کا پورا خیال رکھے۔ اسی طرح سے گورنروں کو بھی چاہئے کہ مسلسل کشیدگی میں رہنے کے بجائے اپنے وزیر اعلیٰ کو صحیح اور آئینی تقاضا بتاکر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ جو بھی اوٹ پٹانگ کام کرے گا‘ اس کا پھل بھگتے بغیر نہیں رہے گا۔