یوکرین کا مسئلہ الجھتا ہی جارہا ہے۔ بیلاروس میں چلی‘ روس اور یوکرین کی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اتناہی نہیں صدر پوتن نے ایٹمی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے یورپی یونین کی رکنیت کیلئے باقاعدہ عرضی بھیج دی۔جھگڑے کی اصل جڑ یہی تو ہے۔ زیلنسکی کی عرضی کا مطلب ہے کہ روسی حملے سے ڈر کر بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے کے بجائے یوکرین کے سیاستدانوں نے غضب کا حوصلہ دکھا یاہے۔ روس بھی حیران ہے کہ یوکرین کی فوج تو فوج‘ عوام بھی روس کے خلاف میدان میں نکل آئے ہیں۔ پوتن کے ہوش اس بات سے فاختہ ہورہے ہوںگے کہ نیٹو کی عدم فعالیت کے باوجود یوکرین ابھی تک روسی حملے کا مقابلہ کیسے کرپارہا ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے ایٹمی جنگ کی دھمکی اچھالنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی تاریخ میں یہ 11 ویں ہنگامی میٹنگ بلائی تھی لیکن اس میں بھی وہی ہوا جوسلامتی کونسل میں ہواتھا۔ دنیا کے گنے چنے ممالک کو چھوڑ کر تمام ممالک میں روس کے حملے کی مذمت ہو رہی ہے۔ خود روس میں صدر پوتن کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس وقت صدر زیلنسکی کی جانب سے یورپی یونین کی رکنیت کے مطالبے کا تڑکا لگانے سے یہ سارا معاملہ پہلے سے بھی زیادہ الجھ گیا ہے۔اب اپنی ناک بچانے کیلئے صدر پوتن بڑا خطرہ بھی مول لینا چاہیں گے۔ اگر زیلنسکی ٹک گئے تو ماسکو میں پوتن کی گدی ہلنے لگے گی۔ ابھی یوکرین میں شانتی ہوگی یا نہیں اس بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں بھارت کے تقریباً 20ہزار شہریوں اور سٹوڈنٹس کو واپس لے آنا ہی بہتررہے گا۔ اس سلسلے میں بھارت کے چار وزرا کو پڑوسی ممالک میں تعینات کرنے کا فیصلہ ڈرامائی ہوتے ہوئے بھی کافی حد تک مناسب ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار سٹوڈنٹس بھارت آچکے ہیں اور آٹھ ہزار یوکرین کے پڑوسی ممالک میں چلے گئے ہیں۔ بھارتی ہوائی کمپنیاں بھی ڈٹ کر تعاون کر رہی ہیں۔ اگر یہ معاملہ لمبا کھنچ گیا تو بھارت کی ہوائی آمدورفت پر گہرا اثر تو پڑے گا ہی عام آدمی کے استعمال کی چیزیں بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ بھارت کی معیشت پر گہرا غلط اثر پڑ سکتا ہے۔ اس مسئلے نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ بھارت کے تقریباً ایک لاکھ سٹوڈنٹس میڈیکل کی پڑھائی کیلئے یوکرین‘ مشرقی یورپ اور چین وغیرہ ممالک میںکیوں چلے جاتے ہیں؟ کیونکہ وہاں کی میڈیکل پڑھائی بھارت سے 10‘20گنا سستی ہے۔ کیا یہ حقیقت بھارت سرکار اور بھارتی یونیورسٹیوں کیلئے بڑی چنوتی نہیں ہے؟ خود مودی نے'' من کی بات‘‘میں اس سوال کو اٹھا کر اچھا کیا لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ فوراً اس کا حل بھی تلاش کیاجائے۔
بھارت پہل کیوں نہ کرے؟
یوکرین میںایک بھارتی سٹوڈنٹ کی موت نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت سرکار کی طرح بھارت کے عوام بھی اب تک بالکل غیر جانبدار تھے۔ وہ اس جنگ کو ایک غیر جانبدار ناظر کی طرح دیکھ رہے تھے لیکن کرناٹک کے سٹوڈنٹ نوین کی ہلاکت روسی گولی سے ہوئی ہے‘ اس خبر نے پورے ملک میں غصہ پیدا کردیا ہے۔ لوگوں نے یوکرین جنگ کو اب اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت سے روس کے تاریخی گہرے تعلقات کے باوجود اب لوگوں نے روسی حملے پر تنقید شروع کر دی ہے۔ سرکار کو تو اپنے قومی مفاد کی فکر کرنی ہے لیکن عام لوگ کسی بھی مدعے پر اپنا نقطہ نظر خالص اخلاقی بنیاد پر بناسکتے ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یوکرین جیسے خودمختار اور آزاد ملک پر اس طرح کا حملہ کرنے کا حق روس کو کس نے دیا؟ اس سے بھی زیادہ‘ بھارت کے لاکھوں لوگ اس بات سے خفا ہیں کہ ہزاروں بھارتی نوجوان یوکرین کے مختلف شہروں میں اپنی جان نہیںبچا پا رہے۔ یہ تو ایک سٹوڈنٹ کو گولی لگی ہے تو خبر عام ہو گئی لیکن جو سٹوڈنٹس بنکروں میں چھپ کر اپنی جان بچا رہے ہیں ان کو پیٹ بھرروٹی اور پینے کو پانی تک نصیب نہیں‘ ان کا کیا ہو گا؟ معلوم نہیں کتنے لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ کتنے یوکرین کی سرحد پیدل پار کرتے ہوئے قربان ہو جائیں گے اور کتنے ہی روسی بموں اور گولیوں کے شکار ہوں گے۔ سینکڑوں سٹوڈنٹس کے فوٹو بھی شائع ہوئے ہیں جو یوکرین کی خوفناک ٹھنڈ میں موت کے کنارے پر کھڑے ہیں۔حکومت کے مطابق وہ سٹوڈنٹس کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن اگر وہ چوکنا ہوتی تو یہ پہل دو ہفتے پہلے ہی کر ڈالتی۔ مجھے خوشی ہے کہ کچھ دن پہلے میں نے ایئر فورس کے استعمال کا جو سجھاؤ دیاتھا اس پر سرکار نے اب عمل شروع کردیا ہے۔اس نے فی الحال یہ اچھا کیا کہ وہ یوکرین کو سیدھی مدد پہنچارہی ہے۔ روس اور یوکرین یا روس اور نیٹو کے درمیان اس کی غیر جانبداری مکمل طور پر درست سمت ہے اوریہی خوبی اسے بہترین ثالث بننے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ وہ روس اور امریکہ دونوں کو اب بھی سمجھا سکتا ہے کہ وہ اس جنگ کو بند کروائیں۔ اگر یہ جنگ لمبی کھنچ گئی تو یوکرین کی بربادی توہوہی جائے گی جو بائیڈن اور پوتن کا وقار بھی پیندے میں بیٹھ جائے گا۔ یوکرین کے عوام اور اس کے صدر ا بھی تک ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ بھارت سرکار ان سے بھی سیدھی بات کر سکتی ہے۔
عالمی سیاست اور بھارت؟
یوکرین سے لوگ یورپ کی طرف انخلا کر رہے ہیں‘ یہ اطمینان کی بات ہے لیکن وہاں چل رہی جنگ بندنہیں ہو رہی‘ یہ افسوس کی بات ہے۔ ایک روس خفیہ دستاویز کے اچانک ظاہر ہوجانے سے پتا چلا ہے کہ روس کی جنگ 15 دنوں تک چلنے والی ہے۔ اگر یہ اگلے 6‘7 دن اورچلتی رہی تو یوکرین کے دوسرے شہر بھی تباہ ہو جائیں گے۔ روس کی سرحد سے متصل کچھ شہروں پر تو روسی افواج کا قبضہ ہوچکا ہے۔ وہاں کے شہری بجلی‘ پانی‘ دوا‘ دارو اور کھانے پینے کے محتاج ہو رہے ہیں۔ کئی بڑی بڑی عمارتیں ہوائی حملوں میں تباہ ہو چکی ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ بھاگ کر پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ بھارت کے تین ہزار سٹوڈنٹس اب بھی کچھ شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ فکربھی ہے کہ بھارت لوٹنے پر ان کی میڈیکل کی پڑھائی کا کیا ہوگا؟ جو پیسے ان کے ماں باپ نے ان کی پڑھائی پر‘ یوکرین میں اب تک خرچ کیے ہیں وہ کیا کھوہ کھاتے میں چلے جائیںگے؟ بھارت میں ان کی میڈیکل پڑھائی کا بھاری خرچ کون اٹھائے گا؟ بھارت سرکار ان کے اس مسئلے کا بھی حل تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پردھان منتری نریندر مودی نے میڈیکل کی پڑھائی ہندی میں شروع کرنے کی بات بھی کی ہے۔ دوسری طرف اس پروپیگنڈے کی تردید روس اور یوکرین دونوں نے کی ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں بھارتی سٹوڈنٹس کو اپنی ڈھال بنا رہی ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی پورا خطرہ ڈٹ کر جھیل رہے ہیں۔ وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ جھک نہیں رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روس انہیں یا تو گرفتار کر لے گا یا مار ڈالے گا۔ یوکرین کو نیٹو کافی جارحانہ میزائل بھی دے رہا ہے لیکن انہوں نے یوکرین کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ امریکی سینیٹ میں اس کے کچھ ارکان بھارت کے حق میں اور کچھ اپوزیشن میں بھی بول رہے ہیں۔ چوگٹے (کواڈ) کی میٹنگ میں بھی بھارت اپنے رویے پر قائم رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی غیر جانبداری کو روس اور امریکہ دونوں ٹھیک سے سمجھ رہے ہیں۔ کوئی غیر جانبدار قوم ہی ایک اچھی ثالث ہو سکتی ہے۔ ہماری سرکار اپنے سٹوڈنٹس کو واپس لانے کی تو اچھی کوشش کر رہی ہے لیکن اس موقع پر ملک کے حق میں یا خلاف کوئی تجربہ کار اورعقلمندنیتا ہوتا تو بھارت کا کردار منفرد ہو سکتا تھا۔ یہ خوش آئند اتفاق ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر بھارت کے حق اور مخالفت میں اتفاق رائے ہے۔ یوکرین کے مسئلے کے بعد عالمی سیاست جو شکل اختیار کرے گی اس میں بھارت کا کردار کیا ہوگا‘ اس کی فکر ہمیں ابھی سے کرنی ہوگی۔