بھارت کی پانچ ریاستوں کے حالیہ نتائج کا اصلی مطلب کیاہے اور بھارت کی قومی سیاست پر ان کے کیا اثر پڑیںگے؟ پنجاب کو چھوڑدیں تو چار ریاستوں اتر پردیش، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھاجپا کو مخالف سیاسی جماعتوں سے دوگنا سیٹیں ملی ہیں۔پنجاب میں اس کا پچھڑ جانا اور آپ پارٹی کی آمد کی پہلے سے توقع کی جا رہی تھی ۔بھاجپا کی اس جیت کا پیغام یہ ہے کہ 2024ء کے اگلے عام چناؤ میں بھاجپا کی جیت یقینی ہے۔ اس وقت بھی بھارتی سیاست میں ایسا کوئی نہیں ہے جو بھاجپا یا مودی کی قیادت کو چنوتی دے سکے۔ تقریباً سبھی صوبوں میں کانگرس کی شکست غیر معمولی رہی ہے۔ جن صوبوں میں آج بھی کانگرس کی سرکار یں ہیں، وہ بھی نااہل نیتاؤں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اب کھسک سکتے ہیں۔ ان ریاستوں کے گورنروں اور غیر کانگرسی وزرائے اعلیٰ کے درمیان چل رہی مڈبھیڑ کبھی بھی خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔بھارتیہ اپوزیشن کا اتنا کمزور ہونا بھارتیہ جمہوریت کے لیے خوشی کا موضوع نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ ناممکن نہیں کہ بھاجپا کی یہ غیر معمولی جیت تمام مخالف پارٹیوں کو اتنا ڈرا دے کہ وہ 2024ء میں ایک متحدہ مورچہ کھڑا کرلیں۔ اتر پردیش میں سپا نے چھوٹی موٹی پارٹیوں سے گٹھ بندھن کرکے اپنی طاقت ڈھائی تین گنا بڑھالی ہے۔ اس گٹھ بندھن کی قیادت کرنے کی ہمت، ہوسکتا ہے کہ'' آپ پارٹی‘‘ کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے کانگرس کو پنجاب میں پٹخنی دے کر چمتکاری جیت حاصل کی۔ پنجاب اور اتراکھنڈ میں کانگرس کے نیتاؤں کا ہارنابھارت بھر کے کانگرسی کارکنان کواپنے قومی نیتاؤں پر ترس کھانے کے لیے مجبور کرے گا۔ اس چناؤنے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ذات برادری اس بار مات کھاگئی ہے۔ سپا نے پچھڑی جاتیوں اور اقلیتی آبادیوںکو جوڑنے کی زبردست کوشش کی تھی۔ اسے تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی لیکن اتر پردیش میں بھاجپا سرکار کے عوامی مفاد کے کام مذکورہ کوشش پر بھاری پڑ گئے ۔ کسان احتجاج بھی اس چناؤ پر زیادہ اثر نہیں ڈال پایا۔ اتر پردیش میں اب تین چار دہائی بعد ایسا ہوا ہے کہ بھاجپا سرکار نے اپنا پانچ سال کا اقتدار پورا کیا ہے اور یہ ایسی پہلی سرکار ہے جو لگاتار دوسری بار بھی راج کرے گی۔ بھاجپا کی یہ صوبائی جیت اس کے قومی حوصلے میں چار چاند لگادے گی لیکن یہ حوصلہ اس کے اونٹ کو کسی کروٹ بھی بٹھا سکتا ہے۔چناؤ مہم کے دوران مودی اور یوگی کی باڈی لینگوئج تشویشناک دکھائی پڑتی تھی لیکن یہ فیصلہ کن جیت ان کے گھمنڈ کو ایسا اچھال دے سکتی ہے جیسے 1971 کے چناؤ کے بعد اندرا گاندھی کو دیا تھا۔ بھاجپا ، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھاجپا کے مارگ درشک منڈل کو اس سے آگاہ ہیں۔ بھاجپا سرکار چاہے تو اپنی اس بقیہ مدت میں تعلیم، میڈیکل روزگار اور خارجہ پالیسی کے شعبے میں ایسے انقلابی کام کرسکتی ہے جو اسے 21ویں صدی کی دنیا کی سب سے بڑی ہی نہیں دنیا کی بہترین پارٹی بناسکتی ہے۔
حجاب پر پابندی نامناسب
کرناٹک ہائی کورٹ نے سکول اورکالجوں میں حجاب پر پابندی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبے اوڈوپی میں گزشتہ برس کے آخری روز چھ مسلمان طالبات کو جب حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخلے سے روکا گیا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ بھارت میں ایک بڑے تنازع کی صورت اختیار کر جائے گا۔گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 31 دسمبر کو حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخلے کی خواہش مند چھ مسلمان طالبات کو یہ کہہ کر کلاس رومز میں داخلے سے روک دیا کہ وہ کالج کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کر رہی ہیں لیکن ان مسلمان طالبات کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے تحت حجاب پہن کر کلاس رومز میں آ سکتی ہیں۔بس یہ ہی وہ اختلاف تھا جو کرناٹک سے ہوتا ہوا بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی ایک تنازع کی صورت میں پھیلنے لگا، اور نہ صرف مقامی ذرائع ابلاغ بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی بھارت میں حجاب تنازع موضوع بحث بن گیا۔بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں اب یہ بحث جاری ہے کہ یہ معاملہ بھارت کے تشخص کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس معاملے پر نہ صرف کرناٹک بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہو ئے۔بعد میں حجاب تنازع نہ صرف کرناٹک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت رہا بلکہ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی اس پر گرما گرم بحث بھی ہوئی۔ایوان بالا راجیہ سبھا میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن ایل ہنومنتھیا نے کہا کہ دستور کی دفعہ 14 اور 25 میں شہریوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے تاہم حکمراں بینچوں پر بیٹھے بعض اراکینِ پارلیمنٹ نے ایل ہنومنتھیا کو ٹوک دیا اور وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔ایوان زیریں لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) کی سپریا سولے نے بھی اس معاملے کو اٹھایا اور امیت شاہ سے اس معاملے پر پالیسی بیان دینے کا مطالبہ کیا۔لیکن حکمران جماعت کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی جس پر کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔میری رائے میں حجاب پر پابندی نامناسب ہے۔ ہمیں اس سے آگے کا سوچنا چا ہئے۔ مسلمان عورتیں حجاب پہنیں ، ہندو چوٹی یا جنیو رکھیں ، سکھ پگڑی، داڑھی، مونچھیں رکھیں اور عیسائی اپنے گلے میں کراس لٹکائیں۔ یہ نشانیاں مذہب کا حصہ ہیں۔آپ جس ملک میں جس ماحول میںرہتے ہیں اس کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان باہری چیزوں کا اہتمام کردیا جاتا ہے۔اگرچہ وقت کے ساتھ تقاضے بدل بھی جاتے ہیں مگر مذہبی نشانیوں کے احساس معاملے میں عقل مندی سے کام لیتے ہوئے طریقہ کار بنائے جاتے ہیں۔جیسے کئی کھیلوں میں مسلم لڑکیاں پورا لباس پہن کر کھیلتی ہیںیا سکھوں کو داڑھی نہ کٹوانے اور پگڑی پہننے کی سہولت ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے حجاب پر پابندی لگارکھی ہے مگر اس سے مذاہب کے درمیان فاصلے ہی بڑھے ہیں اور سماج کمزور ہوئے ہیں۔ان اثرات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان پابندیوں کا نہ ہونا ان کے ہونے سے بہتر تھا۔ میں تو سوچتا ہوں کہ ہندو پردہ اور مسلم حجاب دونوں ہی عورتوں کے حقوق ہیں۔ سکول‘کالجوں میں اگر خاص لباس کی ضرورت سمجھی جاتی ہے تو اس کااحترام ہونا چاہیے اور اسے سب کو ماننا چا ہئے۔ مسلم خواتین اور لڑکیاںسکولوں میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ حجاب پہنتی ہیں، اس کے لیے قانون سے بھی زیادہ ذمہ داری ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ۔ وہ اگر سماج کو بہتر بنانے اور اس کے بنیادی فلاحی اصولوں پر عمل کرنے کا ذمہ لے لیں تو کسی قانون کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
کانگرس اور جی حضور
پانچ ریاستوں کے چناؤ میں کراری شکست کے بعد کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں وہی ہوا جو پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ کانگرس صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ اگر پارٹی کہے تو ہم تینوں (ماں، بیٹا اور بیٹی)استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔پانچ گھنٹے تک چلی اس میٹنگ میں ایک بھی کانگرسی کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ قیادت کی تبدیلی کی بات کھل کر کہتا۔ جو جی 23 گروپ کہلاتا ہے۔ جس گروپ نے کانگرس کی نئی قیادت کے لیے آواز بلند کی تھی اس کے کئی اہم ا راکین بھی اس میٹنگ میں موجود تھے لیکن جی 23اب جی حضور 23 ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک آدمی کی بھی ہمت نہیں پڑی کہ وہ کانگرس کی نئی قیادت کی بات چھیڑتا۔ سونیا گاندھی کا رویہ توقابل ستائش ہی ہے اور ان کے بیٹے راہل گاندھی کو میں داد دیتا ہوںکہ انہوںنے کانگرس صدر کا عہدہ چھوڑدیا لیکن مجھے کانگرسیوں پر تر س آتا ہے کہ ان میں سے ایک بھی نیتا ایسا نہیں نکلا جو خم ٹھوک کر میدان میں کودجاتا۔ وہ کیسے کودے ؟ پچھلے 50‘55سال میں کانگرس کوئی سیاسی پارٹی نہیں رہ گئی ہے‘ وہ پولیٹیکل پارٹی کی طرح پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ اس میں کئی بہت سے قابل، بااثر اور مقبول نیتا اب بھی ہیں، لیکن وہ نیشنل کانگرس(این سی)یعنی نوکر چاکر کانگرس بن گئے ہیں۔ مالک کرسی خالی کرنے کوتیار ہیں لیکن نوکروں کی ہمت نہیں پڑرہی ہے کہ وہ اس پر بیٹھ جائیں۔ انہیںدری پر بیٹھے رہنے کی عادت پر گئی ہے۔ اگرکانگرس کی قیادت لنگڑی ہو چکی ہے تو اس کے کارکنان مفلوج ہوچکے ہیں۔کانگرس کی یہ بیماری بھارتی جمہوریت کی مہاماری بن گئی ہے۔ ملک کی تقریباً تمام پارٹیاں اس مہاماری کا شکار ہو چکی ہیں۔ بھارتیہ دانشوروں کے 50 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ صوبائی پارٹیوں کو جاتے ہیں۔یہ سب پارٹیاں خاندانی بن گئی ہیں۔کانگرس چاہے تو آج بھی ملک کی جمہوریت میں جان پھونک سکتی ہے۔ بھارت کا ایک بھی ضلع ایسا نہیں ہے جس میں کانگرس موجود نہ ہو۔بھارت کی صوبائی اسمبلیوں میں آج بھاجپا کے اگر 1373 ارکان ہیں تو کانگرس کے 692 ممبرز ہیں۔لیکن پچھلے ساڑھے چھ سال میں کانگرس 49 چناؤ میں سے 39 چناؤ ہار چکی ہے۔ اس کے پاس نیتا اور نیتی دونوں کی کمی ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں کی الٹی سیدھی تنقید ہی اس کا محض ایک کام رہ گیا ہے۔ اس کے پاس بھارت کو بڑی طاقت بنانے کا کوئی متبادل نقشہ بھی نہیں ہے۔کانگرس اب پچ مڑھی کی طرح نیا چنتن شور کرنے والی ہے۔ اسے اب چنتن کیمپ نہیں، چنتا شور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کانگرس کا بریک فیل ہوگیا تو بھارتیہ جمہوریت کی گاڑی کہاں جا کر ٹکرائے گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔