جاپان کے نئے وزیراعظم فومیو کشیدا نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے بھارت کو چنا ہے‘ یہ اپنے آپ میں اہم ہے۔ بھارت اور جاپان کے بیچ کچھ دن پہلے ہی چوگٹے (کواڈ) کی میٹنگ میں ہی بات چیت ہوچکی تھی لیکن اس دو طرفہ ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ یوکرین‘ روس جنگ ابھی تک جاری ہے۔ دنیا یہ دیکھ رہی تھی کہ جو جاپان دل کھول کر بھارت میں پیسہ بہا رہا ہے کہیں وہ یوکرین کے سوال پر بھارت کو پھسلانے کی کوشش تو نہیں کرے گا، لیکن سرکارمودی‘ کشیدا بات چیت اورمشترکہ بیان میں اپنے موقف پر اڑی رہی اور اپنی غیر جانبداری کی پالیسی پر ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ جاپانی وزیراعظم نے اگلے پانچ سال میں بھارت میں 42 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا اور چھ مدعوں پر سمجھوتے بھی کیے لیکن وہ بھارت کو روس کے خلاف بولنے کیلئے مجبور نہیں کر سکے۔ بھارت نے مملکتوں کی حفاظت اور خودمختاری کو بنائے رکھنے پر زور ضرور دیا اور یوکرین میں جنگ بندی کی مانگ بھی کی لیکن اس نے امریکا کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے زبانی جمع خرچ نہیں کیا۔ امریکا اور اس کے ساتھی ملکوں نے پہلے تویوکرین کو بانس پر چڑھادیا‘ اسے نیٹو میں شامل ہونے کیلئے ترغیب دی اور روس نے جب حملہ کیا تو سب دم دباکر بھاگ گئے۔ یوکرین کو مٹی میں ملایا جا رہا ہے لیکن مغربی ممالک کی ہمت نہیں کہ وہ روس کوکوئی لگام ڈال سکیں۔ وزیراعظم کشیدا نے نریندر مودی کے ساتھ بات چیت میں اور بعد میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے روس پر کافی تنقید کی لیکن مودی نے کورونا مہاماری کی واپسی کے اندیشوں اور عالمی سیاست میں آرہی بنیادی تبدیلیوں کی طرف زیادہ زور دیا۔ جاپانی وزیراعظم نے چین کی توسیع پسندانہ پالیسی پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے سائوتھ چائنیز سمندر کا مدعا تواٹھایا لیکن گلوان وادی کی مڈبھیڑ کا ذکر تک نہیں کیا۔ بھارت سرکار اپنے قومی مفادات کی پروا کرے یا دنیا بھر کے مدعوں پر فضول کی تو چودھراہٹ کرتی پھرے؟ چینی وزیر خارجہ وانگ یی بھی بھارت آ رہے ہیں۔ چین اور بھارت‘ دونوں کی پالیسیاں یوکرین کے بارے میں تقریباً ایک جیسی ہیں۔ بھارت کوئی انتہا پسندا نہ رویہ اپنا کر اپنا نقصان کیوں کرے؟البتہ بھارت جاپان دو طرفہ تعاون کے معاملے میں دونوں فریقوں کا رویہ تعمیری رہا۔
یوکرین حملہ اور دہرامعیار
نیدرلینڈ کے دارالحکومت ہیگ کی بین الاقوامی کورٹ میں بھارتی جج دلویر بھنڈاری مبارکباد کے مستحق ہیںجنہوں نے یوکرین کے معاملے میں ان 13ججوں کا ساتھ دیا جنہوں نے روس سے مانگ کی ہے کہ وہ یوکرین پر جاری حملے کو فوراً روکے۔بھارت سرکار نے واضح الفاظ میں ایسی مانگ نہیں کی لیکن وہ بھی یہی چاہتی ہے۔جسٹس بھنڈاری کے ووٹ کو روس مخالف اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان ملکوں کے ججوں کے ساتھ مل کر دیا گیا ہے جو روس مخالف ہیں لیکن ساری دنیا میں روس اور صدر پوتن کی مذمت ہورہی ہے۔صدر پوتن کا کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ اس حملے کو کب روکیں گے۔یوکرین اور روس کے مابین بات چیت کے کئی دور چلے لیکن ابھی تک وہ کسی انجام پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔یہ حملہ شیطان کی آنت بن گیا ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ روس اس اہم مدعے پر تو مطمئن ہو گیا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہوگا لیکن جس مدعے پر بات ابھی تک لٹکی ہوئی ہے،وہ یہ ہے کہ روس نے دونیسک اور لوہانسک نامی جو دو نئے آزاد علاقوں کا اعلان کیا ہے‘ اس پر یوکرین راضی نہیں ہو رہا۔یوکرین کو معلوم ہے کہ ان دونوں شعبوں میں روسی کے لوگ اکثریت میں ہیں اور وہ پہلے سے یوکرین سے آزاد ہو کر ہی رہ رہے ہیں۔اگر وہ یوکرین کے ساتھ جڑے رہے تو وہ سردرد ہی ثابت ہوں گے یا تو انہیں وہ روس کو سونپ کر بے فکر ہو جائے یا پھر کوئی ایسا معاہدہ کر لے کہ پورے ڈونباس علاقے سے یوکرین اور روس کے مساوی تعلقات بن جائیں۔یہ جنگ فوراً بند ہونی چاہئے ورنہ یوکرین کا خوفناک نقصان تو ہوگا ہی‘ عالمی سیاست بھی ہچکولے کھائے بغیر نہیں رہے گی۔دیکھئے یوکرین نے امریکہ اور چین و بھارت کو ایک ہی جگہ پر لا کھڑا کیا ہے۔اب بائیڈن اور شی جن پنگ میں سیدھی بات چیت چلے گی اورچین کے وزیر خارجہ وانگ یی بھی بھارت آ رہے ہیں۔بھارت اور چین‘ دونوں نے یوکرین کے سوال پر جیسی غیر جانبداری اور اتحاد دکھایا ہے‘ وہ ناقابل یقین ہے۔ اب بھارت نے روسی تیل کے لاکھوں بیرل بھی خریدنا شروع کر دیے ہیں۔یہ پہل روس کو تو مغربی دبائو برداشت کرنے کی طاقت فراہم کرے گی‘ ساتھ ہی بھارت کو سستا تیل بھی ملے گا۔یورپی ممالک کی پوری کوشش ہے کہ یہ جنگ بند ہوجائے کیونکہ دیر سویر ان کی روسی تیل کی سپلائی رک سکتی ہے۔ اب روس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ تیل اور گیس کے بدلے امریکی ڈالر اور یورو نہیں بلکہ صرف روسی روبل ہی وصول کرے گا‘ اس سے یورپی ملکوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ میں بھارت اور روس کے ساتھ تجارت کرنے والے دوسرے ممالک پر تنقید کرنے والے امریکی سینیٹروں سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو بھارت کا روس سے تیل لینا اتنا قابلِ اعتراض کیوں لگ رہا ہے جبکہ یورپی ممالک کو اس کے تیل کی سپلائی میں ذرا بھی رکاوٹ نہیں آئی؟ نیٹو ممالک اور امریکا کے ایم پیز سے یوکرین کے صدر زیلنسکی برابر خطاب کر رہے ہیں۔ان خطابات میں وہ ایسی باتیں بھی کہ دیتے ہیںجو صدر پوتن کو چڑائے بغیر نہیں رہ سکتیں۔اگر یہ معاملہ حل ہو رہا ہو تو بھی ایسی باتیں اس میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی فوج اور عوام نے روسی حملے کا مقابلہ کافی ڈٹ کر کیا ہے لیکن اس نازک موقع پر صدر زیلینسکی کو بھی دوراندیش رویہ اپنانا چاہئے۔ انہیں امریکہ اور نیٹو پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ امریکی صدر بائیڈن اب پوتن کو''جنگی مجرم‘‘ کہنے لگے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے،جیسے 100 چوہے مارکر کوئی بلی حج کرنے چلی ہو۔
اب ختم ہو یوکرین بحران
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے اس دعوے کی یوکرین نے تردید کی ہے کہ روس‘ یوکرین مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ ادھر ترکی میں روس اور یوکرین کے فارن منسٹرز کے مابین تین دن تک برابر بات چیت چلتی رہی ہے۔ جب یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہوا تھاتو ایسا لگ رہا تھا کہ دو تین دن میں ہی زیلنسکی سرکار گر جائے گی اور یوکرین پرروس کا قبضہ ہوجائے گا لیکن ایک ماہ کے باوجود یوکرین نے ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیکے۔ اس کے فوجی اور عام شہری روسی فوجیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس بیچ سینکڑوں روسی فوجی مارے گئے ہیں اور اس کے درجنوں طیارے مار گرائے گئے۔ یوکرینی لوگ بھی مر رہے ہیں اور کئی عمارتیں منہدم ہوئی ہیں۔ یوکرین اس قدر تباہ ہوچکا ہے کہ اس کی دوبارہ تعمیر میں اسے کئی سال لگیں گے۔ امریکااور یورپی ممالک اس کی تلافی کے لیے کروڑوں‘ اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔ روسی عوام کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس حملے کو پوتن اتنا لمبا کیوں کھینچ رہے ہیں، جب زیلنسکی نے یہ کہہ دیا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہوگا توپھر اب بچا کیا ہے؟ صدر پوتن اب بھی کیوں اڑے ہوئے ہیں؟ شاید وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو کے جنرل سیکرٹری خود یہ اعلان کریں کہ یوکرین کووہ نیٹو میں شامل نہیں کریں گے۔ اس جھگڑے کی جڑ نیٹو ہی ہے۔ نیٹو کے ممبرز یوکرین کی مدد کر رہے ہیں، یہ تو اچھی بات ہے لیکن وہ اپنی ناک نیچے نہیں ہونے دینا چاہتے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر نیٹو نے اپنے سفارتی ہتھیار ڈال دیے تو اس کا اثر ان قوموں پر کافی گہرا پڑے گا جو مشرقی یورپ اور سوویت یونین کا حصہ تھیں۔ لیکن امریکا اور نیٹو اب بھی ہچکچائیںگے تو یہ حملہ اور اس کی جوابی کارروائی لمبی کھنچ جائے گی جس کا برا اثرساری دنیا کی معیشت پر پڑے گا۔ یورپی ممالک کو ا بھی تک روسی گیس اور تیل ملتا جارہا ہے۔ اس کے بند ہوتے ہی اس کی معیشت لنگڑانے لگے گی۔ ایشیائی اور افریقی ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہیں گے۔ جہاں تک روس کا سوال ہے اس کی بھی حالت پتلی ہو جائے گی۔ صدر پوتن کے خلاف روس کے شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں مگر ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگ گئی ہیں۔ صدر پوتن نے یوکرین میں لڑنے والے آٹھ کمانڈروں کو برخاست کر دیا ہے۔ پوتن کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ یوکرین پر روسی قبضہ بہت مہنگا پڑے گا‘ کیف میں کٹھ پتلی سرکار زیادہ کچھ نہیں کرپائے گی۔ خود پوتن کی مقبولیت کو روس میں دھچکا لگے گا۔ یوکرین میں ملنے والی ہزیمت کااثر وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔ یوکرین جنگ کے اختتام کا یہ بالکل صحیح وقت ہے۔ روسی اور امریکی خیموں‘دونوں کو اب یہ سبق سیکھنا ہو گا کہ ایک فرضی مدعے کولے کر اتنا خطرناک کھیل کھیلنا مناسب نہیں۔