بھارت میں حالیہ دنوں پانچ ریاستوں کے چناؤ میں اپوزیشن کو اتنی تگڑی مار پڑی ہے کہ کچھ دنوں تک ا س کے ہوش و حواس گم رہے تو کوئی حیرانی نہیں ہے۔ آج کے دن اپوزیشن کے پاس نہ تو ایسی کوئی پارٹی یا گٹھ بندھن ہے جو بھاجپا کو پورے بھارت کی سطح پرچنوتی دے سکے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا نیتابھی نہیں ہے جو مودی کا مقابلہ کر سکے۔ 2024ء میں مودی اور بھاجپا کا تیسری بار لوٹنا صاف صاف دکھائی دے رہا ہے‘ بشرطیکہ وہ ایمرجنسی جیسی کوئی غلطی نہ کردے۔ وہ اگر ایسی غلطی کر بھی دے تو اپوزیشن کے پاس جے پرکاش نارائن کی طرح کوئی ایسا غیر منسلک چوٹی کا آدمی بھی نہیں ہے جو تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک فورم پر لا سکے۔ایسی صورتحال پر عام لوگوں اور خاص طور سے بھاجپا کے کروڑوں ممبران کا یہ ردعمل ہو سکتا ہے کہ بھارت کی سیاست پر مودی اور بھاجپا کی اجارہ داری بھارت کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ کمزور اپوزیشن کی فضول مخالفت کی پروا کئے بغیر بھاجپا اپنی عوامی رابطہ مہم کو کافی آگے بڑھا سکتی ہے۔ یہ سوچ ویسے تو اوپری طور پر ٹھیک ہی لگتی ہے لیکن جمہوریت کی ریل ہمیشہ دو پٹریوں پر چلتی ہے۔ اگر ایک پٹری بیحد کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو ریل کے الٹنے کا ڈر بنارہتا ہے جیسا کہ 1975ء میں ہوا تھا۔اگر کسان احتجاج کی طرح کوئی بڑا جن آندولن کھڑا ہوگیا تو وہی نوبت اب بھی آسکتی ہے۔ بھاجپا کی ریل پٹری پر چلتی رہے اور بھارتی جمہوریت بھی مفلوج نہ ہوجائے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ اب بھارت میں مضبوط اپوزیشن بنائی جائے۔ اس امکان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اروند کیجریوال‘ اکھلیش یادو اور ممتا بینرجی کو پہل کرنا ہوگی۔ اگر یہ تینوں جڑ سکیں تو مہاراشٹر‘ پنجاب‘ جھارکھنڈ‘ بہار‘ اڑیسہ‘ کیرلا‘ تامل ناڈو‘ کرناٹک وغیرہ کی صوبائی پارٹیوں کے رہنما بھی ان سے جڑ سکتے ہیں۔ تمام غیر بھاجپا پارٹیوں کے ووٹ مل کرآج بھی ملک میں بھاجپا سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ 2019ء کے چناؤ میں 91کروڑ ووٹرز میں سے بھاجپا کو صرف 23 کروڑ ووٹ ملے تھے بقیہ 68 کروڑ ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت اس وقت ملک میں کسی نیتا یا پارٹی میں نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی مہا گٹھ بندھن بنالیںتو اس کا بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس گٹھ بندھن کے پاس چناؤ لڑنے کے لیے کوئی زبردست مدعا نہیں ہے۔ ہاں اگر ساری اپوزیشن جماعتیں مل جائیں تو شاید کانگرس کی شیخی تھوڑی گھٹ جائے اور وہ بھی شاید بڑے گٹھ بندھن میں شامل ہو جائے۔ لیکن جب تک اس اپوزیشن والی گٹھ بندھن کے پاس بھارت کو بڑی طاقت بنانے کا ٹھوس متبادل نقشہ نہیں ہوگا بھارت کے عوام ان کرسی پریمی اپوزیشن والوںسے متاثر بالکل نہیں ہوں گے۔ پریوار واد‘ جاتی واد اور فرقہ پرستی نے ان مخالف جماعتوں کو بے راہ رو اور بے سمت بنا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی نااہلی اور تمام پارٹیوں میں گرتی داخلی جمہوریت پورے بھارت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اقلیتوںکیلئے تعلیمی وظائف
2016ء سے2021ء کے دوران بھارت میں تقریباً تین کروڑ وظیفے اقلیتوں کو دیے گئے۔ان میں سے مسلمان سٹوڈنٹس کو دوکروڑ 30 لاکھ وظیفے ملے‘عیسائی سٹوڈنٹس کو 37لاکھ‘ سکھوں کو 25 لاکھ‘ بودھوں کوسات لاکھ‘جینیوں کو چارلاکھ اورپارسیوں کو تقریباً پانچ ہزار وظیفے ملے۔مودی سرکار پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اقلیت مخالف ہے لیکن مذکورہ شماریات سے ایسا نہیں لگتا۔ مودی کی وچار دھارا اور نظریہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ وظیفے نریندر مودی نہیں دے رہے‘ بھارت کی حکومت دے رہی ہے۔ یہ وظیفے ایسے سٹوڈنٹس کو ملتے ہیںجن کے ماں باپ کی آمدنی ایک لاکھ روپے سالانہ سے کم اور اس سٹوڈنٹ کو 50 فیصد سے زیادہ نمبر ملے ہوں۔ اب ایسے پانچ کروڑ طالب علموں کو یہ معاشی مدد ملا کرے گی۔مسلم سٹوڈنٹس کو بیگم حضرت محل وظیفہ ملے گا۔اس مد پر ابھی سرکار نے تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔اگلے پانچ سال میں یہ رقم دوگنی ہونے کی امید ہے۔ ذرا سوچیں کہ اقلیتوں میں مسلمان سٹوڈنٹس کو ہی اتنے زیادہ وظیفے کیوں ملے ہیں؟ایک تو ان کی تعداد دیگر اقلیتوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہے۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ غریب طبقے مسلمانوں میں ہی ہیں۔یہ بنیادی طور پر محروم لوگ ہیں‘انہیں ذات‘مذہب‘رنگ یا زبان کی بنیاد پر نہیںبلکہ ان کی حیثیت اور قابلیت کی بنیاد پر وظیفے دیے جارہے ہیں۔
پوتن خود بات کریں زیلنسکی سے
یوکرین سے ہزاروں بھارتی محفوظ لوٹ آئے ہیں۔ یہ اچھی خبر ہے۔روس اور یوکرین نے انہیں باہر نکلنے کے لیے محفوظ پلیٹ فارم دے دیا ہے۔ بدلے میں بھارت اس وقت یوکرین اور روس دونوں کی مدد کرے‘یہ ضروری ہے۔ یہ کام نہ امریکہ کرسکتا ہے‘ نہ چین اور نہ ہی دیگر یورپی ممالک کیونکہ وہ اس یا اس اتحاد سے جڑے ہوئے ہیں۔ روسی حملے کو اب ایک ماہ ہو چکا ہے۔اب دونوں ملکوں کا دم پھولنے لگا ہے۔روس میں بھی ہزاروں لوگ پوتن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ادھر یوکرین کے صدرزیلنسکی نے اب ایسا بیان دے دیا ہے کہ اسے وہ مہینے دو مہینے پہلے دے دیتے تو روسی حملے کی نوبت ہی نہ آتی۔ انہوں نے نہ صرف نیٹو کے زبانی جمع خر چ کی پول کھول دیا بلکہ اپنی غلطی بھی قبول کی ہے۔ انہوںنے نیٹو کے بہکاوے میں آکر روس سے جھگڑا مول لے لیا۔ انہوں نے ایک امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔نیٹو کس کام کا ہے۔اس نے یوکرین کی اتنی سی درخواست بھی نہیں مانی کہ وہ یوکرین کی فضائی حدود پر پابندی لگادے تاکہ روسی جہاز یوکرین پر بم نہ برسا سکیں۔ وہ ایسے ملک کے صدر نہیں بنے رہنا چاہتے جو گھٹنے ٹیک کر اپنی سلامتی کی بھیک مانگے۔ زیلنسکی نے ڈونباس علاقے کے دو اضلاع کو آزاد قوم بنانے کے روسی اعلان کی دوٹوک مذمت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ دونیتسک اور لوہانسک کو روس کے علاوہ کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان دونوں علاقوں کے مستقبل کے بارے میں بھی ہم بات چیت کر سکتے ہیںلیکن وہاں کے باسیوںمیں سے جو لوگ یوکرین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ان کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ زیلنسکی کے اس بیان کے باوجود اگر پوتن اپنی ضد پر ڈٹے رہتے ہیںتو بہت سے غیر جانبدار ممالک اور دانشوروں کے درمیان ان کی شبیہ مسخ ہوتی چلی جائے گی۔اس وقت جو چین برابر روسی رویے کے تئیں ہمدردی دکھاتا رہا ہے اس نے بھی روس سے اپیل کی ہے کہ وہ صبرکا مظاہرہ کرے۔ ترکی اور چین بھی اب ثالثی کی کوشش میں لگے ہیں۔بھارت کو دیکھنا یہ چاہیے کہ دوسرے ممالک اس معاملے میں ہم سے آگے نہ نکل جائیں۔ جہاں تک زیلنسکی کا سوال ہے‘ ان کی ہمت کی داددینا پڑے گی۔ وہ افغانستان کے اشرف غنی کی طرح اپنا دیش چھوڑ کر بھاگے نہیں ہیں‘ نہ ہی وہ کہیں جا کر چھپ گئے ہیں۔ اس وقت وہ جہاں رہ رہے ہیں اس جگہ کا پتا انہوںنے خود ہی عام کر دیا ہے۔ ایسے زیلنسکی سے اب بات کرنے میں روسی صدر پوتن کوکوئی اعتراض کیوں ہوناچاہئے؟