چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے حوالے سے بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تازہ ترین صورتحال کے بارے میں کہوں گا کہ ابھی پیش رفت جاری ہے لیکن یہ پیش رفت کافی سست ہے۔ ان کا اشارہ دونوں ممالک کے مابین فوجی کمانڈرز کی پندرہ ملاقاتوں اور سفارتی روابط کی طرف تھا جن کے ذریعے سرد مہری کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے سرحد پر فوجیوں کی تعیناتیوں سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور اس کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان معمول کے روابط قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چین بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات چاہتا ہے۔ جے شنکر کا کہنا تھا کہ ان کے چینی ہم منصب نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کو بتا دیا گیا ہے کہ سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین تناؤ کو مکمل طور پر ختم کرنے سے ہی امن کا قیام ممکن ہوگا۔ فروری سے چین اور بھارت نے کچھ سرحدی علاقوں سے اپنے فوجی ہٹا لیے ہیں لیکن اب بھی کئی جگہوں پر فوجیوں کی بھاری تعداد تعینات ہے۔ سرحدی جھڑپوں کے بعد چینی اور بھارتی وزرائے خارجہ کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ دو سال بعد‘ چینی وزیر خارجہ کے دورے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی جبکہ چینی وزیر خارجہ نے بھارتی میڈیا سے کوئی بات چیت بھی نہیں کی۔ اس سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے دو دنوں تک مہمانِ خصوصی رہ کراسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد وہ بھارت آئے اور پھر یہاں سے سری لنکا گئے۔وہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے پہلے بھی مل چکے ہیں۔ گلوان گھاٹی کی مڈبھیڑ سے پیدا ہوئی کشیدگی کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ذرا بھی کم نہیں کرپائی۔ اسی طرح دونوں ملکوں کے فوجی افسران کی کئی لمبی لمبی میٹنگو ں سے بھی کوئی حل نہیں نکلا۔پچھلے دو سالوں میں سرحد پر ہوئی اس مڈبھیڑ نے دونوں ملکوں کے مابین جیسی بدمزگی پیدا کی ہے‘ ویسی 1962ء کے بعد کبھی کبھار ہی پیدا ہوئی۔ سنگین سرحدی تنازعات کے باوجود‘ دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم جس رفتار سے بڑھتا رہا‘ باہمی دورے ہوتے رہے اور دونوں ملکوں کے نیتاؤں کے درمیان جیسی بات چیت چل رہی وہ ساری دنیا میں چرچا کاموضوع بنتی رہی ہے۔ بھارت اور چین کئی سلگتے بین الاقوامی سوالات پر یکساں رویہ اپنا کر پختہ پالیسیوں کی بہترین مثال پیش کرتے رہے ہیں، لیکن گلوان گھاٹی کے مدعے پر یہ تناؤ اتنا لمبا کیسے کھنچ گیا؟ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت کے20 فوجی مارے گئے لیکن سمجھاجاتا ہے کہ چین کے بھی درجنوں فوجیوں کو نقصان پہنچا۔ جہاں تک چینی فوجیوں کے ذریعے بھارتی سرزمین پر قبضہ کرنے کا سوال ہے، خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ بھارت نے چین کو اپنی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیا۔ اگر ایسا ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے ؟ غلط فہمیوں اور دونوں طرف کے مقامی فوجی کمانڈروں کی بھول سے اگر مڈبھیڑ ہوگئی اور اس میں انتہائی تکلیف دہ اموات ہوگئیں تو دونوں طرف سے افسوس ظاہرکیا جا سکتا اور معاملے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک سرحدوں کی خلاف ورزی کا سوال ہے‘ دونوں ملکوں کے فوجی اور شہری‘ سال میں سینکڑوں بار ایک دوسرے کی سرحد میں گھس جاتے ہیں۔ سرحدوں پر نہ کوئی دیوار بنی ہوئی ہے اور نہ ہی تار لگے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ تو چھوٹا سا معلوم ہوتا ہے لیکن اس نے کافی سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے آگے جھکتے ہوئے نظر نہیں آنا چاہتے۔ اس کے نتیجے میں کئی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ بھارت کے تقریباً 20 ہزار سٹوڈنٹس اور شہری‘ جو چین میں کام کرتے تھے اور کورونا کی وباکی وجہ سے بھارت واپس آگئے تھے‘ اب لوٹنا چاہتے ہیں۔ اس دوران بھارت میں کئی چینی کمپنیوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا تھا۔ وہ بھی بھارت لوٹنا چاہتی ہیں۔ بھارت کی فکریہ ہے کہ دوطرفہ کاروبار میں اس کا عدم توازن 80 بلین ڈالر تک ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل پاکستان کے ساتھ چین کی قربت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت یوکرین کشیدگی کے معاملے میں بھارت اور چین تقریباً ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں حالانکہ چین ایسا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے کہ جس سے وہ امریکا پر ڈپلومیٹک حملہ کر سکے۔ چینی وزیر خارجہ کا دہلی کا دورہ کتنا کامیاب رہا‘ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اگر نریندر مودی اپنے بہترین دوست چینی صدر شی جن پنگ سے خود بات کریں تو گاڑی آسانی سے پٹڑی پر آسکتی ہے۔
یوکرین، بھارت اور چین
آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ہوئی اپنی دو طرفہ بات چیت میں وہی بات کہی،جو جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا نے کہی تھی۔ دونوں وزرائے اعظم نے یوکرین کے سوال پر روس پر تنقید کی اور یہ بھی کہا کہ روس سے یورپ میں جو خطرہ پیدا کیا ہے‘ ویسا ہی خطرہ ایشیا میں چین پیدا کر سکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں کئی رہنمائوں نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ یوکرین پر جیسا حملہ روس نے کیا ہے‘ ویسا ہی حملہ تائیوان پر چین کر سکتا ہے۔ ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ مودی نے اسی بات پر زور دیا کہ تمام ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کی جانی چاہئے اور حملے کے بجائے بات چیت کو پسند کیاجانا چاہئے۔ دونوں نیتاؤں نے بھارت کو یوکرین کی دلدل میں گھسیٹنے کی کوشش ضرور کی لیکن بھارت اپنی پالیسی پر اَڑا رہا۔ جاپان اور آسٹریلیا نے بین الاقوامی فورمز پر روس کے خلاف ووٹ دیا اور اس پر تھونپی گئی پابندیوں کی حمایت کی لیکن بھارت نے امریکا کے اشارے پر تھرکنے سے منع کردیا۔ بھارت کو ڈرانے کے لئے ان ممالک نے چین کا گھڑیال بھی بجایا لیکن حیرانی ہے کہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس اور مشترکہ بیان میں ایک بار بھی وادیٔ گلوان میں چینی دراندازی کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی نکلا کہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کی ڈفلی بجاتا رہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس کا ساتھ دیں۔ یہ اچھا ہے کہ بھارت نے کئی بار دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ چوگٹا (کواڈ) نیٹو کی طرح سامراجی گٹھ بندھن نہیں ہے لیکن چینی نیتا اس چوگٹے کو نیٹو سے بھی بڑا فوجی گٹھ بندھن ہی مانتے ہیں۔ وہ اسے ''ایشین نیٹو‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سرد جنگ کے اختتام اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد نیٹو جیسی فوجی تنظیم کو ختم کر دیاجانا چاہئے تھا لیکن اس کے ساتھ پہلے توروس کے سابق صوبوں کو جوڑ لیاگیا اور اب یوکرین کو بھی شامل کیاجانا تھا۔ امریکا کی یہی جارحانہ پالیسی ''کواڈ‘‘ کے نام سے ایشیا میں تھونپی جا رہی ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ امریکی جارحیت یورپ اور ایشیا‘ دونوں کا خوفناک نقصان کرے گی۔ حالیہ دنوں میں چین کے وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ بھی کیا ہے۔ اس وقت یوکرین پر بھارت اور چین کا رویہ تقریباً ایک جیسا ہی ہے مگر امریکا اور اس کے اتحادی چین کا گھڑیال بجا بجا کر بھارت کو ڈرا رہے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اپنے غیر جانبداری کے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔