"DVP" (space) message & send to 7575

یوکرین: مودی پہل کیوں نہ کریں

اقوام متحدہ نے روس کو اپنی انسانی حقوق کونسل سے نکال باہر کیا ہے۔ اس کے 193ارکان میں سے93ارکان نے روس کی معطلی کے حق میں ووٹ دیا اور 24 نے مخالفت میں ۔58ارکان غیر جانبدار رہے جن میں بھارت بھی شامل تھا۔ روس سے پہلے صرف لیبیا کو اس کونسل سے نکالا گیا تھالیکن لیبیا روس کی طرح سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں تھا۔یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے والی پچھلی قراردادوں کے برعکس ‘جب چین جیسے روس کے دوست ممالک کی ایک بڑی تعداد نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا‘ اس بار اس تحریک کے خلاف اور روس کی حمایت میں ووٹ دیا۔ روس کا نکالا جانا اپنے آپ میں تاریخی واقعہ ہے۔ویسے ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی میں امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک نے بھی ریکارڈ قائم کئے ہیں لیکن یوکرین میں جس طرح کا آپریشن چل رہا ہے ویسا دوسری عالمی جنگ کے بعد کہیں دیکھانہیں گیا۔
دنیا کے کئی ممالک خاص طورپر امریکہ سے جڑے ہوئے ممالک امید کررہے تھے کہ بھارت کم ازکم پر اس بار غیر جانبدار نہیں رہے گا‘وہ روس کے خلاف ضرور ووٹ دے گا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک بڑے افسر نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ دیکھیں ہیومن رائٹس کونسل میں بھارت کا ووٹ کدھر پڑتا ہے۔ اسے روس کی مخالفت کرنی ہی چاہئے۔اگر اب وہ غیر جانبدار رہتا ہے تو اس کا اثر بھارت امریکہ تعلقات پر ضرور پڑے گا۔ بھارت نے دیگر درجن بھر ووٹروں کی طرح اس ووٹنگ میں بھی غیر جانبداری بنائے رکھی‘ لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یوکرین کے حملے پر اس نے آنکھ بند کر رکھی ہے۔بھارتی پارلیمنٹ میں بھی بھارت سرکار کئی بار کہہ چکی ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ بالکل نہیں چاہتی۔ وہ تشدد اور دبائو کے بجائے بات چیت سے سارے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرواناچاہتی ہے۔ حقیقت میں بوچا میں ہوئے قتل عام کی اس نے جانچ کی مانگ بھی کی ہے۔ایسی مانگ کرنے والا بھارت پہلا ملک ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندے ٹی ایس ترومورتی نے یوکرین میں چل رہے خون خرابے پر گہرے دکھ کا اظہار بھی کیا ہے۔ اصلیت تو یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین پر خالص زبانی جمع خرچ کررہے ہیں۔اس کی وہ کھل کرسکیورٹی کا انتظام نہیں کررہے۔ اس کی وجہ سے روس کا غصہ روزانہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔اگر یہ مغربی ممالک یوکرین کو بانس پر نہیں چڑھاتے تو روسی حملے کی یہ نوبت ہی کیوں آتی؟ روس کے خلاف ان کارروائیوں اور ووٹنگ کا پوتن پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں ! یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اقوام متحدہ اگر کچھ نہیں کرسکتی تو اسے ختم کیوں نہیں کردیا جاناچاہئے؟ انہوںنے نیٹو اور امریکہ کی جارحیت کی بھی جم کر مذمت کی تھی۔
اس وقت بھارت کا رویہ بہت زیادہ عملی اور غیر جانبدار ہے لیکن وہ بہت زیادہ محدود ہے۔ اس کے افسر اگرچہ جو کچھ بول رہے ہیں ‘ ٹھیک بول رہے ہیں لیکن ان سے امید کرنا مناسب نہیں کہ وہ صدر پوتن اور زیلنسکی کے درمیان ثالثی کرسکتے ہیں یا ان کے بیانوںکا ان دونوں رہنماؤں پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ بھارت کیلئے پہل کا ایک دم صحیح موقع ہے۔بائیڈن اور پوتن دونوںکے ساتھ بھارت کا برابری کا تعلق ہے۔ اگر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پہل کریں تو یقینی طورپر بائیڈن ‘ پوتن اور زیلنسکی ان کی بات سنیں گے کیونکہ اس معاملے میں بھارت کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارتی نمائندے ٹی ایس ترو مورتی نے حال ہی میں یوکرین کے بارے میں جو بیان دیا ہے وہ عالمی سیاست میں بھارت کی شبیہ کو توبہتر بنائے گا ہی ‘ روس کو بھی اپنے حملے بند کرنے کیلئے شاید آمادہ کرے گا ۔ترومورتی نے یوکرین کے شہر بوچا میں ہوئی کارروائیوں کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے مانگ کی ہے کہ اس خون خرابے کی جانچ کی جانی چاہئے اور اسے فوراً روکا جانا چاہئے۔انہوں نے خون خرابہ کرنے والے روس کا نام نہیں لیا۔ یہ احتیاط انہوںنے ضرور برتی لیکن یہ واضح ہے کہ انہوں نے روسی فوج کے مظالم کی اتنی ہی سخت تنقید کی ہے جتنی امریکہ اور یورپی ممالک کر رہے ہیں۔
بھارت کی اس تنقید کا شایدروس پر کوئی اثر نہ پڑے لیکن بھارت کی غیر جانبداری کو اب دنیا کے ممالک بھارت کا گونگا پن نہیں سمجھیں گے۔ حالانکہ کئی بین الاقوامی فورمز پر جب بھی روس کی مخالفت ہوئی‘ بھارت نے اس کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا لیکن اس نے ہر بار یہ کہا کہ ہر ایک ملک کو اقوام متحدہ کے منشور کا احترام کرنا چاہئے ‘ ہر ملک کی حفاظت اور خودمختاری کی حفاظت کرنی چا ہئے اور اپنے تنازعات کو جنگ سے نہیںبات چیت سے حل کرنا چا ہئے۔ ترومورتی نے یہی بات بوچا کے قتل عام پر بات کرتے ہوئے دہرائی ۔
مجھے لگتاہے کہ بھارت کے اس تازہ تیور سے امریکہ کے زخم پر تھوڑا مرہم ضرور لگا ہوگا‘ کیونکہ امریکی نیتا اور افسر بار بار بھارت سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ روس مخالف تیور اپنائے اور روس کے خلاف اعلان کردہ مغربی پابندیوں کو بھی نافذ کرے۔ مغربی ممالک کی یہ دونوں درخواستیں بے سود ہیں۔ وہ دنیا کے سب سے طاقتور اور امیر ترین ممالک ہیں۔ ان کے ذریعے کی گئی مذمت کا کیا اثر ہورہا ہے؟اسی طرح کا کام امریکہ نے افغانستان‘ لیبیا‘ عراق‘ ویت نام اور کوریا میں کیاتھا۔ یوکرینی صدرزیلنسکی نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقوام متحدہ یوکرین کی حفاظت نہ کرپائے تو اس کو ختم کیوں نہیں کر دیا جانا چاہئے؟ جہاں تک پابندیوں کا سوال ہے یہ بھی خالص ڈھونگ ہے کیونکہ روسی تیل اور گیس اب بھی یورپی ممالک دھڑلے سے خرید رہے ہیں۔یورپی یونین کے ممالک اپنی قدرتی گیس کا تقریباً 40 فیصد اور اپنے تیل کا تقریباً 30 فیصد روس سے حاصل کرتے ہیں اور اگر اس سپلائی میں اچانک خلل پڑ جائے تو اس کے پاس فی الوقت کوئی آسان متبادل نہیں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے بعد روس دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔یہ روزانہ خام تیل کے قریب 50 لاکھ بیرل برآمد کرتا ہے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ یورپ جاتے ہیں۔امریکہ کا دیگر یورپی ممالک کی نسبت روسی تیل پر انحصار کم ہے۔2020ء میں امریکہ نے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سے قریباً تین فیصد تیل حاصل کیا تھا‘لیکن یوکرین کے مختلف شہروں کو پوتن کا روس جس طرح تباہ کر رہا ہے‘ ویسا تومسولینی کے اٹلی اور ہٹلر کے جرمنی نے بھی نہیں کیاتھا۔ یوکرین کے شہر بوچا میں 300 لاشیں پائی گئی ہیں۔انہیں ٹی وی چینلوں پر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ مکانوں ‘ دکانوں اور دفتروںکو تباہ کردیاگیا ہے۔تاہم روسی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ سب قصے من گھڑت ہیں‘ بوچا کو روسی افواج نے خالی کردیا تھا اور اس کے ایک ہفتے بعدکی یہ فرضی تصویریں سامنے آئی ہیں۔ روسی ترجمان کی اس بات پر کسے غصہ نہیں آئے گا‘ اگر روسی آپریشن اسی طرح جاری رہا تو پوتن اور روس کی شبیہ دنیا میں اتنی گر جائے گی جتنی شاید مسولنی اور ہٹلر کی بھی نہیں گری تھی۔بھارت نے بوچا کو بوچڑ خانہ بنانے کی جو مخالفت کی وہ ٹھیک ہے لیکن کوئی پوتن کو سمجھائے کہ اگر یہی کارروائی جاری رہی تو کہیںچین اور بھارت جیسے ملکوں کو بھی اس کے خلاف اپنامنہ کھولنا نہ پڑ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں