"DVP" (space) message & send to 7575

ملاوٹ کرنے والے کو سزائے موت

اگر دنیا میں ملاوٹ کرنے والے دیشوں کی کھوج لگائی جانے لگے تو بھارت کا نام پہلی قطار میں ہو گا۔ ایسا نہیں کہ دیگر ممالک میں ملاوٹ کے جرائم نہیں ہوتے‘ لیکن کئی دیشوں میں ملاوٹ خوروں کے لیے ایسی سزا کا اہتمام ہے جو کسی قاتل کے لیے ہوتی ہے۔ اصل میں ملاوٹ خور کسی بھی قاتل سے بڑا قاتل ہوتا ہے۔ ملاوٹی خوردنی اشیا کا استعمال کرنے والے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ آہستہ آہستہ مر جاتے ہیں۔ یہ ایسا عمل ہے کہ نہ مرنے والے کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی مارنے والے گا۔ سب کام چپ چاپ ہوتا رہتا ہے۔ قاتل تو دو چار آدمیوں کو مار دیتا ہے لیکن ملاوٹ خور درجنوں قاتلوں جیسا برا کام اکیلا ہی کر دیتا ہے۔ ایسے ہی ایک قاتل کو ہریانہ کے علاقے پلول میں پولیس نے رنگے ہاتھ گرفتار کیا ہے۔ وہ دیسی گھی کے نام پر طرح طرح کی کیمیائی اشیا کو ملا کر نقلی گھی بیچتا تھا۔ کئی بار کئی بڑی بڑی کمپنیوں کا خراب ہوا گھی خرید کر انہیں خوبصورت بوتلوں میں بھر کر بھی بیچتا تھا۔ یہ گھی چھوٹے موٹے دکانداروں کو کافی کم قیمت پر دیا جاتا تھا۔ وہ نقلی گھی کو مہنگے داموں بیچ کر اس سے منافع جم کر کماتے تھے۔ یہ گھی کئی بیماریاں پیدا کر سکتا ہے۔ دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر اور شوگر تو یہ گھی پیدا کرتا ہی ہے‘ اس سے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ کڈنی اور لیور کو نڈھال کرنے میں یہ گھی خاص طور پر سرگرم رہتا ہے۔ حاملہ عورتوں کیلئے بھی یہ گھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ گھی میں ملاوٹ سے اتنے لوگ متاثر نہیں ہوتے جتنے آٹے اور نمک میں ملاوٹ سے ہوتے ہیں۔ آٹا اور نمک توہر آدمی کو روز چاہئیں۔ ابھی سورت میں ایسے آٹے اور نمک کے مشہور برانڈوں کے نمونے پکڑے گئے ہیں جنہیں کھانے سے طرح طرح کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ کھانے پینے کی ایسی سینکڑوں چیزیں ہیں جس میں ہر دن ملاوٹ ہوتی رہتی ہے۔ ملاوٹی چیزیں ہر روز کھانے والے ایسے کروڑوں لوگ ہیں جو اپنی طبیعت خراب ہونے پر ٹھیک سے علاج بھی نہیں کروا سکتے۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکار ان ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سرگرم نہیں ہے یا کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ سرکار نے فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز ایکٹ 2006 میں ملاوٹ خوروں پر 10 لاکھ روپے جرمانے اور 6 ماہ سے لے کر عمر قید تک سزا کا اہتمام کررکھا ہے، لیکن کیا آج تک کسی کو عمر قید ہوئی ہے؟ 10 لاکھ جرمانے کی بات اچھی ہے لیکن کتنے ملاوٹ خوروں کو یہ جرمانہ ابھی تک ہوا ہے۔ یہ قانون بیحد سخت ہونا چاہئے۔ ملاوٹ کی سنگینی کی بنیاد پر سزا بھی ہونی چاہئے۔ ملاوٹ خوروں میں سے دو چار کو بھی پھانسی کی سزا دی جائے اور اس کا جم کر پرچار کیا جائے تو امکانی ملاوٹ خوروں کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑ سکتی ہے۔ ملاوٹی چیزوں کے کارخانوں میں کام کرنے والوں اور ان چیزوں کو بیچنے والے کیلئے بھی چھوٹی موٹی سزا کا اہتمام ہو تو اس کا بھی کافی اثر پڑے گا۔ اصل میں ملاوٹ تو قتل عام کے برابر جرم ہے۔ سزائے موت ہی اس مسئلے کا صحیح حل ہے۔
مودی بائیڈن بامعنی مذاکرات
جب سے روس اور یوکرین کی جنگ ہوئی ہے‘ میں باقاعدگی سے لکھتا رہا ہوں کہ اس معاملے میں بھارت بہترین ثالث ہو سکتا ہے‘ کیونکہ امریکہ‘ روس اور یوکرین تینوں سے اس کے تعلقات اچھے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نریندر مودی نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے بات کی اور انہیں قائل کیا کہ وہ لادیمیر پوتن سے سیدھے بات کریں اور اس جنگ کو شانت کریں۔ بہتر ہوتا کہ مودی سیدھے ہی خود ثالث کا کردار ادا کرتے۔ وہ یہ کام اب بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی کوششیں فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کے سربراہان کر چکے ہیں لیکن ان کی ایک حد ہے‘ وہ ہے ان کا امریکہ اور نیٹو والا رشتہ۔ ان کا تو اپنا مفاد بھی اٹکا ہوا ہے۔ وہ روس کے تیل اور گیس پر انحصار رکھتے ہیں۔ بھارت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ۔ بھارت روس سے ہتھیار ضرور خریدتا ہے لیکن روس کو پتہ ہے کہ بھارت چاہے تو وہ انہیں کسی بھی دیگر ملک سے خرید سکتا ہے۔جب روس بھارت کو سستا تیل بھیجنے لگا تو امریکہ چڑنے لگا۔ اس کے ایک افسر نے بھارت آکر دھمکی بھی دے ڈالی کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ بھارت کی غیرجانبداری پر تبصرہ کرتے ہوئے بائیڈن بھی بول پڑے۔انہوںنے کہا کہ کواڈ کے ممالک میں بھارت ہی ایسا ہے جو روس کی مخالفت کرنے میں ذرا ڈھیلا ہے لیکن امریکہ کو معلوم ہے کہ بھارت کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں درجنوں بار ایسا کہا ہے کہ یہ جنگ فوراً بند ہونی چاہئے اور کسی بھی قوم کی سلامتی اور آزادی پر آنچ نہیں آنی چاہئے۔ بھارت نے یوکرین کے بوچا نامی شہر میں ہوئے قتل عام کی جانچ کی مانگ کی ہے۔ بائیڈن اور مودی کی بات چیت میں یہ معاملہ بھی اٹھا۔ مودی نے پوتن سے بھی کہا تھا کہ وہ زیلنسکی سے سیدھے بات کیوں نہیں کرتے‘ بھارت نے یوکرین کو پہلے بھی اناج اور دوائیاں بھجوائی تھیں اور اب بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔بھارت کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ اس وقت امریکہ میں اپنے ہم منصبوں سے بات چیت کر رہے ہیں تو بھارت روس سے پچھلے ایک ماہ میں اتنا تیل لے چکا ہے جتنا کہ وہ پچھلے ایک سال میں بھی نہیں لے سکاتھا۔یہ تیل اسے سستے داموں میں مل رہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک بھارت کی اس پالیسی پر کس طرح تنقید کر سکتے ہیں‘ کیونکہ یورپی ممالک نے بھی روسی تیل کی خریداری ابھی تک جاری رکھی ہوئی ہے۔ مودی بائیڈن براہ راست بات چیت میں بھارت امریکہ تعاون کے کئی دیگر پہلوؤں پر بھی نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔ چین کی چنوتی کا سامنا کرنے میں امریکہ ہمیشہ بھارت کا ساتھ دے گا‘ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کو اس کا یقین دلایا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی میں اگر تھوڑی فعالیت اور پہل کی صلاحیت زیادہ ہوتی تو عالمی سیاست میں آج اس کا مقام بہتر بن سکتا تھا۔
امریکہ میں پُرتشدد واقعہ
نیویارک کے بروکلین نامی علاقے میں ہوئی گولی باری نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تقریباً تین درجن لوگ زخمی ہوئے‘ لیکن غنیمت ہے کہ کسی کی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔ اس علاقے میں جنوبی ایشیائی لوگ کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ یہ حملہ بروکلین کے ریلوے سٹیشن پر صبح صبح ہوا ۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں چلاہے یہ حملہ دہشت گردوں نے کیا تھا یا یہ کسی سرپھرے مجرم کی کرتوت ہے۔ حملہ آور نے پہلے گیس کے گولے داغے تاکہ سارے ماحول میں دھندلا پن پھیل جائے اور پھر اس نے گولیاں چلادیں۔جب بہت شور مچا تو وہ حملہ آور بھاگ نکلا لیکن اس کا سامان اور گاڑی پولیس کے ہاتھ لگ گئی۔ اس کے کریڈٹ کارڈ سے اس کا نام بھی معلوم ہوگیا ہے۔ اس کی فوٹو بھی پولیس نے جاری کردی ہے۔ اسکی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ وہ جلد ہی پکڑا جائے گا۔اگر وہ پکڑا گیا اور اس نے اپنا جرم بھی قبول کرلیا تو بھی کیا ہوگا؟ اسے پھانسی پر لٹکادیاگیا توبھی کیا ہوگا؟ کیا اس طرح کے جان لیوا جرائم کی تعداد امریکہ میں کبھی کم ہوگی؟ کبھی نہیں۔ دنیا کا وہ سب سے مالدار اور پڑھے لکھے شہریوں کا ملک ہے لیکن وہاں قتل سمیت دیگرجرائم کی تعداد ایشیا اور افریقہ کی کئی غریب قوموں سے زیادہ ہے۔ جب تک امریکہ کے حکمران اور تجزیہ کار اس پروپیگنڈے کے اصل اسباب تلاش نہیں کریںگے امریکہ کی حالت مزید بگڑتی رہے گی۔ بروکلین حملے کے بعد نیویارک ٹائمز کو درجنوں لوگوں نے کہا کہ نیویارک شہر ہمارے رہنے لائق نہیں ہے۔ 200 سال پہلے امریکہ میں جوشہری عدم تحفظ کی حالت تھی وہ آج بھی بنی ہوئی ہے۔ یورپ کے گورے لوگ امریکی سرزمین پر ہتھیار کے بغیر پاؤں بھی نہیں رکھتے تھے۔ آج بھی امریکہ کے ہر گھر میں بندوق اور پستول رکھے ہوتے ہیں۔ اب مانگ کی جارہی ہے کہ جیسے ہوائی جہاز میں مسافر لوگ بندوق وغیرہ نہیں لے جا سکتے ویسی ہی پابندیاں ریل اور بسوں میں بھی لگادی جائیں اور سٹیشنوں پر سکیورٹی بڑھا دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں