فرانس میں ایمانوئل میکرون پھر سے صدر کا چناؤ جیت گئے ہیں۔ 20سالوں میں یہ دوسراموقع ہے جب کوئی رہنما لگاتار دوسری بار فرانس کا صدر بنا ہے۔ میکرون دوسری بات بھی جیت گئے لیکن دو حقائق توجہ دینے لائق ہیں۔ پہلا2017ء کے گزشتہ چناؤ کے مقابلے اس چناؤ میں میکرون کو ووٹ کم ملے ہیں۔ پچھلے چناؤ میں انہیں اپنے حریف مرین لی پین سے تقریباً دوگنا ووٹ ملے تھے لیکن اس بار یہ مارجن کافی کم ہوگیا۔ میکرون کو 58.5 فیصد تو لی پین کو41.5فیصد ووٹ ملے ہیں۔ چناؤ کے دوران افواہیں تو یہ بھی تھیں کہ لی پین میکرون کو ہراسکتی ہیں۔ لی پین ایک فرانسیسی خاتون رہنما ہیں۔ فرانس کے اس چناؤ نے لوگوں کا دم پھلا رکھاتھا۔ اگر لی پین جیت جاتیں تو لوگوں کو ڈرتھا کہ وہ یوکرین کے معاملے میں روس کی حمایت کردیتیں کیونکہ ولادیمیر پوتن سے ان کے تعلقات کافی اچھے ہیں۔ وہ مشتعل نیشنلسٹ ہیں۔ اس لیے خدشہ یہ بھی تھا کہ جیسے برطانیہ یورپی یونین سے باہر نکل آیا‘ لی پین فرانس کو بھی یورپی یونین اور شاید نیٹوسے بھی باہر نکالنے کی کوشش کریں گی۔ میکرون کے ووٹ اتنے کم ہوگئے اور لی پین جیت نہیں پائیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ28فیصد ووٹرز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس بیچ فرانس میں بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی تھی۔ میکرون نے پچھلے چناؤ میں بڑھ چڑھ جو دعوے کیے تھے‘ انہیں وہ زمین پر نہیں اتارسکے۔ میکرون نے اپنی جیت کے بعد جو بیان دیا‘ وہ فرانس کی سیاست کا حقیقی آئینہ ہے۔ انہوںنے کہاہے کہ ان کی تمام کمزوریوں کے باوجود فرانس کی جنتا نے انہیں اسی لیے جتایا ہے کہ وہ فرانس کو انتہا پسندوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتی۔ جون میں ہونے والے پارلیمانی چناؤ میں بھی میکرون کی جیت کاامکان کافی اچھا ہے۔ میکرون کی عمر صرف 44سال ہے وہ سیاست میں آنے سے پہلے بینکر تھے۔ امید ہے کہ وہ ا گلے5سال میںفرانس کی معاشی صورتحال میں کئی سدھار لے آئیںگے۔ انہوںنے مسلم گروپوں کو قابوکرنے کیلئے کئی پابندیاں لگائی ہیں لیکن وی لی پین کی طرح اسلامو فوبیا کا شکار نہیں ہیں۔غیر ملکی پالیسی کے معاملے میں بھی انہوںنے نہ تو امریکا مخالف مورچہ کھولا ہے اور نہ ہی وہ روس سے دشمنی گانٹھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہوںنے یوکرین جنگ کے دوران پوتن اورز یلنسکی‘ دونوں سے رابطہ قائم کیاتھا۔ بھارت سے بھی پچھلے5سالوں میں فرانس کے معاشی اور جنگی تعلقات گہرے ہوئے ہیں۔بحر ہند میں اگرچہ فرانس چوگٹے (کواڈ) کا ممبر نہیں ہے لیکن بھارت اور اس کی پالیسیوں میں کافی مساوات ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ بھارت کے جو تازہ معاشی او ر سیاسی تعلقات بنے ہیں‘ ان میں بھی فرانس کا کردار کافی اہم ہوگاکیونکہ فرانس یورپی یونین کا سب سے بڑا اور طاقتور ملک ہے۔ بھارت کے وزیراعظم کی آئندہ دنوں میں ہونے والی یورپ یاترا کے دوران بھارت‘ فرانس تعلقات کی قربت پر اب پھر سے مہر لگے لگی۔
انصاف کا بھارتی نظام
بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن کی صدارت میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ایسے کئی فیصلے کیے ہیں، جن سے کورٹ کی آزادی اور ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تامل ناڈوکے ہائی کورٹ کا سنگِ بنیاد رکھتے وقت جو بھاشن دیا‘ اس میں انہوں نے بے حد اہم مدعا اٹھایا ہے۔ وہ ہے بھارت کے عدالتی نظام کی بھارتی قبولیت کا۔ یہ مدعا اٹھانے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں کا طرزِ عمل ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے عام جنتا کے بیچ ان کی ساکھ بڑھے۔ ان کے فیصلے میں قوانین کو اندھا دھند طریقے سے تھونپا نہیں جانا چاہئے۔ انصاف صرف کتابی نہیں ہوتا۔ اس کی انسانی فطرت زیادہ اہم ہے۔اسی طرح انصاف شیطان کی آنت کی طرح لمبا اور طویل بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اب بھی ملک کی عدالتوں میں تقریباً 5 کروڑ مقدمے لٹکے ہوئے ہیں۔ کئی مقدمے 30‘30، 40‘40 سال تک چلتے رہتے ہیں۔ انہیں لڑنے والے لوگ اور خودوکیل بھی کئی معاملوں میں عدم سدھار چکے ہوتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں‘ انصاف کا مذاق ہے۔ جسٹس رمن نے بتایا کہ بھارت میں 1104 ججوں کے عہدے ہیں لیکن ان میں سے 388 اب بھی خالی پڑے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ اور ایوان کی جانب سے کیے گئے ناجائز قبضے کا ذکربھی کیا۔ ججوں کو ان معاملوں میں شہریوں کے مفاد سب سے اوپر رکھنا چاہئے۔ سرکار اور پارلیمان سے کوئی مروت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے ہماری عدالتی نظام کے ''بھارتیہ کرن‘‘ کا بہت اہم مدعا بھی اپنے بھاشن میں اٹھادیا۔ بھارتیہ کرن کا مطلب کیا ہے؟ یہی ہے کہ ہمارا قانون آزادی کے 75 سال بعد بھی بنیادی طور پر غلامی کے دور کی ڈگر پر چل رہا ہے۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے کچھ قوانین کو ہماری سرکار وں نے رد ضرور کیے ہیں لیکن اب بھی وہی پرانا سسٹم چلا آرہا ہے۔ ملک کے تمام لوگوں کے لیے یکساں قانون کب بنے گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت کی ہائی کورٹس میں بحث اور فیصلے مقامی زبانوں میں کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے لیے ہمارے قوانین پہلے مقامی زبانوں میں بننے چاہئیں۔ جسٹس رمن نے کہاہے کہ آج کے ماڈرن دور میں ترجمے کا عمل اتنا آسان ہو گیا ہے کہ یہ سہولت آسانی سے فراہم کی جا سکتی ہے۔ صدر رام ناتھ کووند نے اس بارے میں پچھلے دنو ں اچھی پہل کی تھی۔ اگر ہمارے قوانین پارلیمنٹ میں بنیادی طور پر ہندی میں بننے لگے تو سبھی بھارتی زبانوں میں ان کا ترجمہ کافی آسانی سے ہو جائے گا۔ اگر ہم عدالتی نظام کو بھارتی طرز میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسے انگریزی کے شکنجے سے آزاد کرنا ہوگا۔اس وقت بھارت کی عدالتی نظام ایک جادو نگری بنی ہوئی ہے۔ اس لیے وہ ٹھگی، دیری اور ناانصافی کا شکار بھی ہوتی ہے۔ کیا دیش میں کبھی کوئی ایسی سرکار بھی آئے گی جو سچ مچ عدالتی نظام کو بھارتی بنا سکے گی؟
راجیہ پال ملک کی ہمت
مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر کے طور پر ستیہ پال ملک نے جو حیرت انگیز کام کیا ہے‘ میری یاد میں اتنی ہمت والا کام کسی دوسرے گورنرنے بھارت میں پہلے کبھی نہیں کیا۔ انہوںنے 3 کروڑ کی رشوت کو ٹھوکر ماردی۔ اگر وہ ان دو فائلوں پر اپنی منظوری کے دستخط کر دیتے تو انیل امبانی کی ایک کمپنی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے ایک نیتا انہیں 300 کروڑ روپے آسانی سے دلوادیتے۔ جب ستیہ پال ملک نے 6‘ 7 مہینے پہلے اس معاملے کا ذکر کیا تو مجھے اچانک یقین نہ آیا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ آر ایس ایس کے کارکنان اس طرح کے کاموں سے دور رہتے ہیں۔ ان کے اور میرے کچھ دوستوں نے کہا کہ انہیں پہلے کشمیر سے گوا اور پھر وہاں سے میگھالیہ بھیج دیا گیا تو وہ بس اس تبادلے پر اپنی ناراضی نکال رہے ہیں لیکن میں ستیہ پال ملک کو ان کے زمانۂ طالب علمی سے جیساجانتا ہوں۔ مجھے لگتاتھا کہ ان کے جیسا ایماندار ور بے خوف لیڈر ایسے بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتا۔ ستیہ پال ملک کی ہمت نے اب رنگ دکھایا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے موجودہ لیفٹیننٹ راجیہ پال منوج سنگھ نے‘ جو کہ خود ستیہ پال ملک کی طرح مقبول طالب علم رہے ہیں‘ دونوں معاملے سی بی آئی کوسونپ دیے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ناانصافی کے ایسے معاملوں کی لمبی فہرست ہے۔ جب سرکار مقامی وزرائے اعلیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو وہ بے لگام ہوکر ناانصافی کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومت کا دوسرا نام کرپشن ہے۔ جن دو معاملوں کی جانچ چل رہی ہے ان میں ایک جموں کا ہی کرو ہائیڈل پاور پروجیکٹ ہے اور دوسرا ریاست کے سرکاری ملازمین کی ہیلتھ انشورنس سے متعلق ہے۔ ان دونوں معاملات کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہزاروں کروڑ روپے کا بجٹ تھا۔ پہلے تو ان کے ٹینڈر جاری کیے گئے تو ان میں کئی شرائط پر عمل نہیں کیاگیا۔ امبانی کی کمپنی کو 61 کروڑ روپے کی پیشگی ادائیگی بھی ہوگئی۔تقریباً 4 ہزار کروڑکے دوسرے پروجیکٹ میں بھی پتا نہیں کتنا گھپلا ہوتا۔ سرکاری افسروں نے ساری بے ضابطگیوں کو نظر انداز کر دیا اور ٹینڈر پاس کردیے۔ اگر راجیہ پال اعتراض نہ کرتے تو ہمیشہ کی طرح سارا کھیل آرام سے چلتا رہتا لیکن محکمہ جاتی جانچ سے پتا چلا کہ ان دونوں کمپنیوں کو ہری جھنڈے دکھانے کے سرکارکے اعلیٰ افسران کی بھی ملی بھگت ہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی مال کھایا ہوگا۔ ان افسران کے خلاف پولیس نے اب رپورٹ لکھ لی ہے اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی)نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ لیفٹیننٹ راجیہ پال منوج سنہا نے کافی سختی اورمستعدی دکھائی ہے ورنہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھاری نقصان بھگتنا پڑتا۔ ناانصافی اور کرپشن سے تاجروں اور افسروں کی توجیبیں بھر تیں لیکن مقامی نوجوانوں کو روزگار کے نام پر کورا انگوٹھا ملتا۔ اگر دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی ایسی ہی چوکسی کا ثبوت دیں تو ناانصافی اور کرپشن پر تھوڑی بہت بندش ضرور لگ سکتی ہے۔