چین کے صدر شی جن پنگ یوکرین کے سوال پر اب بھی روس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ روس کے حملے کو ''حملہ‘‘ نہیں کہہ رہے‘ اسے وہ تنازع کہتے ہیں۔ یوکرین میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں لیکن روسی حملے کو روکنے کی کوشش کوئی ملک نہیں کر رہا۔ چین اگر الگ رہتا‘ تب بھی مانا جاتا کہ وہ اپنے اصولوں کی حفاظت کر رہا ہے لیکن اس نے اب کھلے عام ان پابندیوں پر بھی نکتہ چینی شروع کر دی ہے جو نیٹو ممالک اور امریکا نے روس کے خلاف لگائی ہیں۔ چینی صدر نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں فضول ہیں‘ یہ معاملہ بات چیت سے حل کیا جانا چاہئے۔ یہ بات تو مدلل ہے لیکن چین چپ کیوں ہے؟ وہ صدر پوتن اور صدر بائیڈن سے بات کیوں نہیں کرتا؟ کیا وہ بیچ بچاؤ نہیں کرا سکتا؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یوکرین حملے سے چین کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ روس اس تنازع کے بعد چین کی طرف جھکتا چلا جائے گا۔ چین آ گے آگے رہے گا اور روس پیچھے پیچھے۔ روس کی اکانومی اتنی کمزور ہو جائے گی کہ سینٹرل ایشیا میں بھی روس کا مقام چین لے لے گا۔ کولڈ وار کے زمانے میں امریکا کے خلاف سوویت یونین کی جو حیثیت تھی‘ وہ اب چین کی ہو جائے گی۔ چین نے یونائیٹڈ نیشن اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر روس کے حق میں ووٹ دے کر صدر پوتن کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں مگر لگتا ہے کہ مضبوطی کے بھرم جال میں پھنس کر صدر پوتن غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جائیں گے۔ چین نے یوکرین میں ہو رہے ظلم کو بھی مغربی میڈیا کی من گھڑت کہانیاں کہہ کر رد کر دیا ہے۔ صدر پوتن کا ساتھ دے کر چین ایک تیر سے دو شکار کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ امریکا کو سبق سکھا رہا ہے اور دوسری طرف وہ روس کو اپنے زیرِ اثر لا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صدر پوتن نے جو کچھ یوکرین کے ساتھ کیا‘ ویسا ہی تائیوان کے ساتھ کرنے کا چین کا ارادہ ہو۔ امریکا نے جیسے صدر زیلنسکی کو دھوکا دیا‘ ویسے ہی وہ تائیوان کو بھی بیچ میں لٹکا سکتا ہے۔ اگر بین الاقوامی سیاست اسی راہ پر چلتی رہی تو عالمی طاقت کا توازن چین کے حق میں جھک جائے گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی سیاست کا ڈھانچہ بن گیا تھا‘ اسے پہلے سوویت یونین نے متاثر کیا اور اب یوکرین پر روسی حملہ اسے ایک دم نئے روپ میں ڈھال دے گا۔
بھارت‘ برطانیہ تعلقات کی نئی بلندی
برطانیہ کے کئی وزرائے اعظم اور ملکہ الزبتھ بھارت آ چکے ہیں لیکن موجودہ برٹش وزیر اعظم بورس جانسن کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کیلئے جتنی اہمیت رکھتاہے‘ یہ اپنے آپ میں تاریخی کہلانے کا مستحق ہے۔ بورس جانسن کا سابرمتی آشرم جانا اپنے آپ میں ایک بڑا واقعہ ہے۔ جو آشرم مہاتما گاندھی نے بنایاتھا اورجس گاندھی نے برٹش سامراج کی جڑیں ہلا دی تھیں‘ اس گاندھی کے آشرم میں کوئی برٹش وزیر اعظم جائے اور زمین پر بیٹھ کر چرخہ چلائے‘ یہ تو اپنے آپ میں ایک قصہ ہے۔ چار کلومیٹر کے راستے پر ہزاروں لوگوں نے جیسا بورس جانسن کا استقبال کیا‘ ویسا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے کہہ دیا کہ انہیں امیتابھ بچن اور سچن ٹنڈولکر جیسا تجربہ ہورہاہے۔ وہ ایسے پہلے برٹش وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بھارت آکر ہندی میںمودی کو کہا کہ وہ ان کے '' خاص دوست‘‘ہیں۔ انگریزی زبان کے غلام بھارت میں آکر کوئی انگریز وزیراعظم ہندی میں بات کرے تو یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔ اس کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ عالمی سیاست اور معیشت میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے۔ دوسری‘ آج کل کی برٹش سیاست میں بھارتی نژاد شہریوں کا بڑھتا ہوا وجود ہے۔ اب جبکہ برطانیہ یورپی یونین سے باہر آگیا ہے‘ اسے بھارت جیسے بڑے ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات مضبوط بنانے ہیں۔ اگر دونوںممالک کے مابین فری ٹریڈ سمجھوتا ہوگیا توکہا جا سکتا ہے کہ کچھ سالوں میں بھارت برطانیہ کا ٹریڈ حجم دُگنا ہوسکتا ہے۔ آسٹریلیا اور یواے ای کے ساتھ ہوئے بھارت کے فری ٹریڈ سمجھوتے کے مثبت نتائج ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ بھارت‘ برطانیہ سمجھوتا ہزاروں نئے روزگار پیدا کرسکتا ہے۔ بورس جانسن نے یہ بھی کہا کہ ان کی سرکار قابل بھارتیوں کو ویزا دینے میں نرمی برتے گی۔ انہوں نے برطانیہ کی طرف سے بھارت کو نئی عسکری اور سمندر کی نگرانی کی تکنیک دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ دونوں ممالک نے ہتھیار تیار کرنے کے مشترکہ کارخانے کھولنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ دونوں ممالک نے افغانستان کو دہشت گردی کا اڈہ بنانے کی مخالفت کی اور جمہوری حکومت کے قیام کو ضروری قرار دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہلی یاترا کے دوران بورس جانسن کی کوشش یہ ہو گی کہ وہ بھارت کو اپنی طرف جھکائیں گے یعنی اسے روس پر تنقید کیلئے مجبور کریںگے‘ لیکن اس کے الٹ ہوا۔ بورس جانسن نے بھارت کی یوکرین پالیسی کی تعریف کی اور مودی کی تعریف میں کئی قصیدے بھی پڑھ دیے۔ایسا لگتا ہے کہ اس دورے کے دوران جو سمجھوتے اور بات چیت ہوئی ہے‘ وہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی اور اونچی سطح پر پہنچادے گی۔
بھارت کیسے بنے علاج کا عالمی مرکز
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے روایتی علاج کے طریقے کو عالمی سطحی بنانے کیلئے گجرات کے جام نگر سے ایک نئی مہم کا افتتاح کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت اس خطے میں آیوروید‘یوگ‘ قدرتی علاج‘ یونانی‘ سدھ اور ہومیوپیتھی وغیرہ‘ سبھی روایتی علاجوں کا مرکز ہوگا۔ ان علاج کے طریقوں کو عالمی سطحی بنانے کیلئے کچھ نئے قدم بھی اٹھائے جائیںگے‘جس کا نام ہوگا 'آیوش ویزا‘۔ یہاں میرا سجھائو یہ ہے کہ اس آیوش ویزا کی فیس عام ویزا فیس سے زیادہ کیوں نہ کردی جائے؟ پڑوسی دیشوںکے لاکھوں‘ کروڑوں شہری اس روایتی علاج کے مرید ہیں۔ یہ علاج ایلوپیتھی کے مقابلے بہت سستا ہے۔ اس کا فائدہ پڑوسی دیشوں کے درمیانے اور غریب طبقے کے لوگ بھی اٹھا سکیں‘ اس کا انتظام بھارت سرکار کو کرناچاہئے۔ پڑوسی دیشوں کے جن لوگوں کا بھارت میں کامیاب علاج ہوتا ہے‘وہ بھارت بھگت بن جاتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے تجربے کے بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ وزیراعظم مودی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری دوائیوں پر سرکار ایک ''آیوش نشان‘‘' بھی جاری کرے گی جو ان کے ایک نمبر ہونے کی گارنٹی ہو گا۔ بھارت کی روایتی دوائیاں سبھی پڑوسی ممالک میں مقبول ہیں۔ یہاں تک کہ چین میں بھی میں نے ایسی دوائیاں دیکھی ہیں جن کے نام چینی ویدوں نے ابھی تک مول سنسکرت میں ہی رکھے ہوئے ہیں۔بھارت کی آیوش دوائیوں کا کاروبار پچھلے 7 سالوں میں 3ارب سے بڑھ کر 18 ارب ڈالر کاہوگیا ہے۔ اگر کیرل کی طرح بھارت کے ہر ضلع میں ایسے روایتی علاج کے مرکز کھل جائیں تو اس سیکٹر میں آمدنی کھربوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ہیلتھ ٹورازم کے نظریے سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ لاکھوں‘ کروڑوں نئے روز گار پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے طبی مراکز سبھی پڑوسی ممالک میں بھی کھولے جا سکتے ہیں۔ سات سال گزر چکے ہیں‘لیکن جو کام ابھی تک ادھورا پڑا ہوا ہے‘سرکار اسے بھی پورا کرنے کی ٹھان لے تو ساری دنیا میں ہمارا ڈنکا بجنے لگے گا۔ میں نے بھارت کے سابق وزیر صحت شری جگت پرکاش اور ڈاکٹر ہرش وردھن سے گزارش کی تھی کہ وہ ایلوپیتھی سمیت سبھی پیتھیوںکو ملا کر علاج کا نیا سلیبس تیار کرائیں اور میڈیکل کی پڑھائی مقامی زبانوں کے ذریعے ہو۔ اگر ایسا ہو جاتا تو میڈیکل سائنس میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا۔ اس وقت ساری دنیا علاج کے نام پر ہونے والی لوٹ مار سے پریشا ن ہے۔ اگر سستے علاج کے طریقے کا آغاز ہو جائے تو دنیا کے غریب لوگوں کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔