ہم بھارتی بڑا فخر کرتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ صحافت جمہوریت کا سب سے قابل ستون ہے۔ صحافت یعنی اخبار، ٹی وی، سنیما، انٹرنیٹ وغیرہ۔ یہ اگر آزاد نہیں ہیںتو پھروہ جمہوریت کھوکھلی ہے۔ جمہوریت کی اس خوبی کو ماپنے والی تنظیم ''رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘ نے اپنی اس سال کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کی جگہ پہلے 142ویں تھی‘ اب اس سے نیچے کھسک کر وہ 150ویں نمبر پر آگیا ہے۔ دنیا کے 180 ملکوں میں بھارت سے بھی زیادہ نیچے ملکوں میں میانمار،چین، ترکمانستان، ایران، اریٹریا، شمالی کوریا، روس، بیلاروس اور افغانستان وغیرہ آتے ہیں۔ بھارت کے بارے میں کھوج وغیرہ کر کے بعد اس تنظیم نے مانا ہے کہ بھارت کا مواصلاتی نظام خطرے میں ہے کیونکہ بھارت میں صحافیوں پر تشدد‘ میڈیا کا سرکار کی تعریفوں کے پل باندھنا اور میڈیا کا مٹھی بھر مالکوں میں سمٹ جانا آج کل عام سی بات ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوتوا کے پرچارک بڑے متشدد ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے مخالف نظریات پر حملہ کردیتے ہیں۔ سرکار یں قانون کا غلط استعمال کرکے صحافیوں کو ڈراتی اور ستاتی ہے۔ اونچی ذاتوں کے ہندو لوگوں نے صحافت پر اپنا قبضہ جمارکھا ہے۔ سرکار کے پاس میڈیا کو قابو میں رکھنے کیلئے سب سے بڑا ہتھیار ہے‘ اور وہ ہے اشتہارات۔ بھارتی حکومت130 بلین روپے کے اشتہار ہر سال بانٹتی ہے۔ اربوں روپے کے اس اشتہارپر رال ٹپکانے والے ایمان کی بات کیسے لکھیں گے؟ بھارت کے لگ بھگ سبھی اخبار اور صحافی خوشا مدی ہو گئے ہیں۔ اس تنظیم نے میڈیا کی آزادی کے جو پانچ معیار بتائے ہیں‘ ان میں سے ایک پربھی بھارت صحیح نہیں اترتا۔ یہ پانچ معیار ہیں؛ سیاسی تناظر، قانون، معاشی صورتحال، سماجی و ثقافتی تناظر اور صحافیوں کی حفاظت !اس تنظیم کے اس تجزیے کو چبائے بغیر کیسے نگلا جاسکتا ہے؟ اس کے کچھ حقائق تو ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے صحافیوں کے خلاف تشدد لیکن ایسے پُر تشدد واقعات توہر سرکار کے دور میں ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات صحافت کیا‘ ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ان دنوں کئی سرپھرے انتہا پسند‘ ہندوتوا کے نام پر صحافیوں، اپوزیشن لیڈروں‘ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں وغیرہ کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھارت کے اپنے لوگ بھی انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ صحیح ہے کہ حکمران طبقے ان انتہا پسند عناصر کی کھل کرمخالفت نہیں کرتے۔ یہ کمی ضرور ہے لیکن بھارت کے اخبار اور ٹی وی چینل انہیں بالکل نہیں بخشتے۔ جہاں تک بھارتی عدالتوں کا سوال ہے‘ ان کی غیر جانبداری مسلمہ ہے۔ وہ انہیں سزا دینے سے نہیں چوکتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے مالکان سرکار کی غلط باتوں کی اکثرکھل کر مذمت نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت توان ممالک میں بھی ویسی ہی پائی جاتی ہے جو اپنی جمہوریت کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹتے رہتے ہیں۔ میں پچھلے 50‘ 55 سالوں میں دنیا کے درجنوں ملکوں میں رہ کر اور بھارت میں بھی متعدد اخباروں اور چینلوں کو دیکھتا رہا ہوں، لیکن مجھے ایمرجنسی 1975-77ء کے علاوہ کبھی ایسا نہیں لگا کہ بھارت میں صحافت پر کوئی پابندی ہے۔ ہاں! اگر صحافی اور خود اخباروں کے مالک خود غرض اور لالچ کا شکار ہوں تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگرصحافی دم دار اور نڈر ہو تو کسی اخبار کے مالک یا سرکار کی جرأت نہیں کہ اسے وہ کسی ڈر یا لالچ کے آگے جھکاسکے۔ اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق امریکا بھی میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے پرفیکٹ نہیں ہے۔ امریکا کو میڈیا کی آزادی کے لحاظ سے 42 واں درجہ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ امریکا میں مقامی اخباروں کا ختم ہوجانا، میڈیا میں تفریق، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف عداوت اور جارحانہ رویوں کا پروان چڑھنا جیسے عوامل شامل ہیں جن سے صحافت کو نقصان پہنچا ہے۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو بھارت میں ایسے سینکڑوں صحافی، اخبار اور ٹی وی چینلز ہیں جو اپنی غیر جانبداری اور بے باکی میں‘دنیا میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں اسی لیے بھارت کی صحافت کو گھٹیا بتانے والی یہ رپورٹ مجھے حقائق پر مبنی نہیں لگتی۔
راہل گاندھی کا دورۂ نیپال اور الزام تراشی
کانگرس کے رہنما راہل گاندھی کی کٹھمنڈو یاترا پر دونوں طرف گھٹیا سیاست ہو رہی ہے۔ راہل گاندھی کسی نیپالی خاتون صحافی کی شادی میں شرکت کے لیے نیپال کیا گئے‘ بھارت کی سیاست میں جیسے طوفان آگیا ہو۔ بھاجپا کے کئی نیتاؤں نے بیانوں کے گولے د اغ دیے۔ ایک ترجمان نے لکھ مارا کہ راہل گاندھی اس وقت کٹھمنڈو کے کسی نائٹ کلب میں موج کر رہے ہیں جبکہ ممبئی میں طوفان آرہا ہے۔ اس ترجمان کا اشارہ عید پر ہونے والے مڈبھیڑ کی طرف رہا ہوگا ۔ ترجمان نے یہ بھی لکھ دیا کہ کانگرس پارٹی بکھرنے کے موڑ پر ہے اور اس کا رہنما نائٹ کلب میں اٹکھیلیاں کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا کو کانگرسیوںسے بھی زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ کانگرس بکھر رہی ہے۔ بھارت کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی‘ جو راہل کے انتخابی حلقے وایناڈ میں تھیں‘ نے بھی چٹکی لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیرل سرکار مرکزی سرکار کی کئی سکیموں کو جان بوجھ کر کیوں نافذ نہیں کر رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ راہل جی کو ڈھونڈ سکو تو ان سے پوچھو کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سمرتی نے بھی ذرا نرم الفاظ میں راہل کے کٹھمنڈو کے دورے پر طنز کس دیا۔ یہاں سوال یہی ہے کہ کیا کسی اپوزیشن رہنما کو کسی دوسرے ملک کا دورہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اگر صرف وزیراعظم اور فارن منسٹر کی فارن یاتراؤں سے تمام اپوزیشن نیتاؤں کی یاتراؤں کا موازنہ کریں تو ان نیتاؤں کے دورے بہت چھوٹے معلوم پڑیںگے۔ یہ ٹھیک کہ اپوزیشن رہنماؤں کادورہ اکثر ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن ان دوروں کے دوران کیاوہ ملک مخالف حرکتیں کرتے ہیں؟ وہ قومی مفاد کے تحفظ میں اتنی ہی مستعدی دکھاتے ہیں جتنے حکمران اور حکومتی عہدیدار دکھاتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں اقوام متحدہ میں میرے ساتھ بی جے پی کے علاوہ نیتا بھی نیویارک گئے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ اپنے بھاشنوں اور ذاتی بات چیت میں حکمران جماعت سے بھی زیادہ محتاط رہتے تھے۔ اگر راہل گاندھی اپنی کسی نیپالی دوست کی شادی میں حصہ لینے کٹھمنڈو گئے تو اس سے بھارت‘ نیپال تعلقات میں مضبوطی ہی آئے گی‘ دونوں اطراف کی برف پگھلے گی۔ اگر راہل کی عمر کے رہنما گھر میں ہی قید رہیں تو کیا یہ مثالی صورتِ حال سمجھی جائے گی؟ جہاں تک نائٹ کلب والے اعتراض کی بات ہے تو اس خاتون صحافی کی مرضی کہ وہ اپنی شادی کی تقریب کسی نائٹ کلب میں مناتی ہے یا کسی دھرم شالہ میں ؟ اس پارٹی میں چین کی خاتون سفیر کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان چینی صدر اورفارن منسٹر کے ساتھ نریندر مودی اور جے شنکر کو دیکھ کر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟ افسوس کی بات ہے کہ اس گھٹیا پن کی سیاست میں کانگرس کے ترجمانوں نے بھاجپائیوں کو بھی مات دے دی ہے۔ انہوں نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ارے! اپنے نریندر مودی کو دیکھو‘ وہ نواز شریف کے بلاوے کے بغیر ہی ان کی نواسی کی شادی میں کیک کاٹنے چلے گئے تھے۔ یہ بات کتنی بے سر وپیر کی ہے۔ نریندر مودی کو باعزت طریقے سے بلایاگیاتھا‘ مجھے اس معاملے کی ذاتی جانکاری ہے۔ ان کے علاوہ کچھ دیگر بھارتیوں کو بھی بلایا گیا تھا۔ مودی نے میاں نواز شریف کے یہاں جاکر بہت اچھی پہل کی تھی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات پٹڑی پر آنے لگے تھے لیکن پٹھان کوٹ میں ایئر فورس کے اڈے پر حملے نے اس گاڑی کو دوبارہ پٹڑی سے اتار دیا۔ اگر کانگرس کے لوگ بھاجپائیوں کے غیر معقول تبصرے پر چپ رہ جاتے تو ان کا بہتر امیج بن کر ابھرتا لیکن دونوں پارٹیوں نے ایسے بکواس تبصرے کرکے بھارتی سیاست کو گھٹیا پائیدان پر اتاردیا ہے۔