پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو جوجوابی خط لکھا ہے اسے دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ پچھلے تین سال میں جو کمیونی کیشن گیپ پیدا ہوگیا تھا اب شاید وہ ٹوٹ جائے۔ مودی نے شہباز شریف کو مبارکبادکا جو خط لکھا تھا اس میں یہی خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ دونوں ممالک کے بیچ ایسے تعلقات رہنے چاہئیں جن سے جنوبی ایشیا کے علاقے میں شانتی اور استحکام کا ماحول بنے۔ شہباز شریف نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا ہے کہ دونوں ممالک کو مل کر غریبی اور بیروزگاری کے خلاف جنگ لڑنا چاہئے۔ دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کو بہت ہی قابل ستائش باتیں کہی ہیں لیکن دونوں کی مجبوریاں ہیں‘ انہیں وہ ظاہر نہ کریں۔ دہشت گردی کے مدعے نے پاک بھارت تعلقات میں کھٹاس پیدا کر رکھی ہے۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تھے تو انہوںنے کہا تھا کہ پاک بھارت تعلقات سدھارنے کیلئے اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے لیکن 2019ء میں پلوامہ کے واقعے اور اس کے بعد کے واقعات نے جو تناؤ پیدا کیاتھا اسے خطرے کے نشان تک پہنچانے میں کشمیر کی ریاستی خود مختاری کے خاتمے نے بڑا رول ادا کیا۔ دونوں ممالک کا آپسی بیوپار ٹھپ ہوگیا اور دونوں کے سفارت خانوں میں آج کل کوئی ہائی کمشنر بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے 2019ء میں سفارت کاری کا راستہ چھوڑ دیا لیکن شہباز شریف کی قیادت میں بنی یہ نئی سرکار چاہے تو وہ کام کر سکتی ہے جو آج تک پاکستان کی کوئی بھی سرکار نہیں کر سکی۔ اس نئی سرکار کو فوج کی بھی پوری حمایت حاصل نظر آتی ہے۔ یہ تومیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب جب شریف بھائیوں سے میری ملاقات ہوئی شہباز کو ہمیشہ میں نے زیادہ نرم اور شائستہ پایا۔ اس کے علاوہ ان کے مرحوم والد میاں محمد شریف مجھے بتایا کرتے تھے کہ تقسیم کے بعد وہ کئی سال تک روز اپنے گاؤں جاتی امرا‘ جو کہ امرتسر میں ہے‘ جایا کرتے تھے اور بس میں بھرکر مزدوروں کو لے آتے تھے۔ جیسا کہ آصف زرداری نے کہا تھاہر پاکستانی کی طرح ان کے دل میں بھی ایک ہندوستان دھڑکتا تھا۔ جب نریندر مودی پہلی بار حلف لے رہے تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے دعوت نامے کا دو‘ تین دن تک کوئی جواب نہیں دیا تب میں نے ان کے سینئر ساتھی سرتاج عزیز کو بتایا کہ سبھی پڑوسی ممالک کے وزرائے اعظم کو بلانے کی پیشکش میری ہی ہے۔ انہیں آنا ہی چاہئے۔ وہ دونوں آئے بھی۔ 2014ء میں اسلام آباد میں جب میاں نواز شریف سے میری لمبی ملاقات ہوئی تو وہ یہی جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے نئے وزیراعظم کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کیلئے کیا کیا پہل کی جائے۔ لیکن اب موقع پہلے سے بھی بڑھیا ہے جبکہ دونوں دیشوں کے رشتوں میں نئی شروعات ہوسکتی ہے۔
نریندر مودی کا دورۂ یورپ
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ یورپ بڑے نازک وقت میںہو ا ہے۔ وہ صرف تین دن یورپ میں رہے اور تقریباً آدھا درجن یورپی ممالک کے نیتاؤں سے ملاقاتیں کیں۔ وہ جرمنی اور فرانس کے علاوہ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے‘ آئس لینڈ اور فن لینڈ کے نیتاؤں سے بھی ملے۔ ان کے ساتھ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اوروزیر خزانہ نرملا سیتارمن بھی تھیں۔ کور وناوبا کے بعد بھارتی وزیر اعظم کا یہ پہلی کثیر القومی دورہ تھا۔ ایک تو کورونا وباا ور اس سے بھی بڑا مسئلہ یو کرین پر روسی حملہ ہے۔ اس موقع پر یورپی اقوام سے بات چیت کرنا آسان نہیں تھاکیونکہ یوکرین تنازع پر بھارت کا رویہ غیر جانبدارانہ ہے لیکن تمام یورپی اقوام چاہتی ہیں کہ بھارت دو ٹوک الفاظ میں روس کی مذمت کرے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان دیر لین نے بھارت آ کر بہت کوشش کی کہ وہ بھارت کو اپنی طرف جھکا سکیں لیکن بھارت کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں نے واضح کردیا کہ وہ روسی حملے کی حمایت نہیں کرتے ہیںلیکن اس کی مخالفت کرنا بھی بے معنی ہوگا۔ مودی کے یورپی دورے کے دوران اس مدعے کو ان ممالک کے ذریعے بار بار اٹھایا گیا لیکن یہ یقینی ہے کہ یورپ کے ساتھ بڑھتے ہوئے قریبی اقتصادی اور سٹریٹیجک تعلقات کے باوجود بھارت یوکرین پالیسی سے ٹس سے مس نہیں ہوا‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کا یہ مضبوط رویہ ان یورپی ممالک اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے آڑے آئے گا۔ فرانس کے ساتھ بھارت کاجنگی طیاروں کا بڑا سمجھوتا ہوا ہے۔ جرمنی اور فرانس‘ دونوں یوکرین کے تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ ابھی تک وہ اس کی متبادل فراہمی کا بندوبست نہیں کر پائے ہیں۔ نورڈک ممالک کے رہنماؤں سے مل کر بھارت کے کاروبارکو بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی۔ پچھلے دوڈھائی سو سالوں میں تقریباً سبھی اہم یورپی اقوام نے تمام جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت کے خام مال سے اربوں‘ کھربوں ڈالر بنائے ہیں لیکن آج ان تمام ملکوں کا بھارت کے ساتھ صرف دو فیصد کاکاروبار ہے۔ 180کروڑ لوگوں کے درمیان اتنے کم کاروبار کی کئی وجوہات ہیں‘ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انڈین کاروباری پوری طرح انگریزی پر منحصر ہیں۔ اگر ان ممالک کی زبانیں وہ جانتے ہوتے تو یہ کاروبار 10‘ 15 فیصد آرام سے پھیل سکتا تھا۔ اگر بھارت اور یورپی ممالک کا سیاسی اور تزویراتی تعاون بڑھے گا تو اس کا یہ بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ امریکہ اور چین کی دشمنی میں بھارت کو کسی ایک مہا شکتی یا گروپ کے ساتھ منسلک نہیں ہونا پڑے گا۔
پٹیالہ میں ہندو‘ سکھ تصادم
ایک طرف تو بھارتی وزیر اعظم اپنی رہائش گاہ پر سکھ نمائندہ وفد کا استقبال کر رہے ہیں اور دوسری طرف پٹیالہ میں سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان زبردست مارپیٹ چل رہی ہے۔ مودی نے حال ہی میں گورو تیغ بہادر کے 400ویں جنم سماروہ کے موقع پر بھارت کی آزادی اور خوشحالی میں سکھ برادری کے بے مثال حصے کی بھرپور تعریف کی تھی لیکن اگلے روز پٹیالہ میں خالصتان کی مانگ کولے کر دنگل مچا ہوا تھا۔ ہندو اور سکھ تنظیمیں آپس میں بھڑ گئیں۔ ان میںلاٹھیاں گولیاں چلیں اور پٹیالہ میں کرفیو بھی لگانا پڑ گیا۔ پٹیالہ میں جو کچھ ہوا اس کی جڑ میں انتہا پسندی اور تنگ سوچ کے علاوکچھ نہیں ہے۔ اس کا گورو نانک کے سکھوں اور ہندوؤں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صرف اقلیتوں کا آپسی دنگل ہے۔ بالکل ایسا ہی منظر اب ابھی دہلی کے دوارکا علاقے میں دیکھنے کو ملا۔ گائے کے دودھ کاکاروبار کرنے والے ایک غریب شخص کا قتل کچھ گئو رکشکوں نے اس لہے کردیا کہ انہیںشک تھا کہ اس نے کسی گائے کو کاٹا بھی تھا۔ اس کے گھر سے کسی گائے کی ہڈیاں دیکھ کر انہوں نے یہ ظالمانہ کام کردیا۔ کیا ایسے لوگوں کو آپ گائے کے محافظ کہہ سکتے ہیں؟ ایسے لوگ آدمی کو جانور سے بھی بدتر سمجھ کر اسے مار ڈالتے ہیں۔ جو لوگ خالصتان کی مانگ کررہے ہیں وہ بتائیں کہ وہ کتنے خالص ہیں؟ کیا وہ گورو نانک کے سچے بھکت ہیں؟ کیا انہوں نے گوربانی کے سچے معنوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ وہ مذہبی اتنے نہیں ہیںجتنے سیاسی ہیں۔ اقتدار کی بھوک انہیں دوڑاتی رہتی ہے۔ وہ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے سب کچھ کرتے ہیں۔ سکھوں کے ساتھ کیا بھارت میں کوئی امتیازی سلوک ہوتا ہے ؟ بھارت کے صدر اور وزیر اعظم سکھ برادری کے رہے ہیں۔ وہ لوک سبھا سپیکر‘ چیف جسٹس‘ گورنر‘ وزیر اعلیٰ وغیرہ تمام عہدوں پر رہتے آئے ہیں۔ کسی بھی اقلیتی طبقے کو اتنی اہمیت بھارت میں نہیں ملی ہے جتنی سکھوں کو ملی ہے۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوںپر جو ظلم ڈھائے گئے‘ ہم نے اس کی مذمت کی۔ سکھ کمیونٹی اپنی بھارت بھگتی اور سخت محنت کا اعتراف کرا چکی ہے اور بھارتیوں کو اس پر فخر ہے۔