"DVP" (space) message & send to 7575

سری لنکا سے سبق سیکھنا چاہئے

سری لنکا کے وزیراعظم مہندا راجہ پاکسے کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی گوتا بایا راجہ پاکسے اب بھی سری لنکا کے صدر کے عہدے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔سری لنکا میں عوام میں اس قدر بے چینی پھیل گئی ہے کہ اس راجہ پاکسے سرکار کو کئی بار کرفیو لگانا پڑا۔ اس راجہ پاکسے سرکار کی کابینہ میں راجہ پاکسے خاندان کے تقریباً آدھا درجن ممبران کرسی پر جمے ہوئے تھے۔ جب عام جنتا کا غصہ بے قابو ہوگیا تو کابینہ کو تحلیل کر دیا گیا۔لوگوں کے دلوں میں یہ اثر جمایا گیا تھا کہ راجہ پاکسے خاندان کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ اس وقت سری لنکا میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان جاری پُر تشدد مظاہروں میں سوموار سے اب تک حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمنٹ سمیت سات افراد ہلاک جبکہ 200کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ سرکار کی جانب سے ملک بھر میں نافذ کرفیو کی مدت میں بھی توسیع کر دی گئی ہے تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں مگر عوام بپھرے ہوئے ہیں۔ سوموار کو کولمبو میں صدر اور وزیر اعظم کے دفاتر کے باہر خاصے پُرتشددمظاہرے ہوئے جس کے بعد پولیس اور فوج کو تعینات کر دیا کیا تھا۔ اس وقت مظاہرہ کرنے والے صرف اپوزیشن سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ جب راجہ پاکسے کے وزارتِ عظمیٰ سے استعفے کی خبر آئی تو اس نے ان کے حامیوں کو مشتعل کردیا جس پر انہوں صدارتی دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے حکومت مخالف مظاہرین پر حملہ کردیا جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ اسی دوران مشتعل مظاہرین نے کرونیگالا شہر میں راجہ پاکسے کا آبائی گھر نذرِ آتش کر دیا جبکہ کولمبو کے قریب بھی مشتعل افراد نے سابق وزیر اور حکومتی جماعت کے 2 اراکین پارلیمنٹ کے گھر جلا دیے۔ سری لنکا میں مہنگائی اور بجلی کی بندش کے خلاف گزشتہ مہینے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سری لنکا اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ صدر گوتا بایا نے ساری اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کی کہ وہ آئیںاور مل کر نئی مشترکہ سرکار بنائیں لیکن اپوزیشن کے رہنما سجت پریم داس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ اب بھی صدر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اپنا وزیراعظم خود چن لے اور سری لنکا کو اس خوفناک بحران سے بچانے کے لیے ملی جلی سرکار بنائے لیکن اپوزیشن کے رہنما اس تجویز پر عمل کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ وہ سارے سری لنکائیوں سے ایک ہی نعرہ لگوارہے ہیں ''گوتا گو‘‘ یعنی صدر بھی استعفیٰ دیں۔سری لنکا کے اپوزیشن رہنماؤں کی یہ مانگ ظاہری طور فطری لگتی ہے لیکن سمجھ نہیں آتا کہ نئے صدر اور وزیراعظم کی تقرری کیاچٹکی بجاتے ہی ہو جائے گی؟ ان کا چناؤ ہوتے ہوتے سری لنکا کی حالت اور بھی بد تر ہو جائے گی۔نئے صدر اور نئی سرکار خالی خزانے کو فوراً کیسے بھر سکیں گے؟سری لنکا کی اپوزیشن بھی متحد نہیں ہے۔ واضح اکثریت کی کمی میں وہ سرکار کیسے بنائے گی؟ اگرسری لنکا کی اپوزیشن دیش بھگت ہے تو اس کا پہلا ٹارگٹ یہ ہونا چاہئے کہ وہ مہنگائی، بے روزگاری اور انارکی پر قابو پائے۔ گوتا بایا سرکار جیسی بھی ہے‘ فی الحال اس کے ساتھ تعاون کر کے ملک کو چوپٹ ہونے سے بچایاجائے۔ بھارت‘ چین اور امریکا جیسے ملکوں سے وافر مدد کی درخواست کرے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بھی ہنگامی فنڈز کی مانگ کرے۔ ابھی تو لوگ دنگوں اور حملوں سے مر رہے ہیں لیکن جب وہ قحط‘ افلاس اور بے روزگاری سے مریں گے تو وہ کسی بھی رہنما کو نہیں بخشیں گے‘ چاہے وہ حکومتی فریق ہو یا اپوزیشن ! سری لنکا کی موجودہ بد حالی سے پڑوسی ملکوں کو اہم سبق بھی مل رہا ہے۔ اگر تامل دہشت گردی کو ختم کرنے والے عظیم رہنما مہندا راجہ پاکسے کا وقار اچانک پیندے میںبیٹھ سکتا ہے تو پڑوسی ملکوں کے جو رہنما آج مقبولیت کی لہر پر سوار ہیں‘ ان کی حالت تو اور بھی بری ہوسکتی ہے۔ راجہ پاکسے اور ان کے حواریوں نے سری لنکا سرکار کو اپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا لیا تھا۔ اس میں بھائی‘بھتیجے مل کر من چاہے فیصلے کرتے تھے۔ سری لنکا میں جمہوریت اور پارٹی فیملی گروپ بن کر رہ گئی تھی۔ ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک کے زیادہ تر پڑوسی ملکوں کایہی حال ہے لہٰذااس میں ان کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اس سے پہلے کے ان کے ملک میں انہیں کاندھوں پر بٹھانے والی جنتا ان کے خلاف ہو‘ انہیں اپنے معاملات میں سدھار لانا چاہیے۔ جمہوریت اور پارٹی کو گھر کی باندی نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ دیگر افراد کو بھی آگے آنے کا موقع دینا چاہیے۔ عوامی مزاج اور غصے کا وقت سے پہلے ہی ادراک کر لینا ایک رہنما کی خوبی ہونی چاہیے۔
بھارت میں مذہبی عدم برداشت
بھارت میں حالیہ دنوں میں دو واقعات ایسے ہوئے ہیں جنہیں لے کر بھارت کے مذہبی پیشواؤں اور رہنماؤں کو خاص فکر کرنی چا ہئے۔ پہلا واقعہ حیدرآباد میںہوا اور دوسرا گجرات میں پیش آیا۔ حیدرآباد میں ایک ہندو نوجوان کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے دوسرے مذہب کی ایک لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ گجرات میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ریاست کے ایک گاؤں میں کچھ ہندوؤں نے دو دیگر ہندوؤں پر اس لیے حملہ کردیا کہ وہ اپنی پوجا پاٹھ کولاؤڈ سپیکر پرکررہے تھے۔ واضح رہے کہ یہ حملہ نہ تو مسلمانوں پر ہندوؤں کا تھا اور نہ ہی ہندوؤں پر مسلمانوں کا!مذکورہ دونوں حملے الگ الگ وجوہات سے ہوئے اور ان کے کردار بھی الگ الگ ہیں لیکن دونوں میں ایک بنیادی مماثلت ہے۔دونوں حملوں میں موتیں ہوئی ہیں اور دونوں کی اصل وجہ ایک ہی ہے۔ وہ وجہ ہے عدم برداشت !جہاں تک دوسرے مذہب میں شادی کرنے کا سوال ہے تو دونوں کی لمبی دوستی رہی اور وہ شادی کسی مذہب کی تبدیلی کی مہم کے تحت نہیں کی گئی تھی‘ وہ خالص محبت کی شادی تھی لیکن بھارت میں آج کوئی بھی بڑا رہنما یا بڑی تحریک ایسی نہیں ہے جو ذات‘ پات‘ سماجی سٹیٹس‘ سوچ و فکر اور عقیدے سے بلند ہو کر شادیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ آج کل تو دوسرے عقیدے کے لوگوں سے شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا حالانکہ بھارت کے کتنے ہی ایکٹر‘ ایکٹریسز ایسی ہیں جنہوں نے ان سماجی بندھشوں کو توڑا ہے۔ مسئلہ یہاں پر صرف دوسرے مذہب کا ہی نہیں ہے بلکہ دوسری ذات میں شادی کو بھی نہایت برا سمجھا جاتا ہے۔ کیا بھارت میں کوئی برہمن لڑکی کسی شودر سے شادی کرنے کا سوچ سکتی ہے؟ کوئی ایسا کر بھی لے تو سب برہمن اس کے خلاف یک زبان ہو جاتے ہیں۔ بھارتی آئین میں ذات پات اور عقیدے و مذہب کی بنیاد پر تفریق کی نفی کی گئی ہے مگر ہم ہندو لوگ اپنے افکار اور ذات پات کے کڑے اصولوں میں ابھی تک جکڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص ان تنگ بندھنوں سے آزاد ہے‘ وہی سچا ہندو ہے۔تمام انسان ایک ہی جیسے ہیں۔ ان کا رنگ‘ روپ، زبان، لباس، کھانا پینا ملک اور وقت کے مطابق الگ الگ ہو سکتا ہے، لیکن اگر وہ ایک ہی باپ کے اولاد ہیں تو آپ ان میں ہندوانہ ذات پات کی تفریق کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر آپ ان میں تفریق کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ مذہبی ہیں ہی نہیں۔ دوسری طرف جہاں تک لائوڈ سپیکر والے معاملے کی بات ہے تو اگرگاؤں کے کچھ لوگوں نے انجانے میں یا جان بوجھ کر لاؤڈ سپیکر لگا لیا تو اس سے کون سا آسمان ٹوٹ رہا تھا؟انہیں روکنے کے لیے مار پیٹ اور گالی گلوچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سچ مچ لاؤڈ سپیکر کی آواز اونچی تھی اور آپ کے کام میں کچھ حرج ہو رہا تھا تو آپ پولیس تھانے جا کر شکایت کر سکتے تھے لیکن کسی کی آواز قابو کرنے کے لیے آپ اس کی جان لے لیں‘ یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ اس کے پیچھے کی ایک وجہ پڑوسیوں کا تکبر بھی ہو سکتا ہے۔ کسی کمتر پڑوسی کی یہ ہمت کیسے پڑ گئی کہ وہ پوجاپاٹھ کے نام پر سارے محلے میں اپنے نام کے ڈنکے بجوائے۔ اگر حملہ آور لوگ قانون‘ قاعدوں کا دوسروں سے اتنا سخت نفاذ کروانا چاہتے ہیں تو انہیں خود سے پوچھنا چا ہئے کہ انہوں نے اپنے پڑوسی کا قتل کرکے کون سے قانون پر عمل کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں