یوکرین کے معاملے میں بھارت سے موقع چوک گیا۔ پچھلے ڈھائی مہینے سے میں برابر لکھ رہا تھا کہ یوکرین تنازع کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بھارت کی پہل سب سے زیادہ معنی خیز ہوسکتی ہے، لیکن جو پہل نریندر مودی کو کرنی چاہیے تھی وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کردی اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔گوتریس 27 اپریل کوخود جاکر روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملے۔ انہوں نے دونوں فریقوںکو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے روسی صدر پوتن سے ملاقات میں یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر تفصیلی گفتگو کی گئی تاہم اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، البتہ روسی صدر نے یوکرین کے شہر ماریوپول کے گیس پلانٹ میں پھنسے افراد کے بحفاظت انخلا پر اتفاق کیا۔اس اتفاقِ رائے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ روسی فوج کے حصار میں ماریوپول کے آزوفسٹال سٹیل کمپلیکس میں پھنسے لوگوں کے محفوظ انخلا میں اقوام متحدہ اور ریڈکراس کو اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ ماریوپول کے ایک گیس پلانٹ کے اندریوکرین کے ایک ہزار شہریوں اور دو ہزار یوکرینی فوجیوں نے پناہ لے رکھی ہے جبکہ پورے شہر پر روسی فوج نے قبضے کے بعد کنٹرول سنبھال لیا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور ہیومن رائٹس کونسل میں روس کے خلاف جب بھی کوئی تجویز رکھی گئی تو زیادہ ممبران نے اس کی ڈٹ کر حمایت کی۔بہت کم قوموں نے اس کی مخالفت کی لیکن بھارت ہر قرارداد پر غیر جانبدار رہا۔ اس نے اس کے حق یا مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔ بھارت کے وزیر اعظم پچھلے دنوں جب یورپ کے سات ممالک کے رہنماؤں سے ملے تو ہر رہنمانے کوشش کی کہ بھارت روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے دورۂ بھارت میں بھی یہ کوشش کی لیکن بھارت کا رویہ یہ رہا کہ مذمت سے کیا فائدہ ہوگا؟ کیا جنگ بند ہو جائے گی؟اتنے مغربی ممالک نے کئی بار روس کی مذمت کرلی‘ روس کے خلاف قراردادیں پاس کرلیں اور اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگادیں پھر بھی یوکرین جنگ کی جوالہ لگاتاردہکتی جارہی ہے۔بھارت کی پالیسی یہ تھی کہ روس کی مخالفت یا حمایت کرنے کے بجائے ہمیں اپنی طاقت جنگ کو بند کروانے میں لگانی چاہئے۔ ابھی جنگ توبند نہیں ہوئی ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی کوششوں سے ایک کمال کا کام یہ ہوا ہے کہ سلامتی کونسل میں اتفاقِ رائے سے یوکرین پر ایک قرارداد پاس کرلی گئی ہے۔ اس کی حمایت میں نیٹو ممالک اور بھارت جیسے ممبران نے تو ہاتھ اونچا کیا ہے، روس نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ ڈالا ہے۔ سکیورٹی کونسل کا ایک ہی مستقل ممبر کسی تجویز کی مخالفت کرے تو پاس نہیں ہو سکتا۔ روس نے ویٹو نہیں کیا۔ کیوں نہیں کیا؟ کیونکہ اس تجویز میں روسی حملے کیلئے جنگ،جارحیت یا تجاوزات جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اسے صرف تنازع کہا گیا ہے۔ اس تنازع کو بات چیت سے حل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہی بات بھارت ہمیشہ کہتا رہا ہے۔ اس تجویز کو ناروے اور میکسیکو نے پیش کیا تھا۔یہ تجویز تب پاس ہوئی ہے جب امریکا آج کل سلامتی کونسل کا صدر ہے۔بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ اسے بھارت کے وژن کو ملنے والی عالمی مقبولیت بھی کہہ سکتے ہیں۔بھارت سمجھتا ہے کہ اگر بھارتی نیتاؤں میں اعتماد ہوتا تو اس کا کریڈٹ بھارت کو مل سکتا تھا اور اس سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ملنے میں بھی بھارت کی پوزیشن مضبوط ہو جاتی۔ اس قرارداد کے باوجود یوکرین جنگ ابھی بند نہیں ہوئی۔ بھارت کیلئے اب بھی موقع ہے۔ روس اور نیٹو ممالک دونوں ہی بھارت سے قربت بڑھانا چاہتے ہیں اور دونوں ہی بھارت کا احترام کرتے ہیں۔ اگر بھارتی وزیر اعظم مودی اب بھی پہل کریں تو یوکرین جنگ بند ہو سکتی ہے۔وزیراعظم مودی کو روسی صدر پوتن اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے بات چیت کرنی چاہیے تاکہ اس معاملے کو جنگ بندی کی طرف لایا جا سکے۔ اگر بھارتی وزیراعظم کی کوششوں سے ایسا ہو گیا تو یقینا عالمی سطح پر بھارت کے امیج میں بہت بہتری آئے گی اور عالمی معاملات میں بھارت کے کردار کے لیے راہیں کشادہ ہوں گی۔
بھارت میں'علاج‘ کا علاج کیسے ہو ؟
بھارت میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر بھارت کے مرکزی اور صوبوںکے وزرائے صحت کو ذرا بھی شرم کیوں نہیں آتی؟ ایسا نہیں ہے کہ انہیں ان ہسپتالوں کی حالت کا پتا نہیں ہے۔اگر ا نہیں پتا نہیں ہے تو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5کی تازہ رپورٹ ذرا دیکھ لیں۔ اس کے مطابق بہار کے 80 فیصد مریض اپنے علاج کیلئے غیر سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ بھارت میں ان نجی ہسپتالوں میں زبردست ٹھگی ہوتی ہے لیکن جان بچانے کی خاطر وہ اسے برداشت کرتے ہیں۔ وہ پیسے ادھار لیتے ہیں، دوستوں اور رشتہ داروں کے مقروض بنتے ہیں اور مجبوری میں مہنگا علاج کرواتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ نجی ہسپتالوں میںکیا کوئی مزدور یا کاشت کار جانے کی ہمت کر سکتا ہے؟ کیا تیسرے چوتھے درجے کا کوئی ملازم اپنے علاج پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر سکتا ہے؟ ان ہسپتالوں میں علاج کروانے والے یا تو مالدار ہوتے ہیں یا درمیانے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ز یادہ بیمار پڑتے ہیں کیونکہ جو لوگ محنت کرتے ہیں وہ بیمار بھی کم ہی پڑتے ہیں‘ لیکن جب پڑتے ہیں تو ان کے علاج کا ٹھیک ٹھاک انتظام کسی بھی بھارتی ریاست میں نہیں ہوتا۔ اتر پردیش میں بھی 70فیصد مریض نجی ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھاری بھیڑ ہوتی ہے۔ دہلی کے مشہور میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں آپ جائیں تو آپ کو لگے گا کہ کسی دم گھوٹو ہال میں یا میلے ٹھیلے میں آپ دھکے کھانے کو آگئے ہیں۔ بھارت کے قصبوں اور گاؤں کے لوگوں کو لمبے لمبے سفرکرنا پڑتے ہیں سرکاری ہسپتال کھوجنے کے لیے۔ کروڑوں لوگ توایسے ہیں جنہیں اپنی گمبھیر بیماریوں کے بارے میں سالوں تک کچھ جانکاری بھی نہیں ہوتی، کیونکہ بھارت میں جانچ اور علاج بہت مہنگا ہے۔ ہونا تو یہ چاہے کہ علاج بالکل مفت ہو۔ بھارتی سرکار نے ابھی پانچ لاکھ روپے ہیلتھ انشورنس کی جوامید دلائی ہے اس سے لوگوں کو کچھ راحت ضرور ملے گی لیکن اس سے کیاسرکاری ہسپتالوں کی حالت سدھرجائے گی؟ سرکاری ہسپتالوں کی حالت سدھارنے کا پکا طریقہ میں نے کچھ سال پہلے ایک آرٹیکل میں سجھایاتھا۔ اس سجھاؤ پر الٰہ آباد کورٹ نے مہر لگادی تھی لیکن اتر پردیش کی اکھلیش یا یوگی سرکار نے اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا ہے۔ سجھاؤ یہ تھا کہ وزیر اعلیٰ سے لے کر چپراسی تک اور ایم پی سے لے کر کونسلر تک سبھی کیلئے یہ ضروری ہونا چاہئے کہ اپنا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی کروائیں۔اگر ایسا قانون بن جائے تو دیکھئے کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت کہ راتوں رات ٹھیک ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ اگر آیوروید، ہومیوپیتھی، یونانی اور قدرتی علاج کو کافی بڑھاوا دیا جائے اور ان میں ریسرچ بڑھائی جائے تو بھارت کا میڈیکل نظام بڑی حد تک بہتر اور سستا، آسان اور بہترین میڈیکل نظام بن سکتا ہے۔یہ بھی باعثِ تشویش ہے کہ بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب نے اب طبی شعبے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ کورونا وبا کے دوران کئی شہروں میں ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھا جا رہا ہے۔ شاید اب بھی اس تعصب کے بہت سے کیسز مل جائیں۔