"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں کورونا سے کتنے لوگ مرے ؟

عالمی ادارۂ صحت نے کورونا سے مرنے والے بھارتیوں کی جوتعداد بتائی ہے، اگر وہ ٹھیک ہے تو یہ بھارت کے لیے بہت ہی فکر اور شرم کی بات ہے۔ اس کے اعدادو شمار اگر مستند ہیں تو بھارت سرکار کہیں منہ دکھانے لائق بھی نہیں رہے گی۔ بھارت سرکار کا کہنا ہے کہ کورونا سے 2 سالوں میں بھارت میں اموات کی تعداد 4 لاکھ 81 ہزار رہی ہے لیکن ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کہتی ہے یہ تعداد 40 لاکھ 74 ہزار ہے‘ یعنی سرکار نے جتنی بتائی ہے اس سے تقریباً 10 گنا۔ یہ 1اور 10کا فرق کیابتاتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ یاتووہ عالمی ادارہ جھوٹ بول رہا ہے یا بھارت سرکار نے جھوٹ بولا ہے؟یہ تو ٹھیک ہے کہ جب ایسی قدرتی آفات آتی ہیں تو دنیا کی تمام سرکاریں انہیں کم کرکے دکھانا چاہتی ہیں تاکہ لوگوں میں ان کا ایسا امیج بنے کہ انہوں نے مفادِ عامہ کی خاطر کتنا زبردست کام کردکھایا ہے لیکن کیا کوئی سرکار اتنی بڑی دھاندلی کر سکتی ہے کہ وہ 10 کو 1میں بدل دے؟ میرے خیال بھارت جیسے ملک میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ بھارت کوئی روس، چین یا شمالی کوریا جیسا ملک نہیں ہے،جہاں صحافت اکثر مفلوج ہوتی ہے۔ بھارت میں پارلیمنٹ ہے، اپوزیشن ہے اور ہمارے بیوروکریٹس بھی اتنے مریل نہیں کہ کوئی سرکار اتنی بڑی دھاندلی کرے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے لوگ‘ حالانکہ مغرور نہیں ہیں لیکن وہ اتنے ہمت والے ضرورہیں کہ کسی بھی سرکارکا نکما پن برداشت نہیں کریں گے۔درحقیقت ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کا اہم مقصد یہی ثابت کرنا ہے کہ بھارت میں کورونا کی وجہ سے لوگ مرتے رہے اور سرکار خراٹے لیتی رہی۔ یہ ٹھیک ہے کہ شروع کے کچھ دنوں میں سرکار نے کافی لاپروائی دکھائی۔ 2020ء میں تقریباً40 لاکھ لوگوں نے مناسب علاج کی کمی میں جانیں گنوائیں لیکن وہ سب کیا کورونا کے مریض تھے؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بھارت کے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر ملازمین نے اپنی جان پر کھیل کر کروڑوں لوگوں کی زندگی بچائی؟ اس وقت کے بھارت کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے جان لیوا ماحول میں جس محنت کا مظاہرہ کیا‘ وہ انوکھا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے آیورویدک کاڑھے کے کروڑوں پیکٹوں اور بھارت کے گھریلومسالوں نے کورونا جنگ میں کمال کر دکھایا تھا۔ بھارت کے مقابلے امریکا اور یورپ میں جتنے لوگ مرے ہیں‘ اگر آبادی کے تناسب سے حساب لگائیں تو وہ کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان اقوام کے جسمانی صحت اور بہترین طبی مشق کے دعوے کو اس مہاماری نے چور چور کردیا۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کا بھارت سرکار نے کئی بنیادوں پر سخت رد کیا ہے۔ بھارت میں ہلاکتوں کی تعداد کے آنکڑے روزانہ شائع کیے جاتے تھے‘ اس لیے میری نظر میں انہیں چھپانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال امریکی تحقیقاتی ادارے سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ نے جولائی میں اپنی ایک شائع کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں سرکاری اعدادشمار سے دس گنا سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ ایک اور امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ بھارت میں کورونا کے نتیجے میں47 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی ایک بار ان ہلاکتوں کی تعداد 52 لاکھ بتائی تھی؛ تاہم مودی حکومت نے ان سب کو بے بنیاد اور یکسرغلط قرار دیا تھا۔ بھارت کے سابق چیف اقتصادی مشیر اروند سبرامنیم کے تعاون سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جنوری 2020ء سے جون 2021ء کے درمیان بھارت میں کورونا سے ہونے والی اموات کی تعداد 34 سے 47 لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے جو حکومت کی طرف سے بتائی جانے والی ہلاکتوں کے مقابلے دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ان سب اداروں کو اپنے اپنے ڈیٹا پر خوب اعتماد ہے مگر کوئی بھی ایک نکتے پر متفق نہیں ہے۔ ڈبلیوایچ او کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سمیرا اسما‘ جوا س طرح کے اعداد و شمار جاری کرتی ہیں‘ نے کہا ہے کہ بھارت سرکار کی مخالفت پر وہ ضرور توجہ دیں گی اور اپنے ڈیٹا کی جانچ کروائیں گی۔ بھارت سرکار کی مخالفت اپنی جگہ صحیح ہے لیکن سچائی کیا ہے‘ یہ ثابت کرنے کے لیے ڈبلیو ایچ او اور بھارت سرکار کے درمیان دو ٹوک بات چیت ضروری ہے۔
انتظامی فیصلے اور فرقہ واریت
بھارتی سیاست کا یہ لازمی کردار بن گیا ہے کہ مقامی سیاسی و انتظامی مدعوںکو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ جیسے غیر قانونی مکانوں کو گرانا اور لائوڈ سپیکر وغیرہ کو روکنا اپنے آپ میں فائدہ مند کام ہیں لیکن انہیں لے کرآج کل بھارت میں مختلف فرقوں کے نیتااور سیاسی جماعتیں آپس میں دنگل پر اتر آئے ہیں۔ ممبئی میں اب مہاراشٹر نو نرمان سینانے دھمکی دے دی تھی کہ اگر 3 مئی (عید کے دن) تک مہاراشٹر سرکار نے مسجدوں سے لاؤڈ سپیکر نہیں ہٹائے تو وہ مسجدوں کے سامنے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کریں گے۔ اگر یہ سینا سبھی مذہبی مقامات؛ مساجد، مندروں،گرجا گھروں، گوردواروں اور سنیگاگوں کیلئے اس طرح کی پابندیوں کی مانگ کرتی تو وہ ٹھیک ہوتی لیکن صرف مسجدوں کو نشانہ بنانا تو خالص فرقہ پرستی ہے یا یوں کہیں کہ تھوک ووٹ کی سیاست ہے۔ کئی علاقوں میں مساجد کی انتظامیہ نے سپیکر کی آواز کم رکھنے پر اتفاق کیا ہے‘ اگر ایسا معاملہ ہے تو پھر اس کو زیادہ اچھالنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر مسئلہ شور کا تھا تو وہ سپیکر والیم کم کرنے سے بھی حل ہو جائے گا‘ لیکن جس طرح مہم چلائی جا رہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ سپیکر یا شور کا نہیں بلکہ ووٹ کی سیاست کا معاملہ ہے۔ راج ٹھاکرے ‘جن کی جماعت کی 288 ارکان پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے‘ اس مدعے کو لے کر سب سے زیادہ اتائولے ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار نے لائوڈ سپیکر کے خلاف مہم شروع کی تو اس نے کسی بھی مذہبی مقام کو نہیں بخشا۔ اس نے مندروں اور مسجدوں پر ہی نہیں، جلوسوں پر بھی طرح طرح کی پابندیاں نافذ کردی ہیں۔ اسی طرح ''بلڈوزر ماما‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے مدھیہ پردیش کے مکھیہ منتری شوراج چوہان نے پچھلے دنوں غیر قانونی مکان ڈھانے میں کوئی بھیدبھاؤ نہیں کیا۔ ان کے بلڈوزروں نے اقلیتوں اور مسلمانوں کے جتنے مکان ڈھائے اس سے کہیںزیادہ ہندوؤں کے ڈھائے۔ غیر قانونی مکانوں کو ڈھانا ٹھیک ہے لیکن صرف اقلیتوں کے ہی کیوں‘سبھی غیر قانونی مکانوں کو ڈھانے کی ایک جیسی مہم کیوں نہیں چلائی جاتی؟ ڈھانے سے پہلے انہیں مطلع کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جو غلط طریقے سے ڈھائے گئے ہیں‘ ان مکانوں کو پھر فوراً بنا دینا اور ان کا مناسب معاوضہ بھرنا بھی ضروری ہے۔ غیر قانونی مکانوں کی ڈھانے کا معاملہ ہو یا سپیکر کی آواز کو قابوکرنا ہو‘ کوئی بھی بھیدبھاؤ کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ جہاں تک لائوڈ سپیکر پر پابندی کی بات تو ہے دنیا کے کئی ممالک میں ان پر سخت پابندی ہے۔ نائیجیریا نے تو کان پھوڑُو آواز کی وجہ سے 70 گرجا گھروں اور 20 دیگر مذہبی مقامات کو بند کر دیا۔ ہوٹلوں اور شراب خانوںکو بھی بند کیاگیا ہے۔ کاروں کے بھونپوؤں کی آواز بھی محدود کر دی گئی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس میں بھی شور مچانے کی چھوٹ نہیں دی گئی۔ یورپ کے تقریباً دو درجن ممالک نے مذہبی علامات لگا کر باہر گھومنے پربھی پابندی لگا رکھی ہے لیکن یہ ملک ان پابندیوں کولگاتے وقت کسی مذہب اور فرقے میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ جب پابندی سب کے لیے یکساں طور پر لگائی جائے تبھی وہ بہتر کہلائی جاتی ہے۔ فرقوں کے نام پر چل رہے آمرانہ ہتھکنڈوں اوردکھاوںکو روکنے میں بھی ان پابندیوں کا اہم کردار ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں