"DVP" (space) message & send to 7575

بھارتی جمہوریت اور کانگرس کی فکر مندی

کانگرس کا تین روزہ ''چنتن شیور‘‘ ختم ہوگیا۔ یہ چنتن شیور ایک اندرونی سدھار اور خود احتسابی اجلاس تھا جس کا مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ کہیں کانگریس اپنے منشور اور اپنے نظریے سے ہٹ تو نہیں گئی۔ جس فکر مندی کے ساتھ یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا‘ کیا وہ کانگرس کی فکر کو ختم کر پایا؟ کانگرس کی فکرمندی تو اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس کی فکرمندی حقیقت میں بھارت کی جمہوریت کی بھی چنتا ہے کیونکہ مضبوط اپوزیشن پارٹی کے بغیر کوئی بھی جمہوریت تیزی سے گر سکتی ہے۔ ویسی جمہوریت بغیر بریک کی موٹر گاڑی بن جاتی ہے۔ کسی بھی پارٹی کو مضبوط ہونے کے لئے رہنمائوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ادے پور کے تین روزہ کیمپ میں سے کیا نکلتا ہے۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ اب کانگرس ''بھارت جوڑو مہم‘‘ چلائے گی۔ اس وقت کیا بھارت ٹوٹ رہا ہے؟ اسے جوڑنے کے بجائے کانگرس کو جوڑنا زیادہ ضروری ہے۔ کانگرس اندر اور باہر‘ دونوں طرف سے ٹوٹ رہی ہے۔ خود راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ کانگرسی رہنما ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ مجھے کیا ملا؟ (ویسے سونیا، راہل اور پریانکا کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی) اسی لیے کانگرس ہر صوبے میں اندر سے ٹوٹ رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس کی سرکار کیوں گری؟ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں چیف منسٹرز کی کرسیاں کیوں ڈگمگاتی رہتی ہیں؟ کانگرس کے کئی چیف منسٹرز اور منسٹرز پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن جماعتوں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ اس وقت کانگرس کی سرکاریںجن صوبوں میں ہیں‘ وہ صوبائی رہنماؤں کے دم پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اسی لیے راہل گاندھی کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ بھاجپا سے صرف اکیلی کانگرس ہی لڑ سکتی ہے کیونکہ وہ واحد آل انڈیا مخالف پارٹی ہے اور واحد ایسی پارٹی ہے جس کے پاس کوئی نظریہ ہے۔ یہاں کمیونسٹ پارٹی کا ذکر ضروری نہیں ہے، لیکن کیا یہ سچ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی بھاجپا کا کوئی نظریہ نہیں ہے؟ راہل کا کہنا ہے کہ بھاجپا صرف وقتی ابال‘ اقتدار کی پجاری اور دیش توڑو پارٹی ہے۔ کیا کانگرس اقتدار کی لالچی نہیں ہے؟ بھاجپا کے پاس تو صحیح یا غلط‘ ایک نظریہ ہے لیکن کانگرس کے پاس کیا ہے؟ نہ اس کے پاس گاندھی واد ہے، نہ سماج واد، نہ غریبی ہٹاؤ، نہ ہی بھارت کو عظیم دیش بنانے کا نعرہ۔اس کے پاس صرف حکمران جماعتوں کی لچر‘ پچر تنقید ہے جو لوگوں کے سر کے او پر سے نکل جاتی ہے۔ پچھلے انتخابات میں کانگریس کے 23 رہنماؤں کے داخلی اصلاحات پر زور دینے والے گروپ نے کہا تھا کہ عظیم الشان پرانی پارٹی اب 2024ء کے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں آپ جیت یا ہار سکتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم خود کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے سونیا جی کو خبردار کرنے کے باوجود انہوں نے نوجوت سنگھ سدھو کو پنجاب کانگرس کا سربراہ بنا دیا کیونکہ پریانکا گاندھی نے اس معاملے پر زور دیا تھا۔ ایسے اور بہت سے فیصلے ہیں۔ بھارت میں‘ آزادی کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ کانگرس پارٹی نے حکومت کی ہے اور کبھی اس پارٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا اسعد مدنی اور کریم چھاگلہ جیسے نام بھی ہوا کرتے تھے۔ جب کہیں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوجاتا تھا تو کانگرس اقلیتوں کے زخموں پر مرہم رکھا کرتی تھی۔ طویل عرصے تک یہ سلسلہ چلا یعنی کانگریس کی حکومت بنتی رہی، فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے، مسلم سیاسی چہرے معافی مانگتے اور کانگریس کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرتے رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہوتی رہی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کانگرس سے دلت اور مسلمان اوب گئے اور انہیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ سیاسی رہنماؤں نے دولت اور شہرت حاصل کرنے اور اپنا منصب برقرار رکھنے کے لیے عوام کو دھوکا دینے کا دھندا اپنا رکھا ہے۔ اس کے نیتاؤںکو ملک کی نہیں‘ خود کی فکر ہے۔ کانگرس نے آہستہ آہستہ سیاسی فکر والے اونچے قد کے لوگوں کو سائیڈ پر کرنا شروع کیا اور خاندان کے لوگوں کو آگے لانے کا آغاز کیا۔ اسی فکر نے اس مہان پارٹی کو اب پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا دیا ہے۔ اسی کی دیکھا دیکھی تقریباً سبھی صوبوں میں خاندانی پارٹیاں کھڑی ہو گئی ہیں۔ حالیہ اجلاس میں ایک بھی مقرر کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اس خاندانی پروپیگنڈے کے خلاف منہ کھولے۔ یہ اچھااتفاق ہے کہ موجودہ حکمران جماعت ابھی تک خاندانی جال میں نہیں پھنسی حالانکہ وہ بھی تقریباً اسی راستے پر چل پڑی ہے۔ 50 سال سے کم عمر کے لوگوں کو اہمیت دینے کا ارادہ تو ٹھیک ہے لیکن اس میں سے بھی اقربا پروری کی بو آ رہی ہے۔ 'ایک خاندان‘ ایک ٹکٹ‘ کی بات‘ اس میں بھی 5 سال کی شرط‘ کیا چور دروازے سے خاندانی سیاست کو ہی چلانا نہیں ہے؟ دوسرے الفاظ میں حالیہ اجلاس نے کانگرس کیلئے نہ تو کوئی نئی پالیسی دی اور نہ ہی اسے کوئی رہنما دیا۔
بھارت: غداری کا قانون فی الفور ختم کریں
انگریزوں کے بنائے ہوئے 152سال پرانے راج دروہ قانون کی شامت آچکی ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے اسے پوری طرح سے غیرقانونی قرار نہیں دیا لیکن ویسا کرنے سے پہلے اس نے مرکزی سرکارکو 10جون تک یہ بتانے کو کہاہے کہ اس میں وہ کیا کیا سدھار کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرکار بھی متفق ہے کہ راج دروہ یعنی غداری کا یہ قانون غیر مناسب اور بے وقتی ہے۔ اگر سرکار کی یہ منشا ظاہر نہیں ہوتی تو عدالت اس قانون کو رد ہی کرنے کا اعلان کردیتی۔فی الحال عدالت نے اس قانون کوملتوی کرنے کاحکم جاری کیا ہے۔ انگریزوں نے یہ قانون 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے تین سال بعد بنایا تھا۔ یہ قانون بھارت کے آئین کی دفعہ 124اے میں مذکور ہے۔ اس قانون کے مطابق: کسی بھی شخص کو اگر انگریز سرکارکے خلاف بولتے یا لکھتے ہوئے، تحریک چلاتے یامظاہرہ کرتے ہوئے پایاگیا تو اسے فوراً ملک کے امن و امان کوخراب کرنے پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اسے ضمانت پر چھوٹنے کا حق بھی نہیں ہوگا اور جرم ثابت ہونے پر اسے تاعمر قید تک کی سزا بھی مل سکتی ہے۔ اس قانون کا غلط استعمال انگریز سرکار نے کس کس کے خلاف نہیںکیا۔ اگر بھگت سنگھ کے خلاف کیا گیا تومہاتما گاندھی، بال گنگا دھر تلک، سردار پٹیل،جواہر لال نہرو نے بھی اسی کے قانون کے تحت جیل کاٹی۔ آزادی کے بعد بھی یہ قانون جاری رہا۔ اندرا گاندھی کے دور میں اسے اور بھی سخت بنادیا گیا۔کسی بھی شہری کو اب بھی ریاست سے غداری کے جرم میں وارنٹ کے بغیر بھی جیل میں سڑایا جاسکتا ہے۔ ایسے سینکڑوں لوگوں کو سبھی سرکاروں نے وقت‘ بے وقت گرفتار کیا ہے جنہیںوہ اپنا مخالف سمجھتی تھیں۔ کسی وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ پرتنقید یاان کے کسی اقدام کی مذمت کیا ریاست سے غداری کہلائے گی۔بھارت میں چلنے والی کئی پُر امن تحریکوں کے نیتائوں کوغداری کا مجرم قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا۔ کئی صحافی بھی اس قانون کے شکار ہوئے جیسے ونود دوا، صدیق کپن اور امن چوپڑہ وغیرہ۔ آگرہ میں تین کشمیری سٹوڈنٹس کو اس لیے جیل بھگتنا پڑی کہ انہوںنے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت کے خلاف اس کی جیت پر سوشل میڈیا پر مبارک دی تھی۔ بنگلور کی دشا روی کو پولیس نے اس لیے پکڑ لیا تھا کہ اس نے کسان تحریک میں ایک ٹول کٹ جاری کیا تھا۔ جتنے لوگوںکو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا‘ ان سے آپ غیر متفق ہو سکتے ہیں‘ وہ غلط بھی ہوسکتے ہیں لیکن انہیں غداری کا مرتکب قرار دینا بہت زیادہ قابلِ اعتراض ہے۔ یہ قانون اس لیے بھی رد ہونے لائق ہے کہ اس کے تحت لگائے گئے الزامات اکثر ثابت ہی نہیں ہو پاتے۔ پچھلے 12 سالوں میں بھارت میں 13 ہزار 306 لوگوں پر غداری کے مقدمے چلائے گئے لیکن صرف 13 لوگوںکوسزا ہوئی یعنی مشکل سے ایک فیصد الزامات بھی صحیح نہیں نکلے۔ یہ شہری آزادی کا قتل نہیںتو کیا ہے؟ اس دم گھونٹو قانون کو فی الفور رد کیا جانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں