نیٹونامی فوجی اتحاد میں اب یورپ کے دو اور ملک بھی جڑنے والے ہیں۔ یہ ہیں فن لینڈ اور سویڈن۔اس طرح 1949 ء میں امریکہ کی پہل پر بننے والی 15 ممالک کی اس تنظیم کے اب 32ارکان ہوجائیں گے۔اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے فن لینڈ کو خبردار کیا گیا تھا کہ غیر جانبداری کاراستہ چھوڑنا غلطی ہو گی۔ یورپ کے تقریباً تمام اہم ممالک اس فوجی تنظیم میں ایک کے بعد ایک شامل ہوتے گئے کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں انہیں سوویت یونین سے اپنا تحفظ چاہئے تھا اور سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد انہیں خود کو مکمل کرنا تھا۔ فن لینڈ‘ سویڈن اور سوئٹزرلینڈجان بوجھ کر فوجی دھڑوں سے الگ رہے لیکن یوکرین پر ہوئے روسی حملے نے ان ملکوں میں بھی بڑا ڈر پیدا کر دیا ہے۔ فن لینڈ تو اس لئے بھی ڈر گیا ہے کہ وہ روس کی شمالی سرحد پر واقع ہے۔ روس کے ساتھ اس کی سرحد 1340 کلومیٹر کی ہے جو نیٹو ملکوں سے دوگنا ہے۔ فن لینڈ پر حملہ کرنا روس کے لیے یوکرین سے بھی زیادہ آسان ہے۔ یوکرین کی طرح فن لینڈ بھی روسی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ سے ماسکو جتنی دور ہے اس سے بھی کم دوری (400کلومیٹر) پرفن لینڈ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فن لینڈ غیر جانبدار ہو گیا تھا لیکن سویڈن تو پچھلے 200 سال سے کسی بھی فوجی گٹھ بندھن میں شامل نہیں ہوا۔ اب یہ دونوں ممالک نیٹو میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔یہ روس کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ ادھر جنوبی کوریا بھی چوگٹے(کواڈ) میں شامل ہونا چاہ رہاہے۔ یہ واقعات نئی عالمی دھڑے بندی کا اشارہ دے ر ہے ہیں۔روس اور چین مل کر امریکہ کو ٹکر دینا چاہتے ہیں اور امریکہ ان کے خلاف ساری دنیا کو اپنی چھتری کے نیچے لانا چاہتا ہے۔ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دیں گے تو بھی انہیں رکنیت ملنے میں سال بھر کا وقت لگ سکتا ہے‘ کیونکہ تمام 30 ممالک کی رضامندی ضروری ہے۔ترکی جو کہ نیٹو کا رکن ملک ہے‘کے صدر رجب طیب اردوان نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔ترکی شمالی یورپ کے ان دونوں ممالک پر کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی حمایت کا الزام عائد کرتا ہے؛ تاہم ترکی کے اس اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا تھا کہ نیٹو تنظیم فن لینڈ اور سویڈن دونوں کی رکنیت پر ترکی کے اعتراضات کا ازالہ کر سکتی ہے۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے دونوں ملکوں کا خیر مقدم کیا ہے‘ لیکن ماسکو نے کافی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ روسی ترجمان نے کہا ہے کہ نیٹو کی یہ توسیع روسی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ روس خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ جوابی کارروائی کرے گا۔ وہ فوجی‘ تکنیکی اور معاشی قدم بھی اٹھائے گا۔ روس نے دھمکی دی ہے کہ وہ فن لینڈ کو گیس کی سپلائی بند کردے گا۔ وہ بالٹک سمندر کے ساحل پر ایٹمی میزائل تعینات کرنے کی بھی تیاری کرے گا۔ ان تمام دھمکیوں کو سننے کے باوجود ان ممالک کی عوام کا رجحان نیٹو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کے 70‘80 فیصد عوام نیٹو کی رکنیت کے حق میں ہیںکیونکہ نیٹو چارٹر کی دفعہ پانچ کہتی ہے کہ نیٹو کے کسی ایک رکن پر کیے گئے حملے کو سبھی ارکان پر حملہ مانا جائے گا۔ اگر یوکرین نیٹو کا رکن ہوتا تو روس کی ہمت ہی نہ ہوتی کہ وہ اس پر حملہ کرے۔یوکرین ہدف اس لیے بنا کہ وہ نیٹو کا رکن نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عالمی سیاست پھر سے دو دھڑوں میں بٹنے والی ہے۔ یہ کھیل ذرا لمبا چلے گا۔ ان حالات میں بھارتی خارجہ پالیسیوں کو اپنی توجہ جنوبی اور وسط ایشیا کے پڑوسی ممالک پر مرکوز کرنا ہوگی۔ان ممالک کو دھڑے بندی کی سیاست میں پھسلنے سے بچانا ٹارگٹ ہونا چاہئے۔
کانگرس کا چنتن کیمپ یاچنتا کیمپ
پچھلے دنوں اودے پور میںکانگرس کا '' خود احتسابی کیمپ‘‘ منعقد کیا گیا۔ سب سے حیرانی تو مجھے یہ جان کر ہوئی کہ اس اجتماع کا نام ''چنتن شور‘‘رکھا گیا۔ بھارت کے نیتااور خود احتسابی ! ان دو لفظوں کی یہ جوڑی تو بالکل بے میل ہے۔ بھلا سیاستدانوں کا خود احتسابی سے کیا لینا دینا۔ چھوٹی موٹی صوبائی پارٹیوں کی بات جانے دیں‘ بھارت کی ملک گیر پارٹیوں کے رہنماؤں میںبھی خود احتسابی کرنے والے رہنما کتنے ہیں؟ کیا انہوں نے گاندھی‘ نہرو‘ جے پرکاش‘ لوہیا‘ نریندر دیو کی طرح کبھی کوئی عہد نامہ تحریر کیا ہے؟ ارے لکھنا تو دور‘ وہ بتائیں گے کہ ایسے خود احتسابی کے عہد ناموں کو انہوں نے پڑھا تک نہیں ہے۔ ارے بھائی وہ ان کتابوں میں ماتھا پھوڑیں یا اپنی سیاست کریں؟ انہیں نوٹ اور ووٹ ادھیڑنے سے فرصت ملے تو خود احتسابی کریں۔ وہ ''چنتن کیمپ‘‘ نہیں ''چنتا کیمپ‘‘ منعقد کر رہے ہیں۔ انہیں تشویش ہے کہ ان کے نوٹ اور ووٹ کھسکتے جا رہے ہیں۔ اس تشویش کو ختم کرنا ہی اس کیمپ کا ٹارگٹ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کیمپ پہلی بار منعقد ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے کیمپ ہو چکے ہیں۔ ان کی چنتا بھی یہی رہی کہ نوٹ اور ووٹ کا جھانجھ کیسے بجتا رہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کی طاقت دو عناصر سے بنتی ہے ! اس کے پاس سیاسی تدبر اور قیادت ہونی چاہئے۔ کانگرس کے پاس ان دونوں کی کمی ہے۔ قیادت کی اہمیت ہر ملک کی سیاست میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بھارت جیسے ملک میں تواس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔آج کانگرس میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جسے سیاسی تدبر کا ملکہ حاصل ہو۔ اشوک گہلوت‘ بھوپیش بگھیل اور کمل ناتھ نے اپنے اپنے صوبے میں اچھا کام کردکھایا ہے لیکن کیاکانگرسی ان میں سے کسی کو بھی اپنا صدر بنا سکتے ہیں؟کانگرس کی دیکھا دیکھی بھارت کی سبھی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں۔مذکورہ اہل سیاسی رہنماؤں کی حیثیت بھی صرف منیجروں سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر کانگرس پارٹی میں قومی اور صوبائی صدور اور عہدیداران کا چناؤ خفیہ ووٹنگ سے ہوتو اس مہان پارٹی کو ختم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے‘ لیکن کوئی نیا نیتاکیا کیاکرلے گا؟ جب تک اس کے پاس کوئی نئی متبادل پالیسی‘ کوئی عصری نظریہ اور کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں ہو گی؟ وہ بھی مرے سانپ کو ہی پیٹتا رہے گا۔وہ صرف سرکار پر کیچڑ اچھالتا رہے گا حقیقت پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ آج کل کانگرس‘ جو ماں بیٹا پارٹی بنی ہوئی ہے‘ یہی کر رہی ہے۔کانگرس کے نیتااگر خود احتسابی کرتے ہیں تو ملک میں تعلیم‘ علاج اور روزگار کو لے کر کوئی انقلابی منصوبہ پیش کرتے اور کروڑوں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیتے لیکن بھارت کی سبھی پارٹیاں خود احتسابی سے لاتعلق ہو چکی ہیں۔ الیکشن جیتنے کیلئے وہ بھاڑے کے سیاست بازوں کی پناہ میں چلی جاتی ہیں۔برسر اقتدار ہونے پر ان کے رہنما اپنے نوکر شاہوں کی نوکری کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور اقتدار سے آزاد ہو نے پر انہیں بس ایک ہی فکر ستاتی رہتی ہے کہ انہیں کسی بھی طرح پھر سے اقتدارمل جائے۔جب تک ایسا چلتا رہے گا بھارتی سیاست میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ سیاسی جماعتیں جو پہلے ہی خاندانی اور گروہی گٹھ جوڑ میں بدل چکی ہیں عوام سے مزید دور ہوں گی اور ان کے رہنما زیادہ خود سر ہوتے چلے جائیں گے۔