"DVP" (space) message & send to 7575

گیہوں بنا سر درد

ابھی مہینہ بھر پہلے تک بھارتی سرکار دعوے کر رہی تھی کہ اس بار دیش میں گیہوں کی پیداوار غضب کی ہوگی۔ امید تھی کہ یہ 11 کروڑ ٹن سے زیادہ ہوگی اور بھارت اس سال سب سے زیادہ گیہوں برآمد کرے گا اور جم کر پیسہ کمائے گا۔ اس کا امکان اس لئے بھی بڑھ گیا تھا کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں گیہوں کی کمی پڑنے لگی ہے لیکن ایسا کیا ہوا کہ بھارتی سرکار نے راتوں رات فیصلہ کر لیا کہ بھارت اب گیہوں برآمد نہیں کرے گا؟اس کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ گیہوں کی پیداوار اچانک گھٹ گئی ہے۔ اس کی اہم وجہ مارچ‘ اپریل اور مئی میں پڑنے والی خوفناک گرمی ہے۔ سرکارنے پچھلے سال اپنے گودام میں سواچار کروڑ ٹن گیہوں خرید کر بھر لیے تھے لیکن اس بار وہ صرف دو کروڑ ٹن گیہوں ہی خریدپائی ہے۔ پچھلے 15سال میں اتنا کم فرق پہلی بارہواہے۔فروری کے آخر میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے بحیرہ اسود کے علاقوں سے گیہوں کی برآمد میں کمی کے سبب کئی ممالک میں اس کی قلت پیدا ہوئی ہے اور گیہوں اور آٹے کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال میں عالمی خریداروں کی نظریں بھارت پر تھیں جو چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ تاہم مارچ کے مہینے میں بھارت کے کئی حصوں میں شدید گرم لو کی وجہ سے بھی فصل کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا، جو گندم کی برآمد پر پابندی کے حکومتی فیصلے کی ایک وجہ بنا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں افراط زر کی شرح7.7 فیصد تک پہنچ گئی، جوگزشتہ ایک عشرے کیدوران ریکارڈ کی گئی بلند ترین سطح ہے۔ سرکار کو امید تھی کہ اس بار 11 کروڑ ٹن سے بھی زیادہ گیہوں پیدا ہوگا اور وہ تقریباً ایک ‘ڈیڑھ کروڑ ٹن برآمد کرے گی۔ سرکاری اندازہ ہے کہ اس سال گیہوں کی پیداوار 10 کروڑ ٹن سے بھی کم رہے گی۔ تقریباً 4‘5 کروڑ ٹن کی برآمد کے سمجھوتے ہوچکے ہیں اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ ٹن برآمد بھی ہوچکا ہے۔ ہزاروں ٹن گیہوں ہم افغانستان اور سری لنکا بھی بھیج چکے ہیں۔ اب اس برآمد پر جو پابندی لگائی گئی ہے اس کے پیچھے دلیل یہی ہے کہ ایک تو تقریباً 80کروڑ لوگوں کو مفت اناج بانٹنا ہے اور دوسرا یہ کہ اناج کے دام اچانک بہت بڑھ گئے ہیں۔ 20‘22 روپے کلو کا گیہوں آج کل بازارمیں 30روپے کلو تک بک رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بین الاقوامی بازار میں اس وقت گیہوں کے داموں میں کافی اچھال آگیا ہے اور بھارت ا س سے کافی پیسہ کما سکتا ہے لیکن سرکار کا یہ ڈر بہت فطری ہے کہ اگر برآمد بڑھ گئی تو گیہوں اتناکم نہ پڑجائے کہ بھارت میں بحران پید ہوجائے۔سرکار کی یہ سوچ توعملی ہے لیکن اگر گیہوں کی برآمد رک گئی تو کسانوں کی آمدنی کافی گھٹ جائے گی۔انہیں مجبور ہوکر اپنے گیہوں کو سستے سے سستے دام پر بیچنا ہوگا۔ اس وقت سب سے بڑی چاندی ان بیوپاریوں کی ہے جنہوں نے زیادہ قیمتوںپر گیہوں خرید کر اپنے گوداموں میں دبا لیا ہے لیکن گیہوں کی برآمد رک جانے سے اس کی دام گریںگے اور اس سے کسانوں سے بھی زیادہ بیوپاری گھاٹے میں اتر جائیںگے۔ سرکار چاہتی تو برآمد کئے جانے والے گیہوں کے دام بڑھا سکتی تھی۔ اس سے برآمد کی مقدار گھٹتی لیکن سرکار کی آمدنی بڑھ جاتی۔ وہ کسانوں سے تھوڑی زیادہ قیمت پر گیہوں خریدتی تو اس کا ذخیرہ دوگنا ہو سکتا تھا۔ گیہوں کی برآمد پر روک لگانے کے پیچھے سری لنکا سے ٹپک رہا سبق بھی ہے۔اس وقت دیش میں خوردنی اشیاکی مہنگائی سے لوگوں کا پارہ چڑھنا فطری ہوگیا ہے۔
راجیو کے قاتل کی رہائی
بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی کے قتل میں ملوث اے جی پیراروالن کو سپریم کورٹ نے رہا کردیا ہے۔ اس پر تامل ناڈو میں خوشیاں منائی گئیں۔ اس شخص اور اس کی ماں کے ساتھ چیف منسٹر ایم کے سٹالن گلے مل رہے تھے۔راجیو گاندھی کو تامل ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے کارکنوں نے 21 مئی 1991ء کو ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔خود کش بمبار دھنو نام کی ایک لڑکی تھی اور یہ حملہ تامل ناڈو میں کیا گیا تھا جہاں اس وقت بڑی تعداد میں سری لنکا کی خانہ جنگی سے بھاگ کر انڈیا آنے والوں نے پناہ لے رکھی تھی۔راجیو گاندھی قتل کیس میں پہلے 26 ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن بعد میں بھارتی سپریم کورٹ نے صرف چار لوگوں کی سزائے موت کی تصدیق کی تھی۔ تین کو عمر قید کی سزا دی گئی جبکہ باقی 19 کو بری کر دیا گیا تھا۔ حال ہی میں رہا ہونے والے اے جی پیراروالن کو 19 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر الزام تھا کہ اس نے راجیو گاندھی کے قتل میں استعمال ہونے والی بیٹریاں خریدی۔تھیںاے جی پیراروالن کے قلم سے لکھی گئی ایک تحریر دہلی کے ایک انگریزی اخبار نے چھاپی ہے جس میں اس نے ان لوگوںکے تئیں شکریہ اداکیا ہے جنہوںنے اس کی قید کے دوران اس کے ساتھ ہمدردیاں ظاہر کی تھیں۔تامل ناڈو کے دیگر اہم دَل بھی اس کی رہائی کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ تامل ناڈو کی کانگرس نے بڑی دبی زبان سے اس رہائی کی مخالفت کی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس معاملے میں تامل ناڈو کی سرکاراور عوام سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل پر زرا بھی دکھی معلوم نہیں ہو رہی ہے۔یہ اپنے آپ میں کتنے دکھ کی بات ہے۔اگرسری لنکا کے تاملوں کے ساتھ بھارت کے تامل لوگوںکی قربت ہے تو اس میں کچھ برائی نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کے ذریعے کئے گئے اس وقوعے کو نظرانداز کیا جائے‘یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔تامل ناڈو سرکار اس بات پر تو خوشی ظاہر کرسکتی ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں گورنر کونیچے کھسکا دیا اور تامل ناڈو سرکار کو اوپر چڑھا دیا۔گورنرنے صوبائی سرکار کی اس سفارش پر عمل نہیں کیا تھا کہ راجیو گاندھی کے ساتوں قاتلوں کو، جو31 سال سے جیل میں بند ہیں، رہا کردیا جائے۔گورنر نے سرکار کی یہ تجویز صدر کے پاس بھیج دی تھی۔ سپریم کورٹ نے پیراروالن کی پٹیشن پرفیصلہ دیتے ہوئے آئین کی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی کابینہ کی صلاح کومانے۔اسی لئے دو‘اڑھائی سال سے صدر کے یہاں لٹکتے ہوئے اس معاملے کو عدالت نے تامل ناڈو سرکار کے حق میں نپٹا دیا۔ اس فیصلے نے تو یہ واضح کردیا کہ راشٹرپتی اور گورنر وں کے لیے اپنے منتری منڈلوں کی صلاح کو ماننا لازمی ہے‘لیکن صوبائی سرکار کی اس جیت کا یہ بگل جس طرح بج رہا ہے اس کی آواز کا یہی مطلب نکالا جارہا ہے کہ راجیو گاندھی کے قاتل کی رہائی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اب چھ دیگر لوگ جو راجیو کے قتل کے قصور میں جیل میں بند ہیں ، وہ بھی جلد رہا ہو جائیںگے۔ان کی رہائی کافیصلہ بھی تامل ناڈو سرکار کرچکی ہے۔ تقریباً 31سال تک جیل کاٹنے والے ان قصورواروںکو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا۔ یہ اپنے آپ میں کافی سخاوت والی بات ہے اور اب انہیں رہا کردیا جائے گا۔ یہ بھی انسانیت ہی ہے لیکن قاتلوں کی رہائی کو استقبال والے واقعہ کے طورپر پیش کرنا کسی بھی سماج کیلئے نازیبا اور قابلِ مذمت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں