بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک بھارت کا کوئی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نہیں کر سکا۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ کسی سیاستدان کو اس کے اپنے وزیر اعلیٰ نے بدعنوانی کے الزام میں برخاست ہی نہیں کیا بلکہ گرفتار بھی کروا دیا؟ وجے سنگلا کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کا انکشاف کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مان نے پولیس سے اُن کے خلاف کیس درج کرنے کی سفارش کی۔ ایک وڈیو پیغام میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ وجے سنگلا نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔بھارتی پنجاب اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی جس کے بعد بھگونت مان کو ریاست کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ عام آدمی پارٹی اور بھگونت مان نے انتخابی مہم کے دوران ریاست سے بدعنوانی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اب کرپشن کے ملزم سابق وزیر کو گرفتار بھی کرا دیا ہے۔وزیر اعلیٰ مان نے کہا کہ عام آدمی پارٹی نے صاف ستھری اور بدعنوانی سے پاک سرکار فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ حکومت بنائی ۔ وزیر اعلیٰ مان نے اپنے وزیر صحت ڈاکٹر وجے سنگلا کے خلاف یہ ایسی سخت کارروائی کی ہے جس کی پیروی بھارت کے ہر وزیراعلیٰ اور ہر وزیراعظم کو کرنی چاہئے۔سنگلا اور اس کے او ایس ڈی پردیپ کمار کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ ان دونوں نے کسی ٹھیکیدار سے دوفیصد رشوت مانگی۔ 58کروڑ روپے کے کام میں یہ رشوت بنتی ہے ایک کروڑ 16لاکھ روپے۔ ٹھیکیدار نے وزیر اعلیٰ سے شکایت کردی۔ یہ شکایت 21اپریل کو کی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے اس وزیر پر نگرانی بٹھا دی۔ جب کل سنگلا کو بلا کر پوچھ تاچھ کی گئی تو اس نے بھگونت مان کے سامنے رشوت کی بات قبول کرلی۔اکثر رشوت خور سیاستدان ایسی باتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور انہیں کسی بہانے کی بنیاد پر کابینہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ مجھے کئی وزرائے اعلیٰ اوروزرائے اعظم نے کئی بار ایسے ایسے سیاستدانوں کے خفیہ قصے سنائے ہیںلیکن اصلی سوال یہ ہے کہ ملک میں کون سا ایسا رہنما ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اقتدارمیں رہتے ہوئے اس نے کبھی رشوت نہیں لی؟ یہ بات الگ ہے کہ کئی بار لوگ کچھ کام کروانے کیلئے رشوت دینے کو مجبور کرتے ہیں اور کئی بار لوگ رشوت کو نذرانے کے طور پر دیتے رہتے ہیں تاکہ کام پڑنے پر اس رشوت خور کی مدد لی جا سکے۔بھارت کی ہی نہیں ساری دنیا کی سیاست کا کردار ہی ایسا بن گیا ہے کہ رشوت کے بغیر اس کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ کس کس ملک کے صدور اور وزرائے اعظم پرناجائز کاموں کے مقدمے نہیں چلے اور کون کون ہیں جنہوں نے جیل نہیں بھگتی؟وہ خوش قسمت ہیں جو جیل جانے سے بچ گئے۔ تقریباً ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے 'نیتی شتک‘ میں مہاراجہ بھرت ترہری نے لکھا ہے کہ 'سیاست طوائف کی طرح ہے۔ وہ بہوروپ دھارا ہے۔ وہ جم کر خرچ کرتی ہے اور اس میں دولت برستی رہتی ہے‘ اسی لئے سنگلا کی گرفتاری پر مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اسی طرح کے الزامات پر دیگر ریاستوں اور مرکز میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا سارے سیاستدان اورافسر دودھ کے دھلے ہیں؟نیتا لوگ جو رشوت لیتے ہیں اس کا بڑا حصہ اکثر ان کی پارٹی کے کام آ جاتا ہے لیکن ان کی دیکھا دیکھی جو افسر رشوت کھاتے ہیں وہ اسے پوری طرح ہضم کر جاتے ہیں۔ وہ ڈکار بھی نہیں لیتے۔جھاڑ کھنڈ میں ابھی ایسا ہی ایک معاملہ پکڑا گیا ہے۔ افسروں کی رشوت خوری کے کئی معاملے ابھی بھی سامنے آ رہے ہیں لیکن یہ تو پھول پتے بھر ہیں۔ زیادتی کی اصلی جڑ تو سیاستدانوں میں موجود ہے۔ اگر سیاستدان ایماندار ہوں تو کسی افسر کی کیا ہمت کہ وہ رشوت لینے کی خواہش بھی کرے۔ جس نوجوان کو سیاست میں آگے بڑھنا ہے‘ اسے دو ہتھیار اپنانے کی ضرور ت ہے۔ ایک تو خوشامد اور دوسرا رشوت خوری۔ یہ دونوں ہی بہت اعلیٰ معیار کے فنون ہیں ۔
بی جے پی راہل کا شکریہ ادا کرے
راہل گاندھی نے لندن جاکر بھارت کی سیاست‘ سرکار‘ وزارت ِخارجہ وغیرہ کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں وہ نئی نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں بیرون ملک جا کر کیایہ سب بولنا چاہئے؟ بھارت میں رہتے ہوئے وہ سرکار پر تنقید کریں ‘یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ ایسا نہ کریں تو اپوزیشن کا دھندا ہی بند ہو جائے گا۔ بھارت کی اپوزیشن اتنی گھٹیا ہو گئی ہے کہ اس کے پاس مذمت کے علاوہ کوئی دھندا ہی نہیں بچا۔ اس کے پاس نہ کوئی وچار دھارا ہے نہ اصول‘ نہ پالیسی‘ نہ پروگرام‘نہ عوامی مفاد کے کوئی مدعے ہیں۔ اس کے پاس کوئی دکھاوے کا نیتا بھی نہیں ہے۔ جو نیتا ہیں وہ مسخروں کو بھی مات کرتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر لوگ ہنسنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟جیسے راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ بھارت چین سرحدی تنازع روس یوکرین جنگ کی شکل بھی دے سکتا ہے۔ ایسا مضحکہ خیز بیان جو دیدے‘ اسے کچھ خوشا مدی لوگ پھرسے کانگرس جیسی بڑی پارٹی کا صدر بنوادینا چاہتے ہیں۔ جو شخص بھارت کا موازنہ یوکرین سے کرسکتا ہے‘ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے والدین نے اس کی پڑھائی لکھائی پر کتنا دھیان دیا ہوگا۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر نیتا بین الاقوامی سیاست کا ماہر ہو لیکن وہ اگر اخبار بھی دھیان سے پڑھ لے یا وہ نہ پڑھ سکے تو کم از کم ٹی وی دیکھ لیا کرے تو وہ ایسی بے سر و پیر کی بات کہنے سے بچ سکتا ہے۔بھارتی سیاست خاندانی اور اقتدار کی مرکزیت کا شکار ہے‘ اس میں شک نہیں لیکن اس کی مخالفت کرنے کے بجائے راہل نے بھارت کو مختلف صوبوں کا اتحاد بتادیا۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت ایک متحد راشٹر نہیں ہے۔ اس طرح خطے کے دیگر ممالک سے حالات کا موازنہ کرنے کی کیا تُک تھی؟ بھارت میں کوئی سرکار کبھی کسی کے اشاروں پر ناچی ہے ؟یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ بھارت کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر بھارت سرکار کا 100 فیصد قبضہ ہے۔ کیا آج بھارت میں ایمرجنسی (1975-77ء) جیسی صورتِ حال ہے؟ جو صحافی اور اخبار مالک خوشامدی ہیں وہ اپنے مفادات کی وجہ سے ہیں۔ جو غیر جانبدار اور بے خوف ہیں انہیں چھونے کی ہمت کسی کو بھی نہیں۔ بی جے پی سرکار کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ پر گھمنڈی ہونے کا الزام بھی لگایا جاتارہا ہے لیکن یہی الزام توآج کانگرس کی قیادت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کے افسروں پر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ہماری رائے میں تو وہ شائستہ اور منصفانہ رویے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ کچھ بی جے پی رہنماؤں نے راہل کے الزامات کا منہ توڑ جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔وہ تو ضروری تھا لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ بھاجپا اپنی قسمت کو سراہے کہ اسے راہل جیسا اپوزیشن لیڈر مل گیا ہے‘ جس سے اس کو کبھی کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بھاجپا کو اگر کبھی کوئی خطرہ ہوا تو وہ خود سے ہی ہوگا۔ بی جے پی کو چاہئے کہ وہ راہل کا شکریہ ادا کرے اور اس کی پیٹھ تھپتھپائے۔