خبر ہے کہ یکم جون کو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک آل پارٹی میٹنگ بلا رہے ہیں ‘ جو بہار میں ذات پات کی بنا پر مردم شماری کی منصوبہ بندی کرے گی۔ پہلے بھاجپا اس کی مخالفت کررہی تھی اب وہ بھی اس میٹنگ میں شامل ہوگی۔نتیش اس سوال پر دوبار وزیر اعظم نریندر مودی سے مل چکے ہیں۔ جہاں تک مودی کا سوال ہے وہ ذات پات کی بنا پر مردم شماری کے پکے مخالف ہیں۔ جب 2010ء میں ایسی مردم شماری کے خلاف میں نے دہلی میں عوامی مہم شروع کی تو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طورپر مودی نے مجھے کئی بار فون کیا اور ہمارے احتجاج کی کھلی حمایت کا اعلان کیا۔ اس احتجاج میں کانگرس ‘ بھاجپا ‘سماج وادی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے متعدد بڑے رہنما بھی سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔سونیا گاندھی نے نیویارک سے لوٹتے ہی پہل کی اورمیری ذاتی درخواست پر ذات پات کی مردم شماری رکوا دی۔ منموہن سنگھ کی کانگرس سرکار نے ان اعدادو شمار کو شائع بھی نہیں ہونے دیا جو ہمارے احتجاج سے پہلے اکٹھے ہو گئے تھے۔مجھے خوشی ہے کہ نریندر مودی نے بھی اپنے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں اسی پالیسی کو چلائے رکھا۔ اب نتیش جو پہل کررہے ہیں، وہ بہار کے لیے نہیں پورے بھارت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ویسے سیاسی رہنماؤں میں نتیش میرے پسندیدہ ہیں۔ انہوںنے وزیر ریلوے رہتے ہوئے ہندی کے لیے اور بہار میں شراب بندی کے لیے میرے کئی تجاویزپر فوراً عمل کیا ہے‘ لیکن اگر انہوںنے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری بہار میں کروا دی تو یہ بیماری سارے بھارت میں پھیل جائے گی۔کرناٹک اور تامل ناڈو میں اس کی ناکام کوشش ہو چکی ہے‘ اب چھتیس گڑھ ‘ اوڈیشا اور مہاراشٹر کی سرکاریں بھی اسے اپنے یہاں کرواناچاہتی ہیں۔ اگر سبھی صوبوں میں جاتی مردم شماری ہونے لگی تو بھارت کے لیے یہ تباہی کا سبب بنے گی۔ ذات پات فرقہ وارایت سے بھی زیادہ زہریلی ہے۔اس سے بھارت ہزاروںلاکھوں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔پچھلی مردم شماری میں 46لاکھ جاتیوں اوران کی ذیلی شاخوں کا پتا چلا تھا۔ایک ہی صوبے میں ایک ہی ذات پات کے لوگ الگ الگ اضلاع میں اپنے آپ کو اونچ یا نیچ جاتی کا مانتے ہیں۔ اگر ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن اور سہولتیں ملنے لگیں تو کس جاتی کے لوگ اپنے آپ کو پچھڑا یا دلت ثابت نہیں کرناچاہیں گے؟ جاتیہ مردم شماری اجتماعی لوٹ کھسوٹ کا ہتھیار بن جائے گی۔ ویسے ملک کے کچھ رہنما ان اعداد و شمار کا استعمال کرسی پانے اور اسے بچانے کے لیے کرتے ہی ہیں۔ جاتی مردم شماری بھارت کی جمہوریت کو انارکی میں بدل ڈالے گی۔بھارت کے انصاف اور سیاست کے ایوانوں اور بیوروکریسی میں ہی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں قابلیت کی جگہ ذات پات ہی پیمانہ بن جائے گی۔ غریبی دور کرنے کا ٹارگٹ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ آج 80 کروڑ لوگوںکو مفت راشن کیا ذات پات کی بنیاد پر مل رہا ہے؟نہیں! غریبی کی بنیاد پرمل رہا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوئی تو یہ بنیاد ختم ہو جائے گی اورغریبی بڑھے گی۔بھارت کے 70کروڑ سے زائد محروموں کا جاتیہ ریزرویشن نے سب سے زیادہ نقصان کیا ہے۔صرف 5‘ 7 ہزار سرکاری نوکریوں کی ریوڑیاں بانٹ کر ملک کے 80 کروڑ غریبی کی لکیر کے نیچے لوگوںکو نظراندازی کا شکار کیوں بنایا جائے؟ جو لوگ بہتری کا سوچتے ہیں ‘ انہیں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی ڈٹ کر مخالفت کرنی چاہئے۔
امریکہ کا بندوق کلچر
امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں پھر وہی کچھ ہوگیاجو پچھلے 250سال سے اس کے ہر شہر اور محلے میں ہوتا رہا ہے۔ ہر آدمی کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے۔ وہ کب کس پر چلا دے پتا نہیں چلتا۔بندوق کا استعمال خود کشی کے لیے تو اکثر ہوتا ہی ہے لیکن امریکہ میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں سے قتلِ عام کی خبریں نہ آتی ہوں۔ ابھی ٹیکساس میں 18 سال کے ایک نوجوان نے بندوق اٹھا ئی اوراپنی دادی کو مارڈالا۔ پھر وہ ایک سکول میں گیا اور وہاں اس نے دو اساتذہ اور 19 بچوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ 10 روز پہلے ہی نیویارک کے ایک بڑے بازار میں ایک نوجوان نے 10 سیاہ فام لوگوںکو مارڈالا تھا۔ اب سے تقریباً 53‘ 54 سال پہلے جب نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں میںپڑھتا تھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ وہاںبازار میں خریدار ی کرتے ہوئے یا کسی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے بھی لوگ اپنے بیگ میں یا کمر پر چھوٹی موٹی پستول چھپائے رکھتے تھے۔امریکہ میں تقریباً سبھی گھروں میں بندوقیں رکھی ہوتی تھیں۔اس وقت امریکہ کے 33 کروڑ لوگوں کے پاس 40 کروڑ سے بھی زیادہ بندوقیں ہیں یعنی ہر خاندان کے پاس تین‘ چار بندوقیں تو موجود ہوتی ہی ہیں۔ وہ کیوں ہوتی ہیں؟ مجھے میرے اساتذہ نے بتایا کہ بندوقیں رکھنا امریکی ثقافت کا اٹوٹ حصہ شروع ہی سے ہے۔ جب دو‘ ڈھائی سو سال پہلے گورے یورپی امریکہ آنے لگے تو انہیں مقامی ریڈ انڈینز کا مقابلہ کرناہوتاتھا۔ اس کے بعد افریقی سیاہ فام لوگوں کا بڑے پیمانے پر امریکہ آنا ہوا تو اسلحہ پہننے کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ اس میں عام لوگوںکو ہتھیار رکھنے کا مکمل حق دیاگیاتھا۔ وہ حق آج بھی جوں کاتوں قائم ہے۔آج بھی ہر امریکی ریاست میں بیشتر شوٹنگ رینجز موجود ہیں کیونکہ 18سال کی عمر کی حد عبور کرنے کے بعد ہر امریکی شہری کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی پستول یا بندوق کا مالک ہو‘ جس کے لیے ان شوٹنگ رینجز میں تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔اکتوبر 2020میں کی گئی ایک جانچ کے مطابق امریکی نوجوانوں کی آبادی کا 44فیصد حصہ ذاتی بندوق رکھتا ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق آج بھی امریکہ میں روزانہ کی بنیاد پر 53افراد کسی بے نامی گولی کا نشانہ بن کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اپریل 2021کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہائی امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آبادی کی اکثریت کے پاس بندوق یا پستول موجود ہوگی تو اس سے جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوگی حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلحہ تک آسانی سے رسائی ہونے کی وجہ سے امریکی معاشرے میں جرائم میں واضح اضافہ ہوا ہے۔امریکیوں کے بندوق سے لگائو کی وجہ سے 2008 سے 2018 کے درمیان تقریباًنوے لاکھ نئی بندوقیں بنائی اور فروخت کی گئیں جبکہ 2020ء تک اس میں60فیصد کا مزید اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو باعثِ تشویش ہے۔ امریکہ کی سینیٹ یعنی وہاں کی پارلیمنٹ کاایوانِ بالا ‘جو وہاں کے ایوانِ نمائندگان یعنی House of Representatives سے زیادہ طاقتور ہے‘اس آئینی قانون کو کبھی ختم ہونے ہی نہیں دیتا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے بارک اوباما اور اب جو بائیڈن اس کے خلاف ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے۔کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اب بھی پرانی لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی اکڑ کی وجہ سے امریکی شہریوں کی زندگی کتنی خوفناک ہو گئی ہے۔ عالمی سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والا امریکہ اپنے اس پرتشدد رجحان کی وجہ سے پوری دنیا میں کتنا بدنام ہوتارہا ہے۔امریکہ کی بدنامی اس کے سماج کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔عدم تشدد اور امن کی تلقین کرنے والے سماج میں تشدد‘ زیادتی اور زنا کی کثرت کیا اس ریاست کی شبیہ کو داغدار نہیں کر رہی؟