بھارتی پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی نے ایک آرڈر جاری کیا ہے جس کی وجہ سے اب ایم پیز کو صرف اپنی ایک ہی پنشن پر گزارہ کرنا ہو گا۔ ابھی تک ایک ایم پی کو‘ اگر وہ ایم ایل اے بھی رہاہو اور سرکاری ملازم بھی رہا ہو تو‘ تین‘تین پنشز لینے کی سہولت بنی ہوئی تھی۔ ایم پیز کو تین لاکھ 30 ہزار روپے تو ہر مہینے تنخواہ کے طور پر ملتے ہی ہیں‘ انہیں طرح طرح کی اتنی سہولیات بھی ملتی ہیں کہ ان سب کا حساب بازار کے بھاؤ سے جوڑا جائے تو ان پر ہونے والا سرکاری خرچ کم از کم 10 لاکھ روپے فی ماہ بنتا ہے جبکہ بھارت کے تقریباً 100 ملین لوگ 10 ہزار روپے فی ماہ سے کم میں گزارہ کرتے ہیں۔ بھارت کے وہ ایم پیز اور ایم ایل ایز بالکل بیوقوف مانے جائیں گے جو صرف اپنی تنخواہ اور مراعات پر منحصر ہوں گے۔ سیاست میں آنے والا ہر شخص‘ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو اس کے لیے یہ سرکاری تنخواہ اور مراعات تواونٹ کے منہ میں زیرے جیسے ہیں۔ بھارتی سیاست میں شفافیت تبھی ہو سکتی ہے جب بھارتی عوامی نمائندے آچاریہ کوٹلیہ کی سادگی کی پیروی کریں یا یونانی دانشمند ارسطو کے فلسفی خادموں کی طرح رہیں۔ وزیراعظم نے خود کو ''عوام کا خادم اعلیٰ‘‘کہا ہے‘ جو بالکل مناسب ہے لیکن بھارتی سیاستدان حقیقت میں عوام کے بڑے خادم نہیں بڑے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ ان کی لوٹ پاٹ اور ان کی اکڑ ہمارے نوکر شاہوں کیلئے بہت نصیحت دینے والی ہوتی ہے۔ وہ ان سے بھی زیادہ اکڑ باز اور لٹیرے بن کر ٹھاٹ کرتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کو مبارکباد کہ اس نے ابھی ایم پیز کی دُگنی‘تگنی پنشن پرروک لگائی ہے لیکن یہ کام ابھی ادھورا ہے۔ اسے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ ایم پیز کو اپنی تنخواہ اور مراعات خود ہی بڑھانے کے حق کو ختم کرے۔ دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں یہ حق دوسرے اداروںکو دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ذرا یہ بھی سوچا جائے کہ اگر کوئی شخص پانچ سال سے کم وقت تک ایم پی اور ایم ایل اے رہے تو اسے پنشن کیوں دی جائے؟کیا سرکاری ملازمین اور یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو اس طرح پنشن مل جاتی ہے؟ میری اپنی رائے تو یہ ہے کہ ایم پیز اور ایم ایل ایز کو کوئی پنشن نہیں لینی چاہئے۔ اس کے علاوہ اگرمختلف ریاستوں کا حساب کتاب دیکھیں تو وہاںپنشن کے نام پر لوٹ مچی ہوئی ہے۔ کئی ریاستوں میں جو ایم ایل اے کئی بار چنے جاتے ہیں ان کی پرانی پنشن میں نئی پنشن بھی جڑ جاتی ہے۔ پنجاب میں اکالی دَل کے 11بار ایم ایل اے رہے پرکاش سنگھ بادل کو تقریباً 6 لاکھ روپے فی ماہ پنشن ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم ایل ایزکے اور بھی کئی مزے ہیں۔ بھارت کی سات ریاستوں میں ایم اے ایز لوگوں کی آمدنی پر انکم ٹیکس ان کی سرکاریں بھرتی ہے۔ انہیں بھی ایم پیز کی طرح رہائش اورسفر وغیرہ کی کئی مفت سہولیات ملی رہتی ہیں۔ گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں میں راجستھان کے 200ایم ایل ایز کی تنخواہ اور الاؤنس پر 90.79 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جبکہ اس مدت میں ریاست کے سابق ایم ایل اے کے پنشن کی مد میں80.32 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ راجستھان قانون ساز اسمبلی کے 150ارکان کی تنخواہ‘ الاؤنس اور سابق ایم ایل اے کی پنشن کے یہ اعداد وشمار اپریل 2013ء سے ستمبر 2018ء تک کی مدت کے ہیں۔ 2013ء سے 2014ء میں راجستھان کے ایم ایل ایز کی تنخواہ اور الاؤنس پر خرچ کی گئی رقم 12.15 کروڑ روپے کی سطح پر تھی‘جو 2017ء سے 2018ء میں ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر 18.74 کروڑ روپے پر پہنچ گئی۔ بہر حال پانچ سال کی اس مدت میں راجستھان کے سابق ایم ایل اے کو ملنے والی پنشن پر ہونے والی سرکاری ادائیگی تقریباً تین گنا بڑھ گئی۔ راجستھان میں 2013ء سے 2014ء کے دوران سابق ایم ایل اے کی پنشن پر خرچ رقم 7.67 کروڑ روپے تھی جو 2017ء سے 2018ء میں بڑھ کر 22.59 کروڑ روپے پر پہنچ گئی۔ اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ گزشتہ ساڑھے پانچ سال میں مدھیہ پردیش کے ایم ایل اے کو تنخواہ اورالاؤنس پر کل 149 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ یہ بھی جانکاری ملی ہے کہ ریاست میں ہر ایک ایم ایل اے کی کمائی صوبے کی اندازاً فی کس آمدنی کے مقابلے تقریباً 18گنا زیادہ تھی۔ جو سہولیات عوامی خدمت کے لیے ضروری ہیںوہ ضرور دی جائیں لیکن سیاستدانوں کی پنشن‘ موٹی تنخواہ اور غیر ضروری سہولتوں میں اگرکٹوتی کر دی جائے تو کروڑوں‘ اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے جس کا فائدہ پسماندہ‘ غریبوں اورپچھڑوں کو پہنچایا جا سکتا ہے۔ آج کل بھارت کے سیاستدان اپنے اشتہار چھپانے اور دکھانے پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اس پر بھی فوراً پابندی لگنی چاہئے۔
''ریت سمادھی‘‘ کو مبارکباد لیکن...
گیتانجلی شری کے ناول ''ریت سمادھی‘‘ کے انگریزی ترجمہTomb of Sand کو بکر پرائز ملنے پر ناول نگار کو میری طرف سے بھی مبارکباد۔ اصل انگریزی میں لکھے گئے کچھ بھارتی ناولوں کو پہلے بھی یہ اعزاز ملا ہے لیکن کسی بھی بھارتی زبان کے ناول کو ملنے والا یہ پہلا اعزاز ہے۔ تقریباً 50 لاکھ روپے کی یہ اعزازی رقم اس کی مصنفہ گیتانجلی شری اور اس کی امریکی مترجم ڈیزی راک ویل کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی جائے گی۔ اتنی بڑی رقم والا کوئی اعزاز بھارت میں تونہیں ہے‘ اس لئے بھی اس کی اہمیت کافی ہے۔ ویسے ہندی اور دیگر بھارتی زبانوں میں اتنے بہترین ناول لکھے جاتے رہے ہیں کہ وہ دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب سے کم نہیں ہیں لیکن ان کا ترجمہ اپنی زبانوں میں ہی نہیں ہوتا تو غیر ملکی زبانوں میں کیسے ہوگا؟ بھارتی زبانوں میں کل ملاکر جتنی تخلیقات شائع ہوتی ہیں اتنی دنیا کی کسی بھی ملک کی زبان میں نہیں ہوتیں۔ اسی لئے پہلے بھارت میں ایک نیشنل ٹرانسلیشن اکیڈمی قائم کی جانی چاہئے جس کا کام بھارتی زبانوں کی اعلیٰ کتابوں کا ترجمہ شائع کرنا ہو۔ اس طرح کے کچھ قابل ذکر ترجمے کے کام ساہتیہ اکیڈمی‘ گیان پیٹھ اور کچھ علاقائی تنظیمیں کرتی ضرور ہیں۔ اس اکیڈمی کا دوسرا بڑاکام غیر ملکی زبانوں کے بہترین کاموں کو بھارتی زبانوں میں اور بھارتی زبانوں کی تخلیقات کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کرنا ہو۔ یہ کام بھارت کے ثقافتی اتحاد کو مضبوط بنانے میں معاون تو ہو گا ہی دنیا بھر کی ثقافتوں سے بھارت کاتعارف بڑھانے میں بھی یہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ ابھی تو ہم صرف انگریزی سے ہندی اور ہندی سے انگریزی میں ترجمے پر محدود ہیں جو کہ غلط نہیں ہے لیکن یہ بھارت کی غلامانہ روش کا نتیجہ ہے۔ آج بھی بھارتیوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ روس‘ چین‘ فرانس‘ جاپان‘ ایران اور عرب ممالک اور لاطینی امریکہ میں ادبی اور فکری شعبوں میں کون کون سی نئی جہتیں کھل رہی ہیں۔ انگریزی کی غلامی کا یہ برا نتیجہ تو ہے ہی‘ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ انگریزی میں چھپی سادہ تحریروں اور کتابوں کو ہم ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں۔ ہمارے لئے بکر اعزاز اور نوبیل پرائز سے بھی زیادہ قابلِ احترام اور مشہور ہوجاتے ہیں۔ گیتانجلی کا ناول ''ریت سمادھی‘‘ برصغیر کی تقسیم کی ہولناکیوں اور اس سے جڑی ایک ہندو اور مسلمانوں کی امر پریم کتھا پر مرکوز ہے۔ وہ کتاب بھارت کے بہت مشہور اشاعتی ادارے راج کمل نے چھاپی ہے۔ تو وہ بہترین معیار کا تو ہوگا ہی لیکن سارے بھارت کی توجہ اس پر اب اس لئے جائے گی کہ اسے ہمارے سابق آقاؤں (انگریزوں )نے تسلیم کیا ہے۔ یہ خطہ اپنی اس فکری غلامی سے آزاد ہو جائے تو اسے پتا چلے گا کہ اس نے جیسے فلسفی‘ مفکر‘ سیاسی مفکر‘ ادیب اور صحافی پیداکئے ہیں‘ ویسے دنیا کے دیگر خطوں میں ملنے مشکل ہیں۔