مہنگائی اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو بھارت میں انارکی بھی پھیل سکتی ہے۔ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تھوک چیزوں کی قیمتوں میں 15.08 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اتنی مہنگائی بھارت میں 31 سال بعد بڑھی ہے۔ ان تین دہائیوں میں مہنگائی جب تھوڑی سی بھی بڑھتی دکھائی دیتی تھی تو ملک میں شور مچنا شروع ہو جاتا تھا۔ پارلیمنٹ میں شور مچنے لگتا تھا، سڑکوں پر مظاہرے ہو نے لگتے تھے اور سرکاروں کی کھاٹ کھڑی ہونے لگتی تھی لیکن اس سال مہنگائی کو لوگ دو وجوہات سے ابھی تک برداشت کیے ہوئے ہیں۔ ایک توکورونا مہا ماری کی وجہ سے اور دوسرے یوکرین جنگ کی وجہ سے! کورونا مہا ماری نے بھارت کے کروڑوں لوگوں کو لمبے وقت تک بے روزگار کر دیا تھا جبکہ یوکرین جنگ نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ روس جو تیل کا بڑا پیداواری ملک اور ایکسپورٹر تھا، اس کی تجارت پر خاصی زد پڑی، جس سے تیل کی برآمدی پیداوار گھٹ گئی اور قیمتیں بڑھ گئیں۔ جب پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو اس کی وجہ سے بھارت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ خوفناک گرمی کی وجہ سے ساگ، سبزی، پھلوں اور دودھ کی قیمتوں میں بھی اچھال آ گیا۔ پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ درمیانے طبقے کے لوگ بھی حیران اور پریشان ہیں۔ گاؤں کے لوگ تو پھربھی چولہے‘ انگیٹھی سے گزارہ کر سکتے ہیں اورکاروں یا پھٹ پھٹی کے بجائے سائیکل سے اپنا کام نکال سکتے ہیں لیکن شہری لوگ کیا کریں؟ بسوں اور میٹرو کے کرائے تقریباً دُگنے ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کی مصیبتیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اناج، دال، مسالوں جیسی روز مرہ کی چیزیں خریدتے وقت اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ متوسط طبقہ، تنخواہ دار طبقہ اور محنت کش لوگوں کی آمدنی جوں کی توں ہے لیکن ان کا خرچ سوا یا ڈیڑھ گنا ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں کو تو اپنی روزمرہ کی زندگی چلانے کے لیے بینکوں سے اپنی فکسڈ ڈیپازٹ رقم کو نکلوانا پڑ گیا ہے لیکن بھارت کی تیل بیچنے والی کمپنیوں نے اس دور میں بھی اربوں روپے کا منافع کمایا ہے۔ جی ایس ٹی کے ذریعے سرکاروں کو بھی بے مثال آمدنی ہو رہی ہے لیکن سرکار نے عام جنتا کو ادھرکون سی خاص راحت دی ہے؟ بھارت سرکار 80 کروڑ لوگوں میں مفت اناج بانٹنے کا دعویٰ کر رہی ہے، یہ اچھا اقدام ہے، لیکن اس نے اپنے خرچے میں کون سے کٹوتی کی ہے؟ کیا وزیروں، ممبرانِ اسمبلی، قانون سازوں اور کونسلروں کی تنخواہوں، مراعات اور طرح طرح کے خرچوں میں بچت کی ضرورت نہیں ہے؟ اس کے علاوہ اگر تھوک چیزوں کے دام 15 فیصد بڑھے ہیں تو ذرا بازاروں میں جا کر پتا کیجئے کہ ان کے پرچون دام کتنے بڑھے ہیں۔ کئی چیزوں کے دام دُگنے‘ تگنے ہو گئے ہیں۔ انہیں روکنے کے لیے سرکار کیا کر رہی ہے؟ اس مہنگائی نے مالدار لوگوں کو پہلے سے کہیں زیادہ مالدار بنا دیا ہے۔ وہ بے لگام خرچیلی زندگی گزار رہے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ ہمارے نیتا لوگ اپنے خرچے بھی گھٹاتے اور مالدار لوگوں کو کم خرچ میں زندگی چلانے کی ترغیب دیتے۔ منافع خوروں اور ملاوٹ خوروںکے خلاف ضروری سختی بھی کہیںدکھائی نہیں پڑ رہی ہے۔ مہنگائی اگر برداشت کے باہر ہو گئی تو زبردست اکثریت والی بھاجپا سرکار کے ناک میں دم ہو سکتا ہے۔
احتساب صرف کانگرس ہی کا کیوں؟
بھارت کی مرکزی سرکار کے ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) نے کانگرس رہنمائوں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو پیشی کا نوٹس بھیجا ہے۔یہ دونوں رہنما کانگرس کے صدر اور سابق صدر ہیں۔ان کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے وزیر صحت ستیندر جین کو ای ڈی نے حراست میں ڈال رکھا ہے۔لالو پرشاد یادیو اور اوم پرکاش چوٹالہ پہلے ہی سے جیل بھگت رہے ہیں۔جھارکھنڈ کے کچھ افسر بھی کرپشن کے الزام میں جیل بھگت رہے ہیں۔یہ سب لوگ کون ہیں؟یہ سب غیر بھاجپائی افراد ہیں۔یہ سب اپوزیشن پارٹیوں کے صدر یا وزیراعلیٰ یا ان کے حامی افسر رہے ہیں۔ ان میں سے کس کا کتنا قصور یا جرم ہے ‘یہ تو عدالتیں طے کریں گی لیکن کتنے فخر کی بات ہے کہ ان میں سے ایک بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو بھاجپا کا ہو یا حکمران اتحاد سے تعلق رکھتا ہو۔اگر بھاجپا کے سبھی رہنما اور کارکنان سچ مچ ایسے ہوں تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات بھارت کیلئے کیا ہو سکتی ہے۔لیکن کیا ایسا ہی ہے؟یہ کیسے پتا چلے گا؟یا تو وہ حلف لے کر کہیں کہ وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور وہ دعویٰ کریں کہ انہوں نے کبھی رشوت نہیں لی ہے یا انہوں نے کبھی ٹیکس چوری نہیں کی ہے یا پیسوں کی ہیرا پھیری نہیں کی۔ایسا دعویٰ کرتے ہوئے تو ہم نے کسی بھی پارٹی کے ایک بھی رہنما کو نہیں سنا۔ہاں! مخالف رہنماؤں کو سرکاریں ضرور اپنے داؤ میں پھنسا لیتی ہیں۔آج بھاجپا اپنے مخالفین‘ کانگرسیوں، عاپیوں، بسپائیوں اور سماج وادیوں کو اپنے جال میں پھانس رہی ہے تو کل جب اقتدار بدلے گا تو یہ سب مل کر کیا بھاجپائیوں کیلئے لمبا چوڑاجال نہیں بچھا دیں گے؟ کیا اس سے ظلم و زیادتی اور کرپشن کم ہو گی؟ نہیں!بالکل نہیں۔اپنے مخالفین پر چھاپہ مارنے سے پہلے اگر کوئی وزیراعظم اپنے پارٹی رہنمائوں کے گھروں‘ دفتروں پر چھاپے مارنے کا حکم دے تو وہی اصلی صفائی کہلائے گی۔دوسروں کا گھر صاف کرنے سے پہلے اگر اپنا گھر صاف نہ کریں تو لوگ آپ کا مذاق اُڑائے بغیر نہیں رہیں گے۔آپ کی اس صفائی کو لوگ سیاسی بدلے کی کارروائی ہی سمجھیں گے۔عوام میں اس کا ایک دم الٹا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔عوام اُن کے جرم کو نظر انداز کر دے گی اور ان کیلئے ہمدردی کے بادل برس پڑیں گے‘ جیسا کہ چرن سنگھ کے ذریعے اندر گاندھی کی گرفتاری پر برسے تھے۔ کانگرس کے وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مجھ سے ایک بار پوچھا کہ الیکشن جیتنے کا آسان ترین طریقہ بتایئے۔میں نے کہا: تین آسان ترین طریقے ہیں۔ پہلا،ایٹمی ٹیسٹ، دوسرا،دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے اڈوں پر فوجی حملہ اور تیسرا، کرپٹ کانگرسیوں پر سب سے پہلے چھاپے۔ تیسرا طریقہ سن کر وہ ہنسنے لگے۔کیا کبھی بھارت میں کسی پارٹی کی ایسی کوئی سرکار بنے گی جو اپنے رہنماؤں پر سب سے پہلے چھاپے مارے اور انہیں گرفتار کرے؟پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے یہ کر کے دکھایا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بھگونت مان نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک بھارت کا کوئی وزیراعلیٰ اور کوئی وزیراعظم نہیں کر سکا۔ انہوں نے اپنے ہی وزیر صحت وجے سنگلا کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر پولیس سے اُن کے خلاف کیس درج کرنے کی سفارش کی۔ وزیراعلیٰ کو ایک معاملے میں کرپشن کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اس وزیر پر نگرانی بٹھا دی۔ جب وجے سنگلا کو بلا کر پوچھ تاچھ کی گئی تو اس نے بھگونت مان کے سامنے رشوت کی بات قبول کرلی۔اکثر رشوت خور سیاستدان ایسی باتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور انہیں کسی اور بہانے سے کابینہ سے ہٹا دیا جاتا ہے مگر وجے سنگلا کے اعتراف کے بعد بھگونت مان نے انہیں گرفتار کروا دیا۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی سیاستدان کو اس کے اپنے وزیر اعلیٰ نے بدعنوانی کے الزام میں برخاست ہی نہیں کیا بلکہ گرفتار بھی کروا دیا؟ ایک وڈیو پیغام میں بھگونت مان نے بتایا کہ وجے سنگلا نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ پنجاب میں تو عام آدمی پارٹی نے وزیر صحت کو گرفتار کروا دیا لیکن اپنے دہلی کے وزیر صحت کو وہ صدارتی ایوارڈ یعنی پدم بھوشن کے لائق بتا رہی ہے اور کانگرس بھی اپنے دونوں لیڈروں کو نوٹس دیے جانے کے حوالے سے خاصی سیخ پا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گہری جانچ کے بعد یہ لوگ قصوروار ثابت ہو جائیں لیکن پھر بھی یہ سوال باقی رہے گا کہ صرف اپوزیشن کے رہنما ہی کیوں۔