امریکا میں اس وقت تقریباً 45 لاکھ بھارتی شہری رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر شہری اس وقت اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ اگلے کچھ سالوں میں بھارتی نژاد کوئی شخص امریکا کا صدر بھی بن جائے۔ کملا ہیرس ا بھی نائب صدر تو ہیں ہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق‘ اس وقت امریکا میں سب سے خوشحال غیر ملکی نژاد لوگ جو ہیں‘ وہ بھارتی ہی ہیں۔ ویسے اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو گورے لوگ بھی مقامی امریکی نہیں ہیں۔ وہ بھی بھارتیوں اور دوسرے غیر ملکیوں کی طرح‘ چند صدیوں قبل یورپ سے آکر امریکا میں بس گئے تھے۔ ان کی آمد تین‘ چار سو سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ مقامی امریکی‘ جنہیں ریڈ انڈینز کہا جاتا ہے‘ اب امریکا میں بھی شاید ہی کہیں موجود ہوں، جنوبی امریکا کے جنگلوں میں اگرچہ کچھ قبیلے آباد ہیں مگر وہ گورے‘ جنہیں آج ہم امریکی کہتے ہیں‘ وہ امریکی نہیں ہیں۔ کئی صدیوں سے یہاں رہتے رہتے وہ یہ ماننے لگے ہیں کہ وہ گورے لوگ ہی اصل امریکی ہیں۔ باقی سب بھارتی، افریقی، چینی، جاپانی، میکسیکن اور ایشیائی وغیرہ لوگ غیر ملکی ہیں۔ جو ایشیائی لوگ پچھلے سو‘ ڈیڑھ سو سال سے امریکہ میں رہ رہے ہیں‘ وہیں پیدا ہوئے‘ انہیں بھی گورے لوگ اپنی طرح امریکی نہیں مانتے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کئی دہائیوں تک بھارتیوں سمیت دوسرے غیر ملکیوں کا امریکا کے مختلف پیشوں اور شعبوں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنا ناممکن لگتاتھا، لیکن اب امریکا کی بڑی سے بڑی کمپنیوں، لیبارٹریوں، تعلیم اور تحقیقی اداروں اور یہاں تک کہ اس کی فوج میں بھی آپ غیر ملکیوں بالخصوص بھارتیوں کواعلیٰ عہدوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ اب افراد کی قابلیت، کارکردگی اور محنت امریکیوں کو مجبور کردیتی ہے‘ جس کی وجہ سے ان کی تقرری اعلیٰ عہدوں پر کی جاتی ہے۔ بے شمار غیر ملکی افراد ایسے ہیں جن کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر اوسط امریکی بھی حیران رہ جاتا ہے لیکن غیر ملکیوں کی یہ سب خصوصیات امریکی گوروں کے دل میں جلن بھی پیدا کرتی ہیں۔ خوشحالی کے لحاظ سے امریکا میں بھارتی نژاد لوگ سب سے زیادہ امیر طبقے میں آتے ہیں۔ ان کے پاس ایک سے ایک اعلیٰ مکان، قیمتی کاریں اور عیش وآرام کے دیگر سامان عام امریکیوں کے مقابلے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے آج کل بھارتیوں کے خلاف امریکا میں جرائم کی بھرمارہوگئی ہے۔ اس طرح کے جرائم کو امریکا میں ''ہیٹ کرائم‘‘ کہاجاتا ہے۔ ویسے تو سبھی غیر ملکیوں کے خلاف نفرت آمیز جرائم عام ہیں مگر 2020ء کے مقابلے میں 2021ء میں بھارتیوں کے خلاف ایسے جرائم 300 فیصد یعنی تین گنا تک بڑھ گئے ہیں۔ کچھ گورے لوگ بھارتیوں کو دیکھتے ہی ان پر گولی چلادیتے ہیں۔ سڑکوں اور دکانوں پر انہیںدیکھتے ہی گالیاں بکنے لگتے ہیں۔ بھارتیوں کے خلاف بغیر کسی وجہ کے، بغیر کسی اشتعال کے اس طرح کے جرائم اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے دل پہلے سے ہی نفرت سے لبالب بھرے ہوتے ہیں۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں آئے ہیں، انہوں نے ایشیائی، افریقی اور لاطینی لوگوں کے خلاف اس نفرت کو زیادہ مضبوط بنایا ہے۔ ٹرمپ کی اس مشتعل کرنے والی سیاست کا برا نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ امریکا کے کچھ بااثر ٹی وی چینلز اس نفرت انگیز مہم کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ جوں ہی بائیڈن انتظامیہ ویزا وغیرہ میں ذرا سی ڈھیل دیتی ہے‘ ویسے ہی ریپبلکن پارٹی کے کئی نیتا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ امریکہ میں گورے لوگ جلد ہی اقلیت بن جائیں گے اور ان کا جینا حرام ہوجائے گا۔ امریکہ میں کورونا پھیلانے کا الزام بھی کئی ایشیائی اور فارن کمیونٹیز پر لگایا گیا اور غیر ملکی لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔ جو لوگ امریکا میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، کیاانہیں معلوم ہے کہ اگر آج سارے غیر ملکی لوگ امریکا سے باہرنکل آئیں تو امریکا کی ہوا کھسک جائے گی۔ اس وقت امریکا کی 33 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں پونے پانچ کروڑ سے زائد افراد غیر ملکی ہیں، یہ لوگ نہ صرف امریکا کی خوشحالی بڑھارہے ہیں بلکہ اسے بہترین طرزِ زندگی سے بھی مزین کررہے ہیں۔
سیاست سیوا نہیں میوہ ہے
بھارت کے اَپر ہائوس یعنی راجیہ سبھا کے چنائو میں اسمبلیوں کے ودھائیک (قانون ساز)ہی اَن داتا ہوتے ہیں۔ عام چنائو میں عوام کو اپنی طرف پھسلانے کیلئے سبھی پارٹیاں طرح طرح کی پھسل پٹیاں لگاتی اور نت نئے حربے اپناتی ہیں لیکن ودھائیکوںکے ساتھ الٹا ہوتا ہے۔ ان کی اپنی سیاسی پارٹی ان کو پھسلنے سے روکنے کیلئے ایک سے ایک عجیب طریقے اپناتی ہے۔ اس وقت کانگرس، شو سینا، بھاجپا اور پنوار‘سب جماعتیں اپنے ممبران کو دوسری جانب جانے سے روکنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ کانگرس نے اپنے ممبران کا اغوا کرلیا ہے اور انہیں دلہنوںکی طرح چھپا کر رکھ دیا ہے۔ سبھی پارٹیاں اپنے ممبران سے ڈری ڈری رہتی ہیں۔ انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر ان کے تھوڑے سے ممبران بھی اپوزیشن کے امیدوار کی طرف کھسک گئے تو ان کا امیدوار ہار جائے گا۔ کئی امیدوار تو صرف 2‘ 4ووٹوںکے فرق سے ہی ہارتے اورجیتتے ہیں۔ ودھائیکوں کو پھسلانے کیلئے نوٹوں کے بنڈل، وزارت کا لالچ اور اپنی پارٹی میں اعلیٰ عہدے وغیرہ کی چوسنیاں لٹکا دی جاتی ہیں۔ اگر راجیہ سبھا کی ممبر شپ کی یہ ووٹنگ پوری طرح دَل بدل مخالف قانون (یعنی آپ اپنی مخالف جماعت کو ووٹ نہیں دے سکتے) کے تحت ہو جائے تو ایسے ممبرانِ پارلیمنٹ کے ہوش گم کردے۔ پرائے دھڑے کے امیدوار کو ووٹ دینے والے ایم پی (ممبر پارلیمنٹ) کی اسمبلی رکنیت تو چھنے گی ہی‘ اس کی بدنامی بھی ہوگی۔ کئی ملکوں بشمول پڑوسی دیش پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں مگر بھارت میں اب تک ایسا کوئی اہتمام نہیں بنا۔ حالانکہ یہ قانون سبھی پارٹیوں کی اولین ضرورت ہے مگر یہ پارٹیاں چونکہ اس قانون کے نہ ہونے کا فائدہ بھی خود ہی اٹھاتی ہیں، اس لیے ایسی قانون سازی سے بھاگتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ یہ سجھائو آیا مگر ہر بار اسے مسترد کر دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اب سبھی پارٹیاں اپنے ممبران کو اپنی ریاستوں کے باہر کسی ہوٹل یا ریزورٹ میں تنہائی میں رکھتی ہیں۔ ان سے ملنا جلنا منع ہوتا ہے۔ ان کے موبائل فون بھی عارضی طور پر ضبط کر لیے جاتے ہیں۔ ہوٹلوں اور ریزورٹس میں ان کے کھانے پینے، کھیلنے‘ کودنے اورموج مستی کا پورا انتظام رہتا ہے۔ ان پر لاکھوں روپے روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔ کوئی ان پارٹیوں سے پوچھے کہ جتنے دن یہ ممبران آپ کی قید میں رہتے ہیں‘ اپنے قانون ساز ہونے کے کون سے فرض کو پورا کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ تقریباً تمام پارٹیاں آج کل یہی اہتمام کیوں برتتی ہیں؟ اس کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس کا ایک ہی مقصد ہے‘ وہ یہ کہ آج کی سیاست سیوا کیلئے نہیں ہے‘ یہ میوہ کیلئے ہے۔ جدھر میوہ ملے، بھارتی نیتا ادھر ہی پھسلنے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ موجودہ سیاست میں نہ کسی اصول کی اہمیت ہے، نہ نظریے کی، نہ سوچ و فکر کی۔ سیاست میں جھوٹ، سچ، مذمت، تعریف، بے پناہ آمدنی، بے حساب خرچ، چاپلوسی اور تلخ مذمت‘ یہ سب اس طرح چلتے ہیں جیسے کہ وہ کوئی دھندہ کرتے ہوں۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے راجہ بھیتر ہری نے '' نیتی تک‘‘ میں یہ جو شلوک لکھاتھا‘ وہ آج بھی سچ معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ سب انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، سیاست میںسرگرم کئی لوگ آج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن ذرا پتا کیجئے کہ کیا وہ کبھی ٹاپ تک پہنچ سکے ہیں۔ جو لوگ اپنے تگڑموں میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیوا ہی ان کا دھرم ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم بیٹھ کرنہاتے ہیں یا کھڑے ہوکر؟ بھاجپا میں رہیں یا کانگرس میں جائیں‘ ایک ہی بات ہے، ہمیں تو جنتا کی سیوا کرنی ہے۔ ایسے لوگ میوے کو چبائے بغیر ہی نگل لیتے ہیں اور عوام بھی ہر بار ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ یہی لوگ سیاست میں کامیاب بھی ہیں اور وزیر، منتری، ودھائیک اور ایم ایل اے بھی یہی بنتے ہیں۔ جو اپنے آدرشوں، اصولوں اور نظریات کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں، وہ کتابوں اور لائبریریوں میں تو جچتے ہیں مگر ہماری موجودہ سیاست میں ان کی کوئی قدر نہیں ہے۔