اقوامِ متحدہ میں اب بھی دنیا کی صرف چھ زبانیں سرکاری طور سے تسلیم شدہ ہیں: انگریزی‘ عربی ‘فرانسیسی‘ چینی‘ روسی اور ہسپانوی! ہماری رائے میں ان زبانوں میں سے کئی ایسی ہیں جو بولنے والوں کی تعداد‘ رسم الخط‘ گرامر‘ تلفظ اور الفاظ کی تعداد کے لحاظ سے ہندی کا مقابلہ نہیں کر تیں۔ اس موضوع کی مفصل تشریح میری کتاب 'ہندی عالمی زبان کیسے بن سکتی ہے‘ میں مَیں نے کی ہے۔ یہاں تو میں اتنا ہی بتانا چاہتا ہوں کہ ہندی کے ساتھ بھارت میں ہی نہیں بلکہ عالمی فورموں پر بھی بہت بے انصافی ہو رہی ہے لیکن ایک چھوٹی سے اچھی خبر ابھی ابھی آئی ہے کہ 193 رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثیر لسانی تجویز پیش کی گئی ہے اور بھارت سمیت 80 سے زائد ممالک نے اس تجویز کی توثیق کی ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ میں کثیر لسانی تجویز کو حقیقی روح کے ساتھ اپنایا جائے اور بھارت اس مقصد کو حاصل کرنے میں اقوام متحدہ کی حمایت کرے گا۔مسٹر تریمورتی نے اس بات پر زور دیا کہ کثیر لسانی تجویز کو اقوام متحدہ کی بنیادی اقدار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کثیر لسانی تجویز کو ترجیح دینے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے تمام ضروری امور میں اب مذکورہ چھ سرکاری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو‘ ہندی اور بنگلہ کے استعمال کو بھی منظور کر لیا ہے۔ یہ تینوں برصغیر کی بڑی زبانیں ہیں۔یقینا اس پر پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی خاص طور پر خوشی ہوئی ہو گی کیونکہ اردو اور بنگلہ ان ممالک کی قومی زبانیں ہیں۔ یہ خبر اچھی ہے لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ اقوامِ متحدہ کے کن کن امور کو ''ضروری‘‘ مان کر ان میں ان تینوں زبانوں کا استعمال ہوگا۔ کیا اقوام متحدہ کے تمام فورموں پر ہونے والی تقریروں‘ ان کی رپورٹوں‘ سبھی قراردادوں‘ سبھی دستاویزات‘ سبھی کارروائیوں وغیرہ کا ترجمہ ان تینوں زبانوں میں ہو گا؟ کیا ان تینوں زبانوں میں تقاریر کرنے اور دستاویز پیش کرنے کی اجازت ہوگی؟ ایسا ہونا مجھے مشکل لگ رہا ہے‘ لیکن آہستہ آہستہ وہ دن بھی آ ہی جائے گا جب اردو‘ ہندی اور بنگلہ اقوام متحدہ کی سرکاری زبانیں بن جائیں گی۔مگرہندی کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی نوکرانی بنی ہوئی ہے تو اسے نیویارک میں مہارانی کون بنائے گا؟ ہم آزادی کا 75 واں سال منا رہے ہیں اور ہندی بھارت میں ادھمری (آدھی مری ہوئی ) پڑی ہے۔ قانون سازی‘ اعلیٰ تحقیق‘ سائنس مضمون کا مطالعہ اور دیگر علوم میں ابھی تک اس زبان کو اس کا صحیح مقام نہیں ملا۔ جب 1975ء میں پہلی عالمی ہندی کانفرنس ناگپورمیں ہوئی تب بھی میںنے یہ مدعا اٹھایاتھا اور 2003ء میں سورینام کی عالمی ہندی کانفرنس میں میں نے ہندی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بنانے کی قرار داد پاس کروائی تھی۔ 1999ء میں بھارتی نمائندہ ہونے کے ناتے میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر ہندی میں کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے اجازت نہیں ملی۔ صرف اٹل جی اور نریندر مودی کو اجازت ملی تھی اور اس کے لیے بھی بھارتی سرکار کو کئی پاپڑ بیلنا پڑے تھے۔ اُس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھرپور کوشش کی کہ ہندی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان کا درجہ ملے لیکن کوئی مجھے یہ بتائے کہ کتنے بھارتی رہنما اور افسر وہاں جا کر ہندی میں اپنا کام کاج کرتے ہیں؟جب دیش میں سرکار کا سارا اہم کام کاج (ووٹ مانگنے کے علاوہ) انگریزی میں ہوتا ہے تو دنیا میں وہ اپنا کام ہندی میں کیسے کرے گی؟ انگریزی کی اس غلامی کی وجہ سے بھارت دنیا کی دیگر خوشحال زبانوں کا بھی فائدہ لینے سے خود کو محروم رکھتا ہے۔ دیکھیں شاید اقوام متحدہ کی یہ پہل بھارت کو اپنی بھاشائی غلامی سے آزاد کروانے میں کچھ مددگار ثابت ہوجائے۔
مودی کے آٹھ سال
پچھلے 75 سال میں بھارت کے 14 وزرائے اعظم آئے ان میں سے پانچ کانگرسی تھے اور نوغیر کانگرسی۔ ان غیر کانگرسی وزرائے اعظم میں اگر سب سے طویل مدت کسی کو ابھی تک حکومت ملی ہے تو وہ نریندر مودی کو ہی ملی ہے۔انہوںنے آٹھ سال پورے کرلیے ہیں اور بقیہ معیاد پوری کرنے میں بھی کوئی خدشہ نہیں ہے۔ یہ بھی ناممکن نہیں کہ وہ مسلسل تیسری مدت بھی پوری کرڈالیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جواہر لال نہرو کے بعد ایسے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہوں گے جو مسلسل طویل ترین مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہا۔ بھارتی جمہوریت کی یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمارے اس خطے میں لمبی مدت تک وزیر اعظم رہنے کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں‘لیکن بنیادی سوال یا اہم ترین سوال یہ نہیں کہ آپ کتنے سال تک گدی پر بیٹھے رہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی قوم کی بہتری کے لیے بنیادی کام کئے یا نہیں؟ آپ نے کیا ایسے کام بھی کئے ہیں جنہیں تاریخ یاد رکھے گی؟ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگانے کی خوفناک غلطی کی تھی لیکن انہیں یاد کیاجائے گا جوہری تجربات‘ سکم کے ادغام اورپنجاب پر جس طرح انہوں نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور اس دوران جو ظالمانہ کارروائیاں ہوئیں ‘ ان کارروائیوں کے حوالے سے! اندرا گاندھی کا غریبی ہٹاؤ کا نعرہ صرف چناؤ جیتنے کا ہتھکنڈا بن کر رہ گیا لیکن ان کا طریقہ کار کچھ ایسا رہا کہ بھارت کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ان کی دیکھا دیکھی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔اب کیا نریندر مودی اس روش کو بدل پائیں گے یا اور زیادہ مضبوط کر کے چھوڑ جائیں گے؟ اس روش پر چل کر پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کی قربانی تو ہوتی ہی ہے قومی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بھارت کی اقتصادی ترقی بھی تمام وزرائے اعظم کے دور میں لنگڑاتی رہی ہے۔ جوچین اب سے 50 سال پہلے بھارت سے پیچھے تھا اس کی معاشی طاقت بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ کہاں وہ اورہم کہاں۔کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ پچھلے آٹھ سال میں مودی سرکار نے عام آدمیوں کو راحت دینے کے نام پر جو کام کئے ہیں ان سب کو یہاں شمار کرنا ممکن نہیں لیکن یہ تو عارضی سہولیات ہیں‘ لیکن ملک میں یکساں ضابطہ اخلاق کی تشکیل‘ ذات پات کا خاتمہ اور انگریزی کے غلبہ کو کم کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اصلی سوال یہ ہے کہ تعلیم‘ ادویات اور روزگار کے معاملے میں کیا کوئی بنیادی کام پچھلے آٹھ برسوں میں ہوا ہے؟ نوکر شاہوں کے دم پر آپ راحت کی سیاست توکر سکتے ہیں لیکن انقلابی تبدیلیوں کے لیے آپ کے پاس اپنا اصل وژن بھی ہونا چا ہئے۔ بصارت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ شائستگی سے بات کرنے کا ڈھنگ بھی آپ کے پاس ہونا چا ہئے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی بھارت کئی بنیادی قدم اٹھا سکتا تھا لیکن نہ توابھی تک وہ ہمسایہ ممالک کی تنظیم سارک کے راستے کی رکاوٹیں دور کر سکی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسا عظیم وژن ہے جس کی وجہ سے وہ اس خطے کے ممالک کی کوئی یونین تشکیل دے سکے۔ سپر پاورز سے اس کے تعلقات اگرچہ متوازن ہیں لیکن بھارت خود کیسے ایک پاور بنے‘ اس سمت میں کوئی ٹھوس کوشش نظر نہیں آتی۔