مودی سرکار نے جو نئی ''اگنی پتھ یوجنا‘‘ کا اعلان کیا ہے، اس کے خلاف پورے بھارت میں عوامی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ یہ تحریک روزگار کے متلاشی نوجوانوں کی ہے۔ یہ کسانوں اور مسلمانوں کی تحریک سے الگ ہے۔ وہ تحریک بھارت کے مخصوص علاقوں اور عوام کے کچھ طبقوں تک ہی محدود تھی۔ یہ تحریک ذات، مذہب، زبان اور کاروبار سے اوپر اٹھ کر ہے۔ اس میں تمام ذاتوں، مذاہب، زبانوں، خطوں اور پیشوں کے نوجوان شامل ہیں۔ ان کے پاس کوئی طے شدہ لیڈر بھی نہیں ہے، جسے سمجھا بجھا کر خاموش کرایا جا سکے۔ یہ تحریک بے ساختہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بے ساختہ تحریک کے بھڑکنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس کے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اگنی پتھ یوجنا سرکار کا ایک منصوبہ جس کا مقصد فوج کے اہل کاروں کی اوسط عمر‘ جو اس وقت 32 برس ہے‘ کو کم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے سرکار اگلے چار برس میں اہل کاروں کی اوسط عمر 26 برس تک لانے کی کوشش کرے گی۔ اس منصوبے کا اعلان بھاجپا کی مرکزی حکومت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کیا ہے۔ ان کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا تھا کہ نوجوانوں کو چار سال کے لیے فوج میں بھرتی کیا جائے گا اور مدت پوری ہونے پر ان نوجوانوں کو باقاعدہ پنشن بھی دی جائے گی جو لگ بھگ 12 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔ 'اگنی پتھ‘ کا مطلب آگ کا راستہ ہے جبکہ یوجنا صلاح یا منصوبے کو کہا جاتا ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق اس منصوبے کے تحت فوج میں شامل ہونے والوں کو 'اگنی ویر‘ یعنی 'آگ کے راستے پر چلنے والے نوجوان‘ کہا جائے گا۔4 سال بعد 75 فیصد نوجوان ریٹائر ہو جائیں گے اور 25 فیصد فوج میں ترقی پا جائیں گے۔ نوجوانوں کے احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ 75 فیصد بھرتی شدہ افراد کو اگر 4 سال بعد ہٹا دیا گیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ نہ تو نئی نوکری انہیں آسانی سے ملے گی اور نہ ہی انہیں پنشن وغیرہ ملنے والی ہے۔نوجوانوں کے احتجاج کی وجہ سے ریلیں رک گئی ہیں۔ سڑکیں بند ہو گئی ہیں اور جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ بہت سے نوجوان زخمی اور گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ایک جوان نے خود کشی بھی کر لی ہے۔ یہ تحریک پچھلی تمام تحریکوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس تحریک میں شامل زیادہ تر وہی نوجوان ہیں جن کے رشتہ دار، دوست یا پڑوسی پہلے سے بھارتی فوج میں ہیں۔ اس تحریک سے وہ فوجی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سرکار نے اس اگنی پتھ یوجنا کو تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لیے بھرتی کی عمر کو تھوڑا بڑھا دیا ہے۔ پہلے یہ عمر ساڑھے 17 سے 21 سال تک رکھی گئی تھی مگر اب اس کو بڑھا کر 23 سال تک کر دیا گیا ہے۔ یہ راحت ضرور ہے لیکن اس کا ضمنی اثر یہ بھی ہے کہ چار سال بعد یعنی 27 سال کی عمر میں بے روزگار ہونا پہلے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوج سے 4 سال بعد ہٹنے والے 75 فیصد نوجوانوں کو سرکار تقریباً 12 لاکھ روپے دینے کا اعلان کر رہی ہے جس سے کوئی کام دھندا شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرکاری نوکریوں میں بھی انہیں ترجیح ملے گی۔ بھارت بھر میں ہو رہے مشتعل اور پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی رہائش گاہ پر تینوں افواج کے سربراہوں کی موجودگی میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس کے بعد فوجی امور کے محکمے کے آڈیشنل سیکرٹری اور تینوں افواج کے سینئر افسروں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یوجنا دوسرے ملکوں میں جاری مختلف ماڈلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد لائی گئی ہے اور بھارت میں اس طرح کی یوجنا کے بارے میں سب سے پہلے 1989ء میں بات چیت شروع ہوئی تھی اور اس میں اب جا کر کامیابی ملی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل پوری کا کہنا تھا کہ اگنی پتھ یوجنا کو واپس نہیں لیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ یوجنا کے تحت بھرتی ہونے والے اگنی ویروں کو درخواست جمع کرانے کے ساتھ یہ حلف بھی لینا ہوگا کہ وہ کسی بھی پُرتشدد تحریک میں شامل نہیں رہا۔ بہار، یوپی اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں‘ جہاں نوجوانوں نے عوامی املاک بالخصوص ٹرینوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے‘ اب ان مظاہروں کی تپش ممبئی میں بھی پہنچ گئی ہے۔ شمالی بھارت میں شدید مظاہروں کے پیش نظر ممبئی میں ایک درجن سے زیادہ ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اس سارے جھمیلے میں اصلی سوال یہ ہے کہ مودی سرکار نے اس معاملے میں بھی کیا وہی غلطی نہیں کر دی جو وہ پچھلے 8 سال میں ایک کے بعد ایک کرتی جا رہی ہے؟ 2014ء میں سرکار بنتے ہی اس نے زمین گرہن آرڈیننس جاری کیا، پھر اچانک نوٹ بندی کا اعلان کر دیا، اس کے بعد نئے زرعی قوانین بنا دیے، پڑوسی ملکوں کے معاملے میں بھی وہ کئی بار غچہ کھا گئی۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ نوکرشاہوں کی رہنمائی پر ایک اچھا اور مثبت قدم اٹھانے کی ہمت تو کرتی ہے لیکن اس کے فیصلوں کا جن پر اصلی اثر ہونا ہوتا ہے‘ انہیں وہ بالکل بھی گھاس نہیں ڈالتی۔ وہ یہ بھول رہی ہے کہ یہ جمہوریت کی سرکار ہے، کسی شہنشاہ کی سلطنت نہیں کہ بادشاہ نے جو کچھ ہانک لگائی تو سارے درباریوں نے کہہ دیا: جی حضور!۔
مغربی ایشیا میں نیا اتحاد
امریکی صدر جوبائیڈن اگلے ماہ سعودی عرب کے دورے پر جا رہے ہیں۔ اس دوران وہ اسرائیل اور فلسطین بھی جائیں گے لیکن ان یاترائوں سے بھی ایک بڑی چیز جو وہاں ہونے جا رہی ہے وہ ہے ایک نئے چوگٹے (اتحاد) کی دھماکے دار شروعات۔ اس نئے چوگٹے میں امریکا، بھارت، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہوںگے۔ انڈین پیسفک ریجن میں جو چوگٹا چل رہا ہے اس کے ممبران ہیں امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا۔ پرانے اور نئے چوگٹے میں فرق یہ ہے کہ پرانے کو چین مخالف گٹھ بندھن مانا جاتا ہے جبکہ اس مغربی ایشیا سیکٹر میں چین جیسا کوئی ملک نہیں ہے جس سے امریکا دشمنی محسوس کرتا ہو۔ اس کے علاوہ اس چوگٹے کے تین ممبران کا آپس میں خصوصی تعلق بن چکا ہے۔ بھارت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان آزاد کاروباری سمجھوتا ہے اور ایسا ہی سمجھوتا اسرائیل اور یو اے ای کے مابین بھی ہو چکا ہے۔ یہ سمجھوتے بتاتے ہیں کہ پچھلے 25‘ 30 سال میں دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ اسرائیل جیسی یہودی ریاست اور بھارت جیسی پاکستان مخالف ریاست کے ساتھ ایک مسلم ریاست کے تعلقات کا اتنا گہرا ہونا بین الاقوامی سیاست میں ہو رہی بنیادی تبدیلیوں کی علامت ہے۔ امریکا کے صدر کا اسرائیل اور فلسطین ایک ساتھ جانا بھی اپنے آپ میں بے حد خاص ہے۔ یوں تو مغربی ایشیا کے اس نئے چوگٹے کی شروعات پچھلے سال اس کے فارن منسٹرز کی میٹنگ سے شروع ہو گئی تھی لیکن اب اس کا رسمی آغاز کافی دھوم دھام سے ہو گا۔ وسط جولائی میں ان چاروں ممالک کے اعلیٰ حکام اس کانفرنس میں حصہ لیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ نیٹو، سینٹو یا سیٹو کی طرح کوئی فوجی گٹھ بندھن نہیں ہے۔ انڈین پیسفک ریجن میں چین کی موجودگی کو فوجی ارادوں سے جوڑا جا سکتا ہے لیکن مغربی ایشیا میں اس طرح کی کوئی چنوتی نہیں ہے۔ ایران سے ایٹمی مدعے پر اختلافات اب بھی ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی فوجی گٹھ بندھن کھڑا کرنے کی ضرورت امریکا کو نہیں۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے‘ وہ کسی بھی فوجی تنظیم کا ممبر نہ کبھی بنا ہے اور نہ کبھی بنے گا۔ انڈین پیسفک ریجن کے چوگٹے میں بھی اس کا رویہ چین یا روس مخالف نہیں۔ بھارت اس معاملے میں بہت احتیاط برت رہا ہے‘ وہ ان چوگٹوں میں سرگرم ضرور ہے لیکن وہ کسی سپر پاور کا دم چھلا بننے کیلئے تیار نہیں۔ اس وقت بھارت شنگھائی تعاون تنظیم اور آسیان ممالک کی میٹنگیں بھی منعقد کر رہا ہے۔ ان سب کا ٹارگٹ یہی ہے کہ آپس کے معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان تمام تنظیموں میں سبھی علاقائی ممالک شامل ہوتے۔