بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روزگار کے بارے میں جو اعلانات کیے ہیں، اگر انہیں حقیقت میں عملی جامہ پہنایاجاسکے تو لوگوں کو کافی راحت ملے گی۔ نریندر مودی نے کہا ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال میں 10لاکھ لوگوں کو سرکاری نوکریاں ملیں گی اور راج ناتھ سنگھ نے توبھارتی فوج میں بھرتی اور سیواؤں کے اصول ہی بدل دیے ہیں۔ اس وقت بھارت بھر میں کروڑوں لوگ مکمل طور پر بے روزگار ہیں اور ان سے بھی زیادہ لوگ آدھے روزگار سے محروم ہیں‘ یعنی انہیں پورے وقت کوئی کام ملتا ہی نہیں۔ اگر 10 لاکھ کو روزگار مل جائے تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی ہوگا۔ سرکار کا وژن اپنی نوکریوں تک ہی محدود ہے۔ مرکزی سرکار کے پاس 40 لاکھ عہدے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 9 لاکھ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اس کا فرض کیا اتنا ہی ہے کہ وہ انہیں بھردے ؟ وہ تو ہے ہی! اس سے الگ‘ نئے غیر سرکاری روزگار پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ سرکاری نوکروں کو تنخواہ، مراعات اور پنشن وغیرہ تو پوری پوری ملتی رہتی ہیں لیکن وہ اپنا کتنا کام کرتے ہیں اس پر سخت نگرانی کا کوئی طریقہ ہمارے یہاںنہیں ہے۔ جبکہ چین میں مَیں نے کئی بار دیکھا کہ سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیاں اپنے ملازمین سے ڈٹ کر کام لیتی ہیں، اسی لیے بھارت سے بعد میں آزاد ہونے والا چین آج بھارت سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ سرکاری نوکریوں کی تعداد ضرور بڑھے لیکن ان کی بھرتی کا معیار کافی سخت ہونا چاہئے اور ہر 5سال میں ان کا جائزہ بھی لیاجانا چاہئے۔ جو بھی نااہل پایا جائے‘ اس ملازم کو چھٹی دی جانی چاہئے۔ فوج میں نوکریوں کے نئے اصول بنانے کیلئے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن کچھ تجربہ کار افسروں نے تشویش بھی ظاہر کی ہے۔ اس سال 46 ہزار نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔ ان کی عمر 17.5 سے 21سال تک ہوں گی۔ (اب سرکار نے نوجوانوں کے احتجاج پر عمر کی حد بڑھا کر 23 سال تک کر دی ہے) سبھی جوانوں کو 4سال تک فوج میں رہنا ہوگا۔ 4سال بعد صرف 25 فیصد وہی جوان رہ پائیںگے جو بہت قابل پائے جائیںگے بقیہ 75فیصد جوانوں کو ریٹائر کردیاجائے گا۔ بعد ازاں انہیں پنشن نہیں ملے گی لیکن نوکری چھوڑتے وقت 11لاکھ 71 ہزار روپے یعنی لگ بھگ 12لاکھ روپے ملیں گے جن سے وہ کوئی بھی نیا کام شروع کر سکیں گے۔ انہیںسرکار مختلف سرکاری شعبوں میں آنے والی اسامیوں میں ترجیح بھی دیتی رہے گی۔ اس نئے اہتمام پر ایک ردعمل یہ بھی ہے کہ صرف 4 سال کی نوکری کے لیے کون آگے آئے گا؟ اس چار سالہ تجربے کا فائدہ دیگر نوکریوں میں کچھ کام دے گا یا نہیں؟ یہ سوال تو جائز ہیں لیکن اس پہل کے کئی فائدے ہیں۔ ایک تو فوج میں نوجوانوں کی تعداد بڑھے گی اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ سرکار کا پیسہ جو طویل مدتی تنخواہوں اور پنشنوں پر خرچ ہوتا ہے‘ وہ بچے گا۔ اس کے علاوہ نئی فوجی تکنیکوں کی وجہ سے ویسے بھی سارے ملک اپنے فوجیوں کی تعداد کوکم کر رہے ہیں۔ چین نے اپنی فوج کو 45لاکھ سے گھٹا کر 20 لاکھ تک کر دیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل میں بھی فوجیوں کی مدتِ ملازمت کو کافی کم کر دیا گیا ہے۔ اب بھارتی فوج میںجو بھرتیاں ہوںگی، انگریز کی بنائی جاتیہ رجمنٹوں میں نہیں ہوں گی‘ یہ بھی ایک بڑا سدھار ہے۔ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس سے بھارتی فوج کی اوسط عمر‘ جو اس وقت تیس سال سے اوپر ہے‘ کم ہو جائے گی۔ یقینا دفاع اور جنگ جیسے امور نوجوانوں کو سرزد دینے ہیں اور دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس میں فوج کی اوسط عمر تیس سے اوپر ہو‘ اس لیے بظاہر مجھے یہ منصوبہ بھاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ ایک نئی شروعات ثابت ہو گا۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں بالخصوص یورپ کے‘ جہاں تنخواہ پانے والوں سے زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو پنشن پر گزارہ کر رہے ہیں، اسی وجہ سے مختلف سرکاروں نے کام کاج کی اوسط عمر یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے کئی ممالک میں ساٹھ یا پینسٹھ کی عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ جاتے تھے‘ جس کے بعد اگر وہ اسی‘ پچاسی یا نوے سال تک جیتے تو بیس‘ پچیس سال تک بیٹھ کر آرام سے پنشن کھاتے رہتے۔ کئی لوگ تو ایسے بھی رہے ہوں گے جنہوں نے جتنی نوکری کی‘ لگ بھگ اتنے سال ہی بعد میں پنشن وصول کی۔ اب دنیا بھر میں یہ طریقہ کار تبدیل ہو رہا ہے اور اب ایسے منصوبے آ رہے ہیں کہ نوکری کے اختتام پر جو کچھ بھی کسی کا بنتا ہے‘ وہ اسے دے دیا جائے تاکہ پنشن کا بوجھ بعد میں نہ اٹھانا پڑے۔
یہ احتجاجی تحریک کا مدعا ہے کیا ؟
کانگرس آج کل سیاسی پارٹی کے بجائے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنتی جا رہی ہے،اس کا تازہ ثبوت پھر سامنے آ رہا ہے۔ نیشنل ہیرالڈ کی تحقیقات کے معاملے میں سونیا گاندھی اور راہل کو احتساب کے محکمے ای ڈی کے سامنے جانچ کے لیے پیش ہونا پڑرہاہے۔ ہوسکتا ہے کہ جانچ میں دونوں بالکل کھرے اتریں۔ ویسے ملک میں مجھے تو ایک بھی نیتا ایسا دکھائی نہیں پڑتا جو کہ دودھ کا دھلا ہو۔ بھارت جیسے دیش میں کوئی نہ کوئی دھاندلی،ٹھگی،رشوت یا دادا گیری کا داؤ مارے بغیر کوئی بھی نیتا اپنی دکان کیسے چلا سکتا ہے؟ پھر بھی ہم یہ مان کر چل سکتے ہیں کہ راہل اور سونیا بالکل بے داغ نکلیں گے، تو بھی اصلی سوال یہ ہے کہ کسی جانچ ایجنسی کے سامنے پیش ہونے میں انہیں اعتراض کیوں ہونا چاہئے۔ اگر قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے تووہ ان پر بھی نافذ کیوں نہ ہو؟ وہ اپنے آپ کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں کیا؟ اگر وہ بے قصور ہیں تو کوئی جانچ ایجنسی اقتدار میں بیٹھے نیتاؤں کی کتنی ہی غلام ہو‘ انہیں کسی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بھارت کے انصاف کے ایوان آج بھی بے خوف اور آزاد ہیں۔ وہ ان کے احترام کی حفاظت ضرور کریں گے لیکن اس جانچ کولے کر پوری کانگرس جس طرح سے سڑک پر اتر آئی ہے‘ وہ اپنا مذاق بنوا رہی ہے۔ اس سے کئی باتیں ثابت ہورہی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کانگرس اپنے صرف دو نیتاؤں یعنی ماں اوربیٹے کو بچانے کے لیے جس طرح احتجاج پر اتر آئی ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس کے پاس مفادِ عامہ کا اور کوئی مدعا ہے ہی نہیں۔ اپنے نیتاؤں کو بچانا ہی اس کے لیے سب سے بڑا دردِ سر ہے۔ دوسرا‘ اس نے احتجاجی تحریک کی راہ اپنا کر بھاجپا سرکار کے تئیں عوام کو جو شکایات ہوسکتی تھیں‘ ان پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ذرا یاد کریں کہ چرن سنگھ سرکار نے جب اندرا گاندھی کو گرفتار کیا تھا تو اس سرکار کی عزت کیسے پیندے میں بیٹھ گئی تھی۔ یہی اب بھی ہوتا لیکن سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے یہ مظاہرہ کروا کر بھاجپا سرکار کے ہاتھ مضبوط کر دیے ہیں۔ تیسرا، لوگوں کو حیرانی ہے کہ کانگرس کی حالت مایا وتی کی جماعت بسپا کی طرح کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پاس نہ تو قابل نیتاہیں اور نہ ہی مؤثر پالیسی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صدر کے چناؤ میں کسی کانگرسی نیتا کا نام سامنے نہیں آ رہا۔ ساری اپوزیشن جماعتوںکو ایک کرنے میں بھی کانگرس کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی۔ اگرچہ کانگرس کے کچھ چیف منسٹرز کافی کامیابی سے کام کر رہے ہیں لیکن انہیں بھی جب ماں بیٹے کی سیوا میں لگایاجارہاہو تو عام لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ تجربہ کار لوگ عوامی و سیاسی رہنما ہیں یا کسی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے ملازم؟ اس وقت بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی غربت اور بے روزگاری ہے۔ ہر سال کروڑوں نوجوان تعلیمی اداروں سے ڈگری لے کر نکلتے ہیں مگر مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی نوکری نہیں۔ بھوک کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں نے الگ طوفان کھڑا کیا ہوا ہے‘ خوارک کے بحران کی بھی چاپ سنائی دے رہی ہے مگر سیاسی جماعتیں کسی عوامی مدعے پر کھڑے ہونے کے بجائے اپنے چند لیڈروں کو ملنے والے احتساب کے نوٹس پر ہی ہنگامہ کھڑا کیے ہوئے ہیں۔ ملک کے کروڑوںکانگرسی کارکنان پریشان ہیں۔ انہیں حیرانی ہوتی ہے کہ ان کے نیتا قومی مدعوں پر کوئی احتجاجی تحریک کیوں نہیں چلاتے؟ کیا تحریک کے لیے ان کے نیتاؤں کوبس یہی مدعا ملا ہے؟