افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گوردوارے پر ہوئے حملے نے افغان سکھوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس افغانستان کے شہروں اور گاؤںمیں لاکھوں سکھ رہا کرتے تھے وہاں اب مشکل سے ڈیڑھ‘ دو سو سکھ خاندان بچے ہیں۔ ان میں سے بھی111 سکھوں کو بھارت سرکار نے اس حملے کے بعد فوراً ویزا دے دیا ہے۔ اب سے 50‘55 سال پہلے جب میں کابل یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ کیا کرتا تھا‘ تب میں دیکھتا تھا کہ کابل، قندھار، ہرات اور جلال آباد کے سکھ صرف مالدار کاروباری ہی نہیں ہواکرتے تھے بلکہ کافی شاندار ا ور محفوظ زندگی بھی گزارا کرتے تھے۔ عام پٹھان، تاجک، ازبک اور ہزارہ لوگ سکھوں کو بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سکھوں کو بھی اپنے افغان ہونے پر بڑا ناز ہواکرتا تھا۔ غزنی میں ایک بزرگ سکھ سے میں نے پوچھاتھا کہ آپ کب سے یہاں رہتے ہیں؟ اس پر انہوں نے بہت تپاک سے کہاکہ جب سے افغانستان بنا ہے‘ تب سے! ایسے دیش بھگت سکھوں کو افغانستان سے اب بھاگنا پڑگیا ہے۔ یہ کیا افسوس کی بات نہیں ہے؟ لیکن اطمینان اور قدرے حیرت کی بات یہ ہے کہ جن طالبان کو بے حد کٹر اور شدت پسند مانا جا تا تھا‘ ان کی پولیس اس گوردوارے کی حفاظت کررہی تھی جب داعش کے خراسانی گروپ کے دہشت گرد گوردوارے پر حملہ کررہے تھے۔ اس حملے میں ایک سکھ اور ایک طالبان سپاہی ماراگیا۔ حملے کے وقت گوردوار ے میں لگ بھگ تیس افراد موجود تھے۔ اس سے پہلے جلال آباد اور ہر رائے صاحب کے گوردواروں پر ہوئے حملوں میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی داعش کی جانب سے افغانستان کی ہندو اور سکھ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ مارچ 2020ء میں ایک مسلح شخص نے مختلف مندروں پر حملہ کرکے 25 لوگوں کو قتل کر دیا تھا۔ 2018ء میں جلال آباد میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری داعش ہی نے قبول کی تھی۔ اب کابل حملے کے بعد طالبان سرکار نے حملے میں مرنے والوں کے پریواروں کو ایک‘ ایک لاکھ روپے اور گوردوارے کی بحالی کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے دیے ہیں۔یہ حقائق بہت ہی غور کرنے لائق ہیں۔ کیا دیگر دیشوں کی سرکار وں کو بھی یہی نہیں کرنا چاہئے ؟ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے تئیں طالبان حکومت کے من میںکتنی خیر سگالی ہے۔ بھارت سرکار نے بھی طالبان حکومت کے دوران افغان عوام کی مدد کے لیے ہزاروں ٹن گندم اور دوائیاں کابل بھجوائی تھیں۔ حالیہ دنوں میں بھارت سرکار نے اپنا ایک وفد وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ کی قیادت میں کابل بھی بھیجا ہے تاکہ دیگر 13ممالک کے سفارت خانوں کی طرح بھارت کا سفارت خانہ بھی دوبارہ فعال ہو سکے لیکن اب اس حادثے کے بعد بھارت کو ذرا زیادہ چوکنا رہنا پڑے گا۔ گوردوارے پر یہ جو حملہ ہواہے‘ اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھاجپا ترجمان کے بیان کا ردعمل ہے لیکن 2018ء اور 2020ء کے حملوں کے وقت تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی کابل میں بھارتی سفارت خانے اور جرنج‘ دلارام سڑک پر کام کر رہے بھارتی مزدوروں پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں۔ کابل میں گوردوارے پر بم دھماکے کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والے سکھوں نے اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک سکھ نے بتایا کہ اب ہمارا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے اور ہم نے اپنی تمام امیدیں کھودی ہیں‘اب ہمیں ہر جگہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے اصلی گنہگار کون ہیں‘ یہ جاننا از حد ضروری ہے۔ یہ حملہ آور طالبان سرکار کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔داعش‘ جس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے‘ کئی مسلم دیشوں میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کر چکی ہے۔ عراق سے شام اور افغانستان سے پاکستان تک‘ کتنے ہی ممالک اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی کچھ مہینے پہلے داعش سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ بھارت میں کئی حلقے ان حملوں کو طالبان اور بھارت سرکار کے بڑھتے مراسم کے ساتھ بھی نتھی کر رہے ہیں؛ تاہم پاکستان کے فارن آفس نے افغانستان میں عبادت گاہوں پر دہشت گردانہ حملوں کے حالیہ سلسلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی کی یہ کارروائیاں سراسر نفرت انگیز ہیں۔پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے،پاکستان افغانستان کے عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے اور تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے افغان حکام کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
اگنی پتھ کیوں بنا کیچڑ پتھ
بھارتی فوج میں نوجوانوں کی بھرتی کے اگنی پتھ منصوبے کو ہمارے نیتاؤں نے کیچڑ پتھ بنادیا ہے۔ سرکار کی اگنی پتھ یوجنا پر حکومت اور اپوزیشن کے نیتا کوئی سنجیدہ بحث چلاتے‘ اس میں سدھار کے سجھاؤ دیتے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کے حل بتاتے تو مانا جاتا کہ وہ اپنے نیتا ہونے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں لیکن حکمران بھاجپا کے نیتا آنکھ بند کرکے اگنی پتھ کی حمایت کررہے ہیں اور اپوزیشن کے سارے نیتا اس منصوبے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ سرکار اور فوج اصل منصوبے کو تبدیل کرتے ہوئے روزانہ ہی کچھ نہ کچھ نئی رعایتوں کا اعلان کر رہی ہیں تاکہ ہمارے مستقبل کے فوجیوں کی مایوسی دور ہو اور ان میں تھوڑے جوش کا ابھار ہولیکن تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ایسا مدعا مل گیا ہے جسے بھنانے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگنی پتھ یوجنا کے خلاف جو زبردست توڑ پھوڑ بھارت بھر میں ہوئی‘ اس کی پہل بے ساختہ تھی۔ اس کے پیچھے کسی اپوزیشن نیتا یا پارٹی کا ہاتھ نہیں تھا لیکن اب آپ ٹی وی چینلوں پر دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف پارٹیوں کے کارکنان اور نیتا ہاتھ میں اپنی پارٹی کے جھنڈے لیے ہوئے نعرے لگاتے گھوم رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ توخود فوج میں بھرتی ہونا ہے اور نہ ہی ان کو اپنے بچوں کے لیے فوجی نوکری پانا ہے۔جن نوجوانوں کو بھارتی فوج میں نوکری کرنی ہے‘ ان میں اس منصوبے کے حوالے سے تحفظات کا ابھرنا یا ان کا غصہ فطری تھا۔ ہر آدمی اپنی زندگی میں مستقل تحفظ اور سہولت کی خواہش رکھتا ہے۔ کوئی بھی نوجوان چار سال فوج میں گزارنے کے بعد کیا کرے گا‘ یہ سوال اسے پریشان کیے بغیر نہیں رہے گا۔ فوج میں جانے کو دیہی، غریب اور کم تعلیم یافتہ نوجوان اس لیے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ انہیں جنگ تو کبھی کبھار لڑنا پڑتی ہے لیکن ان کا بقیہ وقت پوری سہولتوں اور سکیورٹی میں گزرتا ہے اور ریٹائر ہونے پر 30‘ 40 سال تک پنشن اور مفت علاج وغیرہ کی سہولتیں بھی ملتی رہتی ہیں۔ وہ چاہیں تو دوسری نوکری بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ روایتی نظام دنیا کے تمام بڑے ممالک میں بدل رہا ہے کیونکہ فوجوں کو اب کم عمر کے نوجوانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ فوج کے اسلحے کی خریداری پر جتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، اس سے زیادہ پیسہ پنشن اور مراعات پر خرچ ہوجاتا ہے۔ فوج کی جدید کاری بہت ضروری ہے۔ سرکار کی یہ دلیلیں تو سمجھ میں آتی ہیں، لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ اگنی پتھ کا لاوا اچانک بھڑکانے کے بجائے اس مدعے پر پارلیمنٹ اور قانون ساز ایوان میں پہلے بحث کروالی جاتی۔ اب اُس کے اس اعلان کا ضروراثر پڑے گا کہ اس کے خلاف احتجاجی تحریک میں حصہ لینے والے جوانوں کو اگنی پتھ منصوبے کے تحت بھارتی فوج میں نوکری نہیں ملے گی۔ اس اعلان سے یہ تحریک ٹھپ بھی ہوسکتی ہے لیکن بہتر تو یہ ہوتا کہ فوجی افسر اس پلان کو فوراً نافذ کرنے کے اعلان کے بجائے اس پر وسیع بحث ہونے دیتے اور جو بھی بہتر سجھاؤ آتے انہیں تسلیم کیا جاتا۔ اگنی پتھ کو کیچڑ پتھ ہونے سے بچانا بہت ضروری ہے۔