برکس یعنی برازیل، رشیا، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ! ان ممالک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کراس بین الاقوامی تنظیم کا نام رکھا گیا ہے۔ اس کا 14 واں سالانہ اجلاس اس بار بیجنگ میں منعقد ہوا کیونکہ آج کل چین اس تنظیم کا صدر ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے چین نہیں گئے لیکن اس میں انہوں نے دہلی میں بیٹھے بیٹھے ہی حصہ لیا۔ ان کے چین نہ جانے کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ گلوان تنازع کے باوجود چین کے بھارت میں کاروبار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ برکس کی اس تنظیم میں بھارت اکیلا ایسا ملک ہے جو دونوں سپر پاورز یعنی امریکا اور چین کے نئے علاقائی اتحادوں کا ممبر ہے۔ بھارت اس چوگٹے (کواڈ)کا رکن ہے جس میں امریکا، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں اور اس نئے چوگٹے کابھی ممبر ہے جس میں امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای)رکن ہیں۔ چین کھلے عام کہتا ہے کہ یہ دونوں گروپ سرد جنگ کی ذہنیت کی علامت ہیں اور یہ امریکا نے اس لیے بنائے ہیں کہ اسے چین اور روس کے خلاف جگہ جگہ مورچے کھڑے کرنا ہیں۔ یہ بات چینی صدر شی چن پنگ نے برکس کے حالیہ سالانہ اجلاس میں بھی دہرائی ہے، لیکن بھارت کا رویہ میری نظر میں بالکل معتدل ہے۔ وہ نہ تویوکرین کے ایشو پر روس اور چین کا ساتھ دیتا ہے اور نہ ہی امریکا کا!اس سالانہ اجلاس میں بھی اس نے روس اور یوکرین سمیت بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات کو حل کرنے کی بات کہی ہے جسے مشترکہ بیان میں بھی مناسب جگہ ملی ہے۔ اسی طرح مودی نے برکس ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے باہمی تعاون کے نئے اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔ برکس ممالک نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ ہے ان ممالک کے عوام کا عوام سے سیدھا تعلق!اس معاملے میں بھارت کے پڑوسی‘ سارک کے ممالک میں کوئی مؤثر خود مختار تنظیم نہیں ہے‘ ایسے میں برکس اور چوگٹے (کواڈ)ممالک کے عوام کے براہ راست رابطوں کا کیا کہنا؟ میری کوشش ہے کہ جلد ہی بھارت کے 16 پڑوسی اور علاقائی ممالک کی تنظیم پیپلز سارک کے نام سے کھڑی کی جاسکے۔ برکس کے مشترکہ بیان میں دہشت گردی کی مخالفت بھی واضح الفاظ میں کی گئی ہے اور افغانستان کی مدد کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ کسی دوسرے ملک کی طرف سے وہاں دہشت گردی کو بڑھاوا دینا بھی غیرمناسب بتایاگیا ہے۔ چین نے اس سوچ کو مشترکہ بیان میں جانے دیا ہے، یہ میری نظر میں بھارت کی کامیابی ہے۔ برکس کے ارکان میں کئی اختلافات ہیں لیکن انہیںمشترکہ بیان میں کوئی جگہ نہیں ملی۔ روسی صدر پوتن نے اپنے خطاب میں کہا کہ روس اپنے اقتصادی روابط اور تجارت کو قابلِ بھروسہ بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ بڑھانا چاہتا ہے، مطلب یہ کہ سب سے پہلے برکس ممالک کے ساتھ۔ اس طرح روسی تیل کی ترسیل بھارت اور چین کو واضح طور پر بڑھائی جائے گی۔ صدر پوتن نے مزید کہا کہ روس برکس کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ رقم کی منتقلی کا کوئی متبادل نظام بنائے گا تاکہ ڈالر اور یورو پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔ برکس میں کچھ نئی قومیں بھی جڑنا چاہتی ہیں۔ اگر برکس کی رکنیت کی وجہ سے چین اور بھارت کے تنازعات سلجھ سکیں تو یہ دنیا کی بڑی طاقتور تنظیم بن سکتی ہے کیونکہ اس تنظیم کے ممالک میںدنیا کے 41فیصد لوگ رہتے ہیں، یہ دنیا کی پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ہے، اس کی کل جی ڈی پی دنیا کا 24 فیصد ہے اور دنیا کا 16فیصد کاروبار بھی ان ممالک ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔
امریکا میں ہنگامے کیوں؟
امریکہ میں دو بڑے فیصلوں نے کہرام مچارکھا ہے۔ ایک تو بندوق رکھنے پر کچھ نئی پابندیوں کے فیصلے نے اور دوسرا اسقاطِ حمل پر پابندی نے۔ امریکا کی سپریم کورٹ کے ان دونوں فیصلوں کولے کر وہاں کئی ریاستوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان کی ڈٹ کر مخالفت یا حمایت ہو رہی ہے۔ بندوق پر پابندی کی اتنی مخالفت نہیں ہورہی ہے جتنی اسقاطِ حمل پر پابندی کی ہورہی ہے۔ 1973ء میں اسقاطِ حمل کی اجازت کا جو فیصلہ امریکی سپریم کورٹ نے کیاتھا‘ اسے پچاس سال بعد موجودہ عدالت عظمیٰ نے الٹ دیا ہے۔ 9 میں سے 6 ججوں نے اس پر پابندی کی حمایت کی اور 3 ججوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ اس فیصلے کے پیچھے کی وجہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تعینات کردہ رجعت پسند ججوں کا اکثریت میں ہونابتائی جا رہی ہے۔ اب امریکا میں جو بھی ریاستیں رجعت پسند یا ریپبلکن یا ٹرمپ کی حامی ہیں‘ وہ اس قانون کو فوراً لاگو کردیں گی۔ فیصلے کے ایک حصے میں کہا گیا کہ ''ہم سمجھتے ہیں کہ آئین اسقاطِ حمل کا حق نہیں دیتا، اسقاطِ حمل کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو واپس کیا جانا چاہیے‘‘۔ کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور مشی گن سمیت متعدد ریاستوں کے ڈیموکریٹک گورنرز‘ سپریم کورٹ کی جانب سے اس عمل کو غیرقانونی قرار دینے کی صورت میں پہلے ہی اپنے اپنے ریاستی قوانین میں اسقاطِ حمل کے حق کو شامل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں۔ 1973ء کے تاریخی 'رو بنام ویڈ کیس‘ میں امریکی سپریم کورٹ نے سات کے مقابلے میں دو ووٹوں سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ عورت کو اسقاطِ حمل کا حق امریکی آئین کے تحت محفوظ ہے۔ اس فیصلے نے امریکی خواتین کو حمل کے پہلے تین مہینوں (سہ ماہی) میں اسقاط کا مکمل حق دیا تھا، لیکن دوسری سہ ماہی (تین سے چھ ماہ کے حمل کے دوران) چند پابندیوں کے ساتھ یہ حق دیا گیا تھا جبکہ تیسری سہ ماہی (چھ سے نو ماہ کے دوران) اس پر مکمل پابندی تھی۔ اب نئے فیصلے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورتوں کو اپنے جسم کے بارے میں کوئی بنیادی حق نہیں ہوگا۔ تقریباً ایک درجن ریاستوں نے اسقاطِ حمل پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔ کوئی بھی عورت 15 ہفتوں سے زیادہ کے حمل کونہیں گرا سکتی۔ عدالت کے اس فیصلے کو صدر جوبائیڈن نے توخوفناک بتایا ہی ہے‘ سارے امریکا میں اس کے خلاف بے چینی پھیل گئی ہے۔ یورپی ممالک کے بڑے رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ امریکا کی نامی گرامی کمپنیوں نے اپنے ہاں کام کر رہی عورتوں سے کہا ہے کہ وہ اسقاطِ حمل کے لیے جب بھی کسی دوسری امریکی ریاست میں جانا چاہیں تو انہیں پوری سہولتیں دی جائیں گی۔ امریکا کے 13 صوبوں میں اسقاطِ حمل کی اجازت آج بھی ہے۔ امریکا کے نظامِ حکومت میں اس کی ریاستیں مرکزی قانون کو ماننے یا نہ ماننے کیلئے آزاد ہیں۔ امریکا کے کیتھولک فرقے کے پادری اور دائیں بازو کے لوگ اس پابندی کا سواگت کر رہے ہیں۔ ویسے بھی آج کل یورپ اور امریکا میں عورتوں اور مردوں کے بیچ بنا شادی کے تعلقات کا چلن اتنا بڑھ گیا ہے کہ اسقاطِ حمل کی سہولت کے بغیر ان کا جینا دوبھر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سہولت کی مانگ اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ چوری چھپے اسقاط کروانے پر حاملہ عورتوں کی موت ہو جاتی ہے۔ عالمی ادرۂ صحت کی ایک ریسرچ کے مطابق ہر سال 2.5 کروڑ غیر محفوظ اسقاطِ حمل ہوتے ہیں جن میں 37000 سے زیادہ عورتوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اب اس پر پابندی لگانے سے اس تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ یورپ کے کئی دیش اسقاط حمل کے حق کو قانونی شکل دینے کیلئے تیار ہیں۔ بھارت میں 24 ہفتے یا اس سے بعد بھی زیادہ حمل گرانے کی قانونی اجازت ہے بشرطیکہ حاملہ کی صحت کے لیے وہ ضروری ہو۔ میری نظر میں ایسا قانون‘ جو طبی بنیادوں پر ہو زیادہ عملی ہے۔