"DVP" (space) message & send to 7575

پھر آیا وہ کالا دن

26 جون 1975ء کا کالا دن‘ 46 سال بعد مجھے پھر یاد آرہا ہے۔ 25 جون 1975ء کی آدھی رات کو بھارت کے صدر فخر الدین علی احمد نے ایمرجنسی کے اعلان پر آنکھ بند کر کے دستخط کر دیے۔ پردھان منتری اندرا گاندھی کے جی حضوروں نے دہلی کے کئی بڑے اخباروں کی بجلی کٹوا دی تھی اور ملک کے جو اخبار جلدی چھپتے تھے ان میں بھی وہ خبر نہیں چھپی تھی۔ اس دن میں اندور میں تھا۔ میں صبح سویرے اپنے قریبی دوست اور آر ایس ایس کے پرچارک کپ سین سدرشن جی سے ملنے گیا۔ وہ جواہر مارگ کے ایک ہسپتال میں پاؤں کی ہڈی کا علاج کروارہے تھے۔ صبح آٹھ بجے جیسے ہی انہوں نے اپنا ٹرانسسٹر ریڈیو کھولا تو پہلی خبر یہی تھی کہ ملک میں ایمرجنسی کا اعلان ہو گیا ہے۔ میں فوراًوہیں سے ہندی کے اس وقت کے اعلیٰ اخبار ''نئی دنیا‘‘ کے دفتر پہنچا۔ میں چھوٹی عمر ہی سے اس میں لکھنے لگا تھا۔ اس وقت مانا جاتا تھا کہ وہ ایک کانگرسی اخبار ہے۔اس کے مالک لابھ چند جی چھجلانی چیف ایڈیٹر راہل بارپتے اور ایڈیٹر ابھے چھجلانی سمیت تمام اہم لوگ دفتر میں موجود تھے۔ میری تجویز پر یہ طے ہوا کہ اداریہ کی جگہ کوخالی چھوڑ دینا مخالفت کی بہترین شکل ہے کیونکہ ایمرجنسی کی مخالفت پر پابندی کا اعلان ہوچکا تھا۔ میں دوپہر کی ریل پکڑ کر دہلی آگیا۔ میں اس وقت نوبھارت ٹائمز (ملک کے سب سے بڑے اخبار) کا کو ایڈیٹر تھا۔ ایڈیٹر شری اکشے کمار جین نے تمام صحافیوں کی میٹنگ بلائی اور ایمرجنسی کی مخالفت نہ کرنے کی سخت ہدایت دی۔ میٹنگ کے بعد میں نے اکشے جی سے کہا کہ میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ میں سرکار کی خوشامد میں ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ غیر ملکی امور کے ماہر ہیں‘ میں آپ سے قومی سیاست پر کوئی اداریہ بھی نہیں لکھواؤں گا۔ دوسرے دن پریس کلب میں کلدیپ نائر نے ایمرجنسی کی مخالفت میں دہلی کے صحافیوں کی میٹنگ بلائی۔ پہلے ان کا تقریر ہوئی، پھر میری۔ میں نے تمام صحافیوں سے کہاکہ وہ سب ایمرجنسی کے خلاف خط پر دستخط کریں۔ دو تین منٹ میں ہی سارا ہال خالی ہو گیا۔ ان دنوں ہم جو بھی اداریہ یا مضمون لکھتے تھے، اسے چپراسی کے ہاتھوں شاستری بھون میں بیٹھے ایک ملیالی افسر کے پاس بھجوانا پڑتا تھا۔ اس کی '' ہاں‘‘ ہونے پر ہی وہ چھپتا تھا۔ جون 1976ء میں میری کتاب ''مہا گرنتھ‘ ہندی پتر کارتا: وودھ آیام‘‘ کی راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) میں رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی۔ صدر بندان جتی سمیت کئی سینئر مرکزی وزیر اور سینکڑوں صحافی ملک بھر سے موجود تھے لیکن میں نے وزیر اعظم اندرا جی کو اس میں مدعو نہیں کیاتھا۔ اکشے جی کو میں نے بتادیاتھا کہ اگر آپ انہیں مدعو کریں گے تو میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘ حالانکہ اندرا جی مجھے خوب جانتی تھیں اور میرے بھی من میں ان کیلئے بہت عزت تھی لیکن ایمرجنسی کے دوران میرے پتا جی (اندور میں) اور جے پرکاش جی، چندر شیکھر جی،اٹل جی، مرار جی بھائی اور ڈھیروں سماج وادی اور جن سنگھی دوست لوگ جیل میں بند تھے۔ ایمرجنسی کے دوران مدھو لیمئے، جارج فرنینڈس، کملیش شکل، سوامی اگنی ویش وغیرہ دوستوں سے جیسے تیسے رابطہ بنا ہوا تھا۔ کئی سماج وادی، جن سنگھی اور سابق کانگرسی سیاستدان صفدرجنگ انکلیو کے میرے اس گھر میں چھپ کر رہا بھی کرتے تھے۔ ان دنوں جہاں بھی میری تقریر ہوئی میں نے ایمرجنسی پر تنقید کی۔ ایک بار وزیر اطلاعات ودیہ چرن شکل کی موجودگی میں جبل پور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں بھی۔ 1975ء کی اس ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف معروف گاندھیائی رہنما جے پرکاش نارائن نے بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے جو تحریک شروع کی تھی وہ پورے ملک میں پھیل گئی اور بالآخر اندرا گاندھی کی حکومت کے اختتام پر منتج ہوئی تھی۔ جے پرکاش آندولن یا جے پی تحریک کے نام سے مشہور اس تحریک نے بھارتی سیاسی افق پر کافی بڑی تبدیلیاں کیں اور کئی نئے رہنما سامنے آئے۔ آج بھارت کے کئی اہم رہنما اسی سیاسی تحریک کا حاصل ہیں۔دیگر کئی یادیں پھر کبھی!
شو سینا اجتماع کے سبق
یہ مان کر چلا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر کی گٹھ بندھن سرکار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ اگروزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے ایک ناتھ شندے کو چیف منسٹری کا عہدہ دینے کو بھی تیار ہوں تو بھی یہ گٹھ بندھن کی سرکار چلنے والی نہیں ہے۔کیونکہ شندے اس حکومت کے بالکل خلاف ہیں جو کانگرس اور نیشنلسٹ کانگرس پارٹی کے تعاون سے ٹھاکرے نے قائم کی تھی۔ شو سیناکے باغی قانون سازوں کی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ ٹھاکرے نے اپنی کرسی کی خاطر کانگرس اور این سی پی کو نہ صرف اہم وزارتیں سونپ دی ہیں بلکہ شوسیناکے قانون سازوں کی وہ ذرا سی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ ٹھاکرے کے خلاف تقریباً شوسینا کے سبھی ممبرانِ اسمبلی کی سنگین شکایت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے قانون سازوںکو بھی ملنے کا وقت نہیں دیتے ہیں۔قانون سازاپنے ووٹروں کی شکایتیں دور کرنے کے لیے آخر کس کے پاس جائیں؟ شو سینا میں برسوں سے سرگرم سیاست دانوں کی اس بات پر بھی ناراضی ہے کہ شوسینا نے ہندوتوا وادی بھاجپا کا ساتھ چھوڑ دیااور جس کانگرس کے خلاف بالا صاحب ٹھاکرے نے شو سینا بنائی تھی اودھو ٹھاکرے اسی کی گود میں بیٹھ گئے۔ اودھو نے کسی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ ذاتی الزامات کی وجہ سے بھاجپا سے برسوں پرانا تعلق توڑ لیا۔شوسینا کو وہ ایک سیاسی پارٹی کی طرح نہیں بلکہ کسی فوج کی طرح چلاتے ہیں۔ ہر شوسینک اپنے کمانڈر کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوتا ہے۔ فوج سے بھی زیادہ یہ پارٹی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ جیسے بالا صاحب کی کرسی پر اودھو جاجمے ہیں ویسے ہی وہ اپنے بیٹے آدتیہ کو اپنی کرسی پر جمانے کے لیے بیتاب ہیں۔ شو سینا کے دیگر رہنماؤں کے دل میں پل رہی یہی چنگاڑیاں آج آتش فشاں کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہیں۔شندے کے پاس اکثریت کی بات سنتے ہی اودھو ٹھاکرے نے ایوانِ وزیراعلیٰ چھوڑ دیا ہے۔ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جیسے انہیں وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کی کوئی پروا نہیں ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ سرکار رہے یا جائے شو سینا کے لاکھوں کار کنان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس سرکار کے گرنے کے بعد شوسینا کے یہ کارکنان پتا نہیں کدھر جائیں گے۔ وہ شندے کو اپنارہنما مانیں گے یا اودھو ٹھاکرے کو۔ظاہر ہے کہ شندے اب کانگرس اور شرد پوار سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ ان کی گٹھ بندھن سرکار اب بھاجپا کے ساتھ ہی بنے گی۔ بھاجپا انہیں خوشی خوشی اپنے وزیر اعلیٰ کاعہدہ دیناچاہے گی۔ اودھو ٹھاکرے کو سبق سکھانے کے لیے شندے کو بھاجپا کی جانب سے چیف منسٹری ملنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔یہ پیشرفت ملک کے تمام نیتائوں کے لیے بڑا سبق ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک توسیاسی پارٹیوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی نہ بننے دیا جائے اور دوسرا حکمران پارٹی کے رہنما لوگ مطلق العنان نہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں