"DVP" (space) message & send to 7575

چین، روس اور جی سیون

دنیا کے 7 امیر ممالک کی تنظیم‘ جی7 کے سربراہی اجلاس میں بھارت کو بھی مدعو کیا گیا تھا، حالانکہ بھارت اس کا باقاعدہ رکن نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ بھارت خوشحال ممالک کے درجے میں پہنچنے کا معقول امکان رکھتا ہے۔ اس وقت کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا اس تنظیم کے ممبر ہیں۔ جرمنی میں اختتام پذیر ہوئے حالیہ اجلاس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے حصہ لے کر تمام عالمی لیڈروں سے گرم جوشی سے ملاقات کی ہے۔ مودی نے اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا اور اس تنظیم کے سامنے کچھ نئے اہداف بھی رکھے۔ مودی نے یہ حقیقت بھی کھل کر ظاہر کر دی کہ بھارت کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ 17 فیصد ہے لیکن عالمی آلودگی میں اس کا حصہ 5 فیصد ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے خوشحال اقوام کو اپنی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے خوشحال اقوام سے اپیل کی کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی بھرپور مدد کریں۔ دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی عدم مساوات کو وہ دور کریں۔ امریکی صدر جو بائیڈن و دیگر نیتاؤں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ اگلے 5 سالوں میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری دنیا بھر میں کریں گے تاکہ تمام ممالک میں تعمیراتی کام ہو سکیں اور عام آدمیوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی مالیاتی سرمایہ کاری کا تصور ان خوشحال ممالک میں چین کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے۔ چین نے 2013ء میں ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)‘‘ منصوبہ شروع کرکے دنیا کے تقریباً 40 ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا تھا۔ مغربی دنیا کا خیال ہے کہ چین ان منصوبوں کی آڑ میں سب ملکوں کو اپنا ماتحت بنانا چاہتا ہے۔ کچھ لوگ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کو بھی بھاری قرضوں سے جوڑتے ہیں۔ بھارت کے تقریباً سبھی پڑوسی ممالک میں چین نے یہ منصوبہ شروع کر رکھا ہے لیکن جو بائیڈن نے چینی پروجیکٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ جی7 کی یہ تجویز نہ تو کوئی خیرات ہے اور نہ ہی یہ ممالک کی مدد کے نام پر بچھایا گیا کوئی جال ہے۔ یہ خالص سرمایہ کاری ہے۔ اس سے متعلقہ اقوام کو تو بھرپور فائدہ ہوگا ہی امریکا بھی فائدے میں رہے گا۔ یہ فورم ترقی پذیر ممالک کو سڑکیں، پل، بندرگاہ وغیرہ بنانے کے لیے فنڈز مہیا کروائے گا۔ اس پروجیکٹ کے نافذ ہونے پر لوگوں کو سیدھا فائدہ ملے گا، ان کی غریبی دور ہو گی، ان کا روزگار بڑھے گا اور جمہوریت کے تئیں ان کی کمٹمنٹ مضبوط ہو گی۔ متعلقہ ممالک کے درمیان آپس کے کاروبار اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے میں بھی اس پروجیکٹ کا قابل ذکر حصہ ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس منصوبے میں جڑنے والے ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کے سمجھوتے بھی ہونے لگے۔ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف عالمی تجارت میں اضافہ ہو گا بلکہ متعلقہ ممالک میں عام لوگوں کو چیزیں سستے داموں دستیاب ہونے لگیں گی۔ ان کی زندگی کا معیار بھی سدھرے گا۔ بائیڈن اور جی7 کے نیتاؤں کی یہ سوچ قابل تعریف ہے، لیکن لمبے وقت سے ڈالر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہاں بھی جاتا ہے وہاںسے کئی گنا بڑھ کر ہی لوٹتا ہے۔ دیکھیں چینی یوآن کے مقابلے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اور روس مل کر پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ یعنی برکس تنظیم کو جی سیون تنظیم کا متبادل بنانا چاہتے ہیں۔ برکس میں ''بی‘‘ بھارت ہی کی نمائندگی کرتا ہے اور بھارت اس تنظیم کا ممبر ہے۔ ایک جرمن اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روس اور چین مغربی ممالک کے زیر اثر تنظیم جی سیون کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے چاہتے ہیں کہ برکس کو وسعت دی جائے۔ یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کارروائی کی شروعات اور روس پر مغربی پابندیوں کے بعد روس ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ جی 8تنظیم سے روس کے نکالے جانے کے بعد یہ تنظیم جی سیون بنی تھی اور اس دن کے بعد سے روس کوششیں کر رہا ہے کہ برکس کو جی سیون کا متبادل بنا کر سامنے لایا جائے۔ روس کے دفتر خارجہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ دو نئے ممالک (ارجنٹائن اور ایران) نے برکس میں شمولیت کیلئے درخواست دے دی ہے۔ اگر ایسا ہو ا تو بھارت ایک نئے امتحان سے دوچار ہو جائے گا کیونکہ ابھی تک بھارت غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ برکس کا ممبر تو ہے مگر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کسی بھی تنظیم کا ممبر وہ اقتصادی سہولتوں کے لیے بنتا ہے نہ کہ کسی عسکری اتحادی کے طور پر اور یہی وجہ ہے کہ بیک وقت امریکا، روس اور چین‘ تینوں کے ساتھ نہ صرف وہ تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ ان کو فروغ بھی دے رہا ہے۔
یوگا کی مخالفت کیوں؟
مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں گزشتہ دنوں ایک عجیب حادثہ پیش آیا ہے۔ 21جون کو یوگا کے عالمی دن پر بھارتی ہائی کمیشن کے زیر انتظام چل رہے ایک یوگا کیمپ پر دھاوا بول دیا گیا۔یہ کیمپ مالے کے نیشنل فٹ بال سٹیڈیم میں منعقد ہواتھا اور اس کا اہتمام بھارت کے مقامی ثقافتی مرکز اور مالدیپ کی وزارت برائے کھیل کی جانب سے کیا گیا تھا۔مظاہرین کے دھاوا بولنے پر اس تقریب کو عارضی طور پر روک دیا گیا۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس وقت پروگرام میں 150 سے زائد لوگ حصہ لے رہے تھے۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس اور کالی مرچ کا سپرے بھی کرنا پڑا۔ پولیس کی جانب سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ مالدیپ میں یہ دن پہلی بار نہیںمنایا گیا تھا۔ بھارت‘ خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی دنیا بھر میں یوگا کی ترویج کرتے رہتے ہیں۔ 2014ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے یوگا ڈے کو عالمی سطح پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا اور 2015ء سے مالدیپ میں برابریوگا کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں غیر ملکی سفارت کار، مقامی نیتا اور عام لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں میں دیسی‘بدیشی یا ہندو مسلمان کا کوئی بھیدبھاؤ نہیں کیاجاتا‘ اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ یہ عالمی دن بھارت سمیت دنیا کے تمام ملکوں میں مقبول ہے۔ مالدیپ میں ا س کی مخالفت کٹر عناصر نے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوگا ان کے مذہب کے خلاف ہے۔ ان کا یہ کہنا اگر ٹھیک ہے تو اقوام متحدہ میں سارے ممالک نے اس پر اپنی مہر کیوں لگائی ہے؟ انہوں نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ یہ ٹھیک ہے کہ یوگ آسن کرنے والوں سے یہ کہاجاتا ہے کہ وہ شاکا ہاری بنیں‘ یعنی گوشت سے پرہیز کریں اور سبزیاں وغیرہ کھائیں؛ تاہم شاکاہاری ہونے کا مطلب کسی اور مذہب کو اپنانا نہیں ہوتا۔ یوگا ایک قسم کی اعلیٰ ذہنی اور جسمانی زندگی کی شکل ہے ، جسے کوئی بھی انسان اپنا سکتا ہے۔ اس کا تعلق علاج سے ہے‘ کسی مذہب سے نہیں۔ کیاآج صرف یونانی دوا کافی ہے جو ڈیڑھ‘ دوہزار سال پہلے سارے ملکوں میں چلتی تھی؟ کیا ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی اور نیچروپیتھی کا بائیکاٹ کردینا چاہئے؟ بالکل نہیں!جدید انسان کو سبھی نئی اور پرانی چیزوں کو اپنانے میں کوئی اعتراض کیوں ہونا چاہئے؟ یورپ اور امریکا میں ایلوپیتھی ادویات اتنی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود وہاں کے لوگ بڑے پیمانے پر یوگا سیکھ رہے ہیں کیونکہ یوگا صرف دوا ہی نہیں ہے بلکہ جسمانی اور دماغی امراض کیلئے چین کی دیوار کی طرح سے حفاظت کا پختہ انتظام بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں