"DVP" (space) message & send to 7575

دنیا کو بھیڑ سے بچانے کا فارمولا

11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا گیا۔ ایسے موقعوں پر لوگ جشن مناتے ہیں لیکن اس عالمی دن پر لوگ فکر میں پڑ گئے ہیں کہ اگر دنیا کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو اگلے 30 سالوں میں دنیا کی کل آبادی تقریباً 10 ارب ہو جائے گی۔ اتنے لوگوں کے لیے کھانا، کپڑے، رہائش اور روزگار کا کیا انتظام ہو گا؟ کیا یہ زمین انسان کے رہنے لائق بچے گی؟ زمین کا رقبہ تو بڑھنا نہیں اور خلا میں دوسرے سیاروں پرانسان کو جا کر بسنا بھی نہیں ہے‘ ایسے میں کیا یہ زمین جہنم بن جائے گی؟ بڑھتی ہوئی آلودگی کیا انسانوں کو زندہ رہنے کے لائق چھوڑے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر سال جم کر اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ سوال ہمارے دماغ میں کافی مایوسی اور فکر پیدا کرتے ہیں لیکن اگر ہم تھوڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو مجھے لگتا ہے کہ انسانی نسل اتنی عظیم ہے کہ وہ ان مصیبتوں کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گی۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ دنیا میں اتنا کچھ ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہے مگر انسان کی لالچ نے اس دنیا کے وسائل کو محدود طبقے تک محدود کر کے ایک بڑے طبقے کو افلاس اور غربت جیسے مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ صرف آبادی ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ دنیا کے وسائل بھی اسی تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔ جیسے اب سے تقریباً 70 سال پہلے دنیا کی آبادی صرف اڑھائی ارب تھی لیکن اب وہ تقریباً 8ارب ہو گئی ہے۔ پہلے فی ایکڑ جو پیداوار تھی اب اس کا پانچ سے دس گنا تک حاصل کیا جا رہا ہے۔ پانی کو ری سائیکل کیا جا رہا ہے، سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ کیا اس بڑھتی ہوئی آبادی کو کم و بیش تمام سہولتیں نہیں مل رہی ہیں؟ نت نئی ایجادات‘ سائنسی و مشینی ترقی اور آپس کے تعاون جیسے عوامل سے دنیا کے کئی ملکوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ انہی کی وجہ سے لوگوں کی صحت بہتر ہوئی ہے اور پچھلے 40 سالوں میں لوگوں کی اوسط عمر میں لگ بھگ 20سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جو لوگ پہلے 50سال کی عمر پاتے تھے وہ اب 70سال تک زندہ رہتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی تقریباً تمام ملکوں میں ر ائج ہے۔ جاپان اور چین میں یہ فکر کا موضوع بن گیا ہے۔ وہاں آبادی گھٹنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔ اگر دنیا کی آبادی 10‘ 12ارب ہی ہو جائے تو اس کا انتظام ناممکن نہیں۔ کھیتی کی پیداوار بڑھانا، آلودگی گھٹانے، پانی کی بچت کرنے، سبزی خوری کو بڑھاوا دینے اور کھانے کی ضیاع کی ممانعت کی مہم اگر تمام سرکاریں اور عوام ایمانداری سے چلائیں تو انسان کی نسل کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ مشکل یہی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں صارفیت کی لہر آئی ہوئی ہے۔ ہر آدمی ہر چیز ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس شیطانی خواہش کی تکمیل کے لیے اگر قدرتی وسائل 10گنا زیادہ بھی دستیاب ہوں تو بالآخر وہ بھی کم پڑ جائیں گے۔ ایسی حالت میں صارف اور کنزیومر سوسائٹی اور بچت جیسی وچار دھاراؤں کے مقابلے میں ایثار اور قربانی اور میانہ روی کی سکیم پوری دنیا کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ جس اقوام متحدہ نے 11جولائی 1989ء کو عالمی یوم آبادی منانے کی روایت قائم کی تھی‘ اس کے کرتا دھرتاؤں سے میں درخواست کروں گا کہ وہ اشوپنشد کے اس منتر کو ساری دنیا کا رہنما اصول بنائیں۔ تیاگ کے ساتھ آپ بھوگ کریں یعنی ایثار کے ساتھ مل بانٹ کر کھانے کو ترجیح دیں تو آبادی کی بڑھتی رفتار یا اس کی فکر کا ازالہ اپنے آپ ہو جائے گا۔
بھارت سری لنکا کی مدد کو آگے آئے
سری لنکا میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو ہمارے جنوبی ایشیا کے کسی بھی دیش میں آج تک نہیں ہوا۔ عوام کے ڈر کے مارے صدر اور وزیراعظم حکومت چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ صدر، وزیراعظم کو اپنی کرسی چھوڑ کر کہیں چھپ جانا پڑے‘ ایسا بھارت یا برصغیر کے کسی دیش میں کبھی ہوا ہے کیا؟ کئی علاقائی ملکوں میں عسکری تختہ پلٹ، اندرونی بغاوت اور آئینی بحران کی وجہ سے اقتدار میں تبدیلیاں آئی ہیں لیکن سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ ویسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہزاروں لوگ کولمبو کے صدراتی محل میں گھس گئے ہیں اور وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ کو انہوں نے آگ کے حوالے کر دیا ہے۔ سری لنکن صدر گوتابایاراجا پاکسے اور وزیراعظم رانیل وکرم سنگھے کو اپنے استعفوں کا اعلان کرنا پڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے عوام تو رہے ایک طرف‘ فوج اور پولیس نے بھی ان نیتاؤں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ دونوں نے نہ تو وزیراعظم کے جلتے ہوئے گھر کو بچانے کے لیے گولیاں چلائیں اور نہ ہی صدر کے جوتے اور کپڑے ہوا میں اچھالنے والوں پر لاٹھیاں برسائیں۔ یہ ہزاروں لوگ دارالحکومت کولمبو اور اس کے باہر سے آ کر یہاں جمع ہوئے تھے۔ اس وقت جب سری لنکا میں پٹرول کی قلت ہے اور پرائیویٹ گاڑیاں نہیں چل پا رہیں تو یہ لوگ آئے کیسے؟ یہ لوگ درجنوں میل پیدل چل کر صدارتی محل تک پہنچے۔ ان کے غصے کا اندازہ برسراقتدار لوگوں کو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پچھلے تین مہینوں سے سری لنکا ایک غیر معمولی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرحیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ صرف سوا دو کروڑ لوگوں کا یہ دیش اربوں ڈالر کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ 75فیصد لوگوں کو روزمرہ کا کھانا بھی پورا نصیب نہیں ہو پا رہا۔ جو بھاگ سکتے تھے‘ وہ کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگ نکلے ہیں۔ جو نیتا یعنی مہندا راجا پاکسے سری لنکا کا سب سے بڑا رہنما بن چکا تھا‘اس لیے کہ اسے تامل علیحدگی پسندوں کو تباہ کرنے کا سہرا دیا گیا تھا‘ اسے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے 9 مئی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اور اب اس کے بھائی گوتابایا نے اپنا استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ کے سپیکر نے کہا ہے کہ صدر نے اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون کا احترام کریں۔ اس اعلان کے بعد کولمبو شہر میں جشن کی سی کیفیت تھی اور آتش بازی بھی ہوئی۔ جنتا کا کہنا تھا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ صدر اور وزیراعظم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور سری لنکا کے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ اس سرکار میں راجا پاکسے خاندان کے پانچ ممبران اعلیٰ عہدوں پر رہ کر خاندانی تاناشاہی چلا رہے تھے۔ ایسی پریوارک تانا شاہی کسی بھی جمہوری دیش میں سننے میں نہیں آئی۔ انہوں نے وسیع تبادلہ خیالات کیے بغیر ہی کئی بے حد سنجیدہ اقتصادی اور سیاسی فیصلے کر ڈالے۔ مخالفین کی واننگز پر کوئی کان نہیں دھرے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی وارننگز کو بھی انہوں نے دری کے نیچے سرکا دیا۔ میں خاندانی جمہوریت کو لمیٹڈ پارٹی مانتا ہوں۔ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں اس وقت ایسی ہی جمہوریتیں ہیں۔ ان تمام ممالک کو اپنے ہاں حالات بگڑنے سے قبل ہی سدھار پر کچھ غور کرنا چاہیے۔ سری لنکن صدر نے حکومت بدلی، وزیراعظم بدلا اور کئی وزیر بھی بدل دیے لیکن یہ بدلائو بھی کسی کام نہیں آئے۔ اب آل پارٹی سرکار اگر بن بھی گئی تو وہ کیا کر لے گی؟ اس وقت سری لنکا کو زبردست اقتصادی مدد کی ضرورت ہے۔ بھارت چاہے تو بحران کی اس گھڑی میں کچھ وقت کے لیے اپنے اس پڑوسی دیش کی بھرپور سرپرستی کر سکتا ہے۔ چھوٹا سا یہ دیش بھارت کے کسی چھوٹے سے صوبے سے زیادہ بڑا نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں