سپریم کورٹ نے بھارت سرکار سے دو ٹوک الفاظ میں درخواست کی ہے کہ وہ لوگوں کی اندھا دھند گرفتاری پر روک لگائے۔ بھارت کی جیلوں میں بند تقریباً 5 لاکھ قیدیوں میں سے 4 لاکھ قیدی ایسے ہیں جن کے جرائم ابھی تک ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ عدالت نے انہیں مجرم قرار نہیں دیا ہے۔ ایسے کیسز میں مقدمے 5 سے 10سال تک چلتے رہتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگ بری ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی عدالتوں میں کروڑوں معاملے برسوں جھولتے رہتے ہیں اور لوگوں کو انصاف کے بجائے ناانصافی ملتی رہتی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں غلام بھارت پر جو قانون لادے گئے تھے، وہ اب تک چلے آ رہے ہیں۔ آزادی سے اب تک بھارت کی سرکار نے کچھ قانون ضرور بدلے ہیں لیکن اب بھی پولیس والے جس کو چاہیں‘ گرفتار کر لیتے ہیں۔ بس اس کے خلاف ایک ایف آئی آر لکھی ہونی چاہئے جبکہ قانون کے مطابق صرف انہی لوگوں کو گرفتار کیا جانا چاہئے جن کے جرم پر سات سال سے زیادہ کی سزا ہو۔ یعنی معمولی جرائم کا شک ہونے پر کسی کو پکڑ کر جیل میں ڈالنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ ملک میں قانون کا نہیں‘ پولیس کا راج ہے۔ اسی 'پولیس راج‘ پر سخت تنقید ججوں نے دو ٹوک الفاظ میں کی ہے۔ اس 'پولیس راج‘ میں کئی لوگ بے قصور ہوتے ہوئے بھی برسوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔ سرکار بھی ان قیدیوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی رہتی ہے۔ انہیں ضمانت فوراً ملنی چاہئے۔ بھارتی پینل کوڈ کی دفعہ 41 کہتی ہے کہ کسی بھی قصوروار شخص کو پولیس کسی وارنٹ کے بغیر گرفتار کر سکتی ہے لیکن بھارت کی اعلیٰ عدالتیں کئی بار کہہ چکی ہیں کہ کسی شخص کو تبھی گرفتار کیا جانا چاہئے جبکہ یہ شک ہو کہ وہ بھاگ کھڑا ہو گا یا گواہوں کو منحرف کرنے کا سبب بنے گا، یا ثبوت کو ضائع کروا دے گا یا اپنے اثر و رسوخ سے کیس پر اثر انداز ہو گا۔ اس کے باوجود پولیس کسی کو بھی معمولی سے جرم میں پکڑ کر بھی حوالات میں ڈال دیتی ہے اور پھر اگلے کئی سال جرم ثابت ہونے میں لگ جاتے ہیں جس کے بعد عدالت سے مجرم یا ملزم ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ کئی صحافیوں، نیتاؤں اور سماجی کارکنان کو سرکاروں کے اشارے پر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ وہ جب اپنے مقدموں میں بری ہوتے ہیں تو ان کے اذیتی دور کا ہرجانہ انہیں گرفتار کرنے والوں سے کیوں نہیں وصول کیا جاتا؟ انگریزی راج کے یہ جابرانہ قوانین حکمرانوں کے لیے سیاسی ایندھن کا کام کرتے ہیں کیونکہ گرفتار ہونے والوں کی بدنامی کا ماحول ایک دم تیار ہو جاتا ہے۔ بعد میں چاہے وہ بے قصور ہی ثابت کیوں نہ ہو جائیں؟ ضمانت کے ایسے کئی معاملے آج بھی درمیان میں لٹکے ہوئے ہیں، جنہیں برسوں ہو گئے ہیں۔ بھارت کی نیشنل دلت موومنٹ فار جسٹس (این ڈی ایم جے) کی ایک رپورٹ ''کرمنل جسٹس ان دی شیڈو آف کاسٹ‘‘ کے مطابق بھارت کے کرمنل جسٹس سسٹم میں دلت اور آدی واسیوں کے خلاف موجود ذہنیت کی وجہ سے جیلوں میں ان طبقات کے قیدیوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے۔ سال 2018ء کی این سی آر بی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جیلوں میں آدھے سے زیادہ یعنی 53 فیصد قیدیوں کا تعلق مسلم، دلت اور آدی واسی طبقوں سے ہے جو ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ تینوں طبقے چونکہ معاشی طور پر پسماندہ ہیں، اس کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے مناسب، معیاری اور بر وقت قانونی دفاع اور وکیل کا بندوبست نہیں کر پاتے اور اس کی وجہ سے ان قیدیوں کو یا تو برسوں تک زیرِ سماعت قیدی کے طور پر جیل میں رہنا پڑتا ہے یا پھر انہیں سزا ہو جاتی ہے۔ دنیا کی دیگر جمہوریتوں جیسے امریکا اور برطانیہ میں عدالتیں اور انویسٹی گیشن ادارے یہ مان کر چلتے ہیں کہ جب تک کسی کا جرم ثابت نہ ہو جائے‘ اسے مجرم مان کر اس کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جانی چاہئے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور یہاں دنیا کا سب سے پرانا عدالتی نظام ہے۔ قوانین میں فوری ترمیم ہونی چاہئے تاکہ شہری آزادی کی سچے معنوں میں حفاظت ہو سکے۔ قانونی ترامیم کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت میں سے 'پولیس راج‘ کو الوداع کہا جائے۔
تعلیم اور علاج دونوں سستے اور آسان ہوں
وارانسی میں ''اکھل بھارتیہ شکشا‘‘ سیمینار میں بولتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انگریزوں کے نوآبادیاتی تعلیمی نظام پر دو ٹوک تنقید کی اور بھارت بھر کے ماہرین تعلیم سے درخواست کی کہ وہ بھارتیہ تعلیمی نظام کو تحقیق پر مبنی بنائیں تاکہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی میں تیزی آ سکے۔ جہاں تک کہنے کی بات ہے‘ مودی جی نے ٹھیک ہی بات کہی ہے لیکن موجودہ وزیراعظم اور پچھلے سبھی وزرائے اعظم سے کوئی پوچھے کہ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں کون سے ضروری اور انقلابی بدلاؤ کیے ہیں؟ پچھلے 75 سالوں میں بھارت میں تعلیم کا ڈھانچہ وہی ہے جو تقریباً 200 سال پہلے انگریزوں نے بھارت پر تھوپ دیا تھا۔ ان کی تعلیم کا مقصد صرف جی حضور بابوؤں کی جماعت کھڑی کرنا تھا۔ آج بھی وہی ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نیتا لوگ اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ ملک کے کتنے ہی نیتا ایسے ہیں جنہیں صرف ڈگری ہولڈر کہا جا سکتا ہے، ان میں سے کتنے سچ مچ کے پڑھے لکھے اور دانشور ہیں؟ اسی لیے وہ نوکر شاہوں کی نوکری کرنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے نوکر شاہ بھی انگریز کی ٹکسال کے ہی سکے ہیں۔ وہ سیوا نہیں‘ حکومت کے لیے کرسی پکڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں رسمی جمہوریت تو قائم ہے، لیکن اصلیت میں استعمار ہمارے حصوں میں رچ بس گیا ہے۔ وزیراعظم مودی فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے راج میں ہسپتالوں کی تعداد 70 فیصد بڑھ گئی ہے لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ ان ہسپتالوں کی حالت کیا ہے اور ان میں کن لوگوں کو علاج کی سہولت ہے؟ انگریز کا بنایا ہوا یہ طبی نظام اگر فائدہ مند ہے تو قبول ضرور کیا جانا چاہئے لیکن کوئی یہ بتائے کہ آیوروید، نیچرو پیتھی، ہومیو پیتھی، حکمت، یونانی نظام طب کی 75 سال میں کتنی ترقی ہوئی ہے؟ ان میں ریسرچ کرنے اور ان کی لیبارٹریوں پر سرکار نے کتنی توجہ دی ہے؟ پچھلے سو سال میں مغربی ایلوپیتھی نے ریسرچ کے ذریعے اپنے آپ کو بہت آگے بڑھا لیا ہے اور اس کے مقابلے میں تمام روایتی ادویات بے کار ہو گئی ہیں۔ اگر ہماری سرکاریں تعلیم اور علاج کی ریسرچ پر زیادہ توجہ دیں اور ان دو بنیادی کاموں کو اپنی زبان کے ذریعے سے مکمل کریں تو اگلے کچھ ہی سالوں میں بھارت دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر تعلیم اور علاج‘ دونوں شعبے سستے اور قابل رسائی ہوں تو ملک کے کروڑوں لوگ روزمرہ کی ٹھگی سے تو بچیں گے ہی‘ ہمارا ملک جلد ہی سپرپاور اور ترقی یافتہ بھی بن جائے گا۔ دنیا میں جو بھی 8‘ 10 قومیں طاقتور اور خوشحال مانی جاتی ہیں۔ اگر باریکی سے آپ ان کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پچھلے 100سالوں میں ہی وہ ویسے بنی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تعلیم اور اپنے علاج کے نظام پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔