آج کل بھارتی ٹی وی چینلوں اور کچھ نیتاؤں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے وہ ایسے موضوعات کو طول دینے لگے ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ جیسے بھاجپا ترجمان نے بعض مقدس ہستیوں کے بارے میں زبان درازی کی۔ اور اب کینیڈا میں بنی فلم ''کالی‘‘کو لے کر بھارت کا کتنا وقت برباد ہو رہا ہے۔ تقریباً تمام بھارتیہ ٹی وی چینلز دن بھر اسی طرح کے مدعوں پر پارٹی ترجمانوں اور بڑبولے سطحی مقرروں کو بلا کر ان کا دنگل دکھاتے رہتے ہیں۔ ان بحثوں کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ یعنی ٹی آر پی میں اضافہ کریں۔ ان بحثوں میں شامل لوگ ایک دوسرے کی بات کاٹنے کیلئے نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے کروڑوں ناظرین کا گیان بڑھے۔ ملک کے متعدد متفکر اور سنجیدہ مزاج کے لوگ ان بحثوں کو دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ ٹی وی دیکھنے سے اوب جاتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ان بحثوں کو دیکھنا اپنا وقت ضائع کرنا ہے لیکن عام آدمیوں پر ایسی بحثوںکا کیسا برا اثر پڑتا ہے‘ یہ آج کل ہم زوروں پر دیکھ رہے ہیں۔ کبھی انہیں لگتا ہے کہ فلاں بولنے والے نے فلاں کی توہین کر دی ہے تو فلاں نے فلاں چیزوں کے بارے میں سخت قابلِ اعتراض بات کہہ دی ہے اور فلاں نے اپنی فلاں بات سے دھرم کی شبیہ چوپٹ کر دی ہے۔ اگر ایسا کسی مذہبی نیتا کے ذریعے ہوا ہے تو پھر آپ کیا پوچھتے ہیں؟ سارے ملک میں مظاہروں، جلوسوں اور تشدد کا ماحول بن جاتا ہے۔ ہماری سبھی پارٹیوں کے نیتاؤں کی سیاست چمکنے لگتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف تیزابی بیان جاری کرتے رہتے ہیں بلکہ پولیس تھانوں میں رپورٹیں بھی لکھواتے ہیں۔ عدالتوں میں مقدمے دائر کر دیتے ہیں اور کچھ سر پھرے لوگ قتل و غارت گری پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ دیوی دیوتاؤں یا مہاپرشوں کے خلاف کہی گئی کچھ اوٹ پٹانگ باتوں کی وجہ سے ان کا وقار مجروح نہیں ہو سکتا۔ کیا ان کے تئیں صدیوں سے چلی آ رہی بھگتی کی روایت ان چلتے پھرتے تبصروں کی وجہ سے ختم ہو سکتی ہے؟ کچھ لوگوں نے اسے باقاعدہ دھندہ بنا لیا ہے۔ کسی کے لفظوں کا چنائو غلط ہو جائے یا وہ اپنی بات کو ڈھنگ سے کہہ نہ سکے تو لوگ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ کسی کی غلط بات پر اسے سمجھانا‘ بجھانا تو دور کی بات‘ لوگ اس کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں ہر بار معاملہ غلط ہی ہو۔ کبھی اسے سمجھنے میں بھی غلط ہو سکتی ہے۔ اور بندوق سے معاملہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔ میں تو سوچتا ہوں کہ بحث کا جواب بندوق سے نہیں‘ بحث سے دیا جانا چاہئے لیکن اس کے لیے برداشت اور مباحثے کا ماحول ہونا چاہیے۔ اختلافِ رائے کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے اور یہ مان کر چلنا چاہیے کہ جب سے انسان اس دھرتی پر آئے ہیں‘ اختلاف رائے بھی ساتھ ہی آیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ دو مختلف انسان ایک چیز سے متعلق ایک ہی رائے رکھتے ہوں۔ رائے کا اختلاف پایا جانا ایک عام اور انسانی سماج کی معمولی اور کھلی حقیقت ہے۔ زور زبردستی اور بندوق‘ ڈنڈے کے زور پر منوائی گئی بات کس کام کی اگر دل ہی صاف نہیں؟ لیکن آج کل ہمارے یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بہت سی باتوں‘ جن پر بات کی جانی چاہیے، بحث و مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ معاملہ سدھار کی طرف بڑھ سکے‘ ان پر بات کرنے پر ہی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں کھلی بحث پر پابندی لگ گئی تو یہ دنیا کا لیڈر بننے کا دعویدار ملک کسی لیڈر کا فالوور بننے کے لائق بھی نہیں رہے گا۔ ہندوستان تو ہزاروں سالوں سے 'شاسترارتھوں‘ اور کھلی بحثوں کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ اتفاق و اختلاف‘ ترک وترک اور بحث و مباحثہ تو چلتے ہی رہنا چاہئے۔ جرمن فلسفی ہیگل اور کارل مارکس بھی بحث مباحثہ اور ہم آہنگی کے پرچارک تھے۔ انسانوں میں تو اختلافات رہتا ہی ہے بس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ من بھید نہ رہے یعنی اختلاف مخاصمت میں نہ بدل جائے۔
صدارتی انتخاب: کہاں ہے اپوزیشن اتحاد؟
اب اودھو ٹھاکرے کی شوسینا بھی بھارتیہ صدر کے انتخاب کے لیے درو پدی مرمو کی حمایت کرے گی۔ یہ اپنے آپ میں ایک خبر ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس بھاجپا کی وجہ سے ٹھاکرے کی سرکار چلتی بنی‘ اسی بھاجپا کے امیدوار کی حمایت انہیں کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حمایت انہوں نے مجبوری میں نہیں کی ‘پہلے بھی انہوں نے پرتیبھا پٹیل اور پرناب مکھرجی کی حمایت کی تھی حالانکہ یہ دونوں کانگرس کے امیدوار تھے اور شوسینا بھاجپا کے ساتھ گٹھ بندھن میں تھی۔ اودھو ٹھاکرے کی یہ دلیل مضبوط دکھائی پڑتی ہے لیکن اس بار دو وجوہات سے‘ جو پہلے آزادی تھی وہ اب شرمناک مجبوری بن گئی ہے۔ پہلی یہ کہ اس بار بھاجپا نے شیو سینا کو حکومت سے بے دخل کر دیا ہے پھر بھی یہ اس کے امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔ دوسری بات شیو سینا کے ممبرانِ اسمبلی میں سے زیادہ تر نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ بہر صورت دروپدی مرمو کی حمایت کریں گے۔ اگر ٹھاکرے اپنے ایم پیز کی بات نہیں مانتے تو انہیں معلوم تھا کہ وہ سب دل بدل کر بھاجپا میں شامل ہو جاتے۔ اپنی بچی کھچی پارٹی کو بچائے رکھنے کیلئے یہی وقت کا تقاضا تھا۔ اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ دروپدی مرمو یہ انتخاب بہ آسانی جیت جائیں گی اور یشونت سنہا ہار جائیں گے۔ 64 سالہ دروپدی مرمو ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ ان کا تعلق ریاست اڑیسہ سے ہے اور وہ ریاستی گورنر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔ ماضی میں وہ ٹیچر رہ چکی ہیں اور اگر وہ بھارت کی صدر منتخب ہوجاتی ہیں تو وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی آدی واسی (قبائلی) رہنما ہوں گی۔ دوسری طرف یشونت سنہا اٹل بہاری واجپائی کی بھاجپا حکومت میں سینئر وزیر کے طور پر کام کر چکے ہیں مگر اب وہ بھاجپا اور مودی حکومت کے سخت ناقد ہیں۔ اسی طرح اس عہدے پر اپوزیشن نے فاروق عبداللہ اور گاندھی جی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی کو بھی نامزد کرنے کی پیشکش کی تھی مگر ان دونوں نے معذرت کر لی۔ صرف ٹھاکرے کی شوسینا ہی نہیں‘ کئی راجیوں کی صوبائی پارٹیاں بھی اب کھل کر مرمو کی حمایت میں آ گئی ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی، دیوے گوڑا کا جنتا دَل، اکالی دَل اور جھارکھنڈ کی جے ایم ایم بھی بھاجپا کے امیدوار کی حمایت کرے گی۔ تلنگانہ راشٹر سمتی نے یشونت سنہا کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن اوڈیشہ کی پٹنایک سرکار مرمو کی حمایت کرے گی۔ کوئی حیرانی نہیں کہ 'عاپ‘ کے نیتا بھی مرمو کی حمایت کر دیں کیونکہ کانگریس کے ساتھ ان کی پنجاب اور دہلی میں تگڑی لڑائی ہے۔ جہاں تک ممتاز بینر جی کی ترنمول کانگرس کا سوال ہے‘ یشونت سنہا اسی کے عہدیدار تھے اور ممتا نے ہی سنہا کو صدر کے عہدے کے لئے آگے بڑھایا تھا لیکن ان کی ٹکر میں ایک آدی واسی اور وہ بھی ایک خاتون کو دیکھ کر ان کی الجھن زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ ایک تو وہ خود خاتون ہیں اور دوسرا، ترنمول کانگرس کے 5 ممبران آدی واسی ہیں۔ مغربی بنگال کی تقریباً 40 سیٹیں ایسی ہیں جن میں آدی واسی ووٹروں کے ووٹ ہی امیدواروں کو کامیاب بناتے ہیں۔ ایسے میں ممتاز بینر جی کا ڈھیلا پڑنا سمجھ میں آتا ہے۔ اسی لیے وہ یشونت سنہا سے بنگال یاترا کی درخواست بھی نہیں کر رہیں۔ ممتا بینر جی کے اس بیان سے بھی ان کی مشکل جھلکتی ہے کہ اگر بھاجپا چاہتی تو دروپدی مرمو کے نام پر کل جماعتی اتفاق رائے ہو سکتا تھا۔ یشونت سنہا بھی جانتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر صدر کا چناؤ نہیں جیت پائیں گے، لیکن اتنے اہل امیدوار کے بہانے اپوزیشن جو اپنا اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے‘ اب وہ بھی دور کی کوڑی معلوم پڑ رہی ہے۔