"DVP" (space) message & send to 7575

سری لنکا کے مسائل اور بھارتی عزائم

سری لنکا کے صدر گوتابایا راجہ پاکسے نے اعلان کیا تھا کہ وہ 13جولائی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں گے لیکن پھر وہ سری لنکا سے بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔ پہلے کسی کو بھی ٹھیک سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں گئے۔ کبھی کہا جا رہا تھا کہ وہ مالدیپ پہنچ گئے ہیں اور اب وہاں سے وہ ملائیشیا یا دبئی میں پناہ لیں گے؛ تاہم اب ان کی سنگاپور میں موجودگی کی اطلاعات کنفرم ہو گئی ہیں۔ وہ سری لنکا کے جھمیلے سے بے خبر سنگاپور میں اپنی فیملی کے ساتھ سیر اور شاپنگ کرتے پائے گئے۔ انہوں نے سنگاپور سے ای میل پر اپنا استعفیٰ بھی بھیج دیا ہے۔ ادھر سری لنکا میں وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے اپنے آپ قائم مقام صدر بن گئے ہیں۔ انہیں کس نے عبوری صدر بنایا‘ یہ بھی پتا نہیں چلا۔ ویسے مانا جا رہا تھا کہ انہوں نے بھی وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ کہاں سے راج چلا رہے ہیں‘ یہ بھی نہیں بتایا گیا۔ وکرما سنگھے نے بطور عبوری صدر حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ حکمران جماعت کی جانب سے ان کی بھرپور حمایت کے باعث اس وقت وکرما سنگھے نئے صدر کے انتخاب میں بھی فیورٹ امیدوار بتائے جا رہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ مظاہرین کو بھی قبول ہیں یا نہیں۔ صدر کے سرکاری گھر پر اس وقت جنتا نے قبضہ کر رکھا ہے جبکہ رانیل وکرما سنگھے کے نجی گھر کو بھی لوگوں نے جلا ڈالا ہے۔ رانیل وکرما سنگھے کو سری لنکا میں کون قائم مقام صدر کے طور پر قبول کرے گا؟ اب تو سری لنکا کی پارلیمنٹ ہی صدر کا چناؤ کرے گی لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ کی قیمت ہی کیا رہ گئی ہے؟ راجہ پاکسے کی پارٹی کی اکثریت والی پارلیمنٹ کو اب سری لنکا کے عوام کیسے برداشت کریں گے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وکرما سنگھے کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے اور وہ راجہ پاکسے کے جانے مانے حامی ہیں۔ نئے صدر اور وزیر اعظم کو راجہ پاکسے کا حمایتی نہیں ہونا چاہیے۔ وکرما سنگھے سری لنکا کے سینئر سیاست دان ہیں جو چھ بار وزیراعظم رہ چکے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی وہ اپنی مدت پوری نہیں کر پائے۔ دوسری جانب اپوزیشن کے نیتا سجت پریم داس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اگلے صدر کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں لیکن 225 ممبران کی پارلیمنٹ میں راجہ پاکسے کی حکمران پارٹی کی 145سیٹیں ہیں اور پریم داس کی پارٹی کی 54 سیٹیں ہیں۔ اگر پریم داس کو تمام اپوزیشن پارٹیاں اپنی حمایت دے دیں تب بھی وہ اکثریت سے صدر نہیں بن سکتے۔ سجت کافی منہ پھٹ نیتا ہیں۔ ان کے والد سنگھ پریم داس بھی سری لنکا کے وزیراعظم رہے ہیں۔ ان کے ساتھ یاترا کرنے اور بات چیت کرنے کا موقع مجھے کولمبو اور انورادھ پورہ میں ملا ہے۔ وہ بھارت کے شدید مخالف تھے۔ اس وقت سب کو معلوم ہے کہ بھارت کی مدد کے بغیر سری لنکا کی ترقی مشکل ہے۔ اگر سجت پریم داس پُرسکون رہیں گے اور حکمران پارٹی کے 42 باغی ایم پیز ان کا ساتھ دینے کو تیار ہو جائیں گے تو وہ صدر کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن صدر بدلنے پر سری لنکا کے حالات بدل جائیں گے‘ یہ سوچنا بھی بے بنیاد ہے۔ سب سے بڑی حیرانی یہ ہے کہ ان برے دنوں میں سری لنکا کی بھرپور مدد کے لیے چین آگے کیوں نہیں آ رہا؟ راجہ پاکسے کا خاندان تو پوری طرح سے چینی کیمپ میں شامل ہو گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین کی وجہ سے ہی سری لنکا غیر ملکی قرض میں ڈوبا ہے۔ چین کی وجہ سے امریکا نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن بھارت سرکار کا رویہ بہت مختلف ہے۔ وہ کولمبو کو ڈھیروں اناج اور ڈالر بھجوا رہا ہے۔ بھارت جو کر رہا ہے‘ وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی طور پر بھی ذرا سرگرمی دکھائی جائے۔ جیسے اس نے سنہالی اور تامل تنازع ختم کرانے میں سرگرمی دکھائی تھی۔ اس وقت بھارت کولمبو میں ایک ہمہ گیر سرکار بنوانے کی کوشش کرے گا تو وہ سچ مچ ایک اچھے پڑوسی کا کردار نبھائے گا۔ ذرا یاد کریں کہ اندرا جی نے 1971ء میں وزیراعظم شری مائو بھنڈار نائیکے کی درخواست پر ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے بچانے کے لیے راتوں رات کیرالا سے اپنی فوجیں کولمبو بھیج دی تھیں اور راجیو گاندھی نے 1987ء میں بھارت کی امن فورس کے دستے کولمبو بھیجے تھے۔
غیر پارلیمانی الفاظ: بحث فضول ہے
پارلیمنٹ کے بھاشنوں میں کون کون سے الفاظ کا استعمال ایم پیز کر سکتے ہیں اور کون سے نہیں‘ میری نظر میں یہ بحث ہی فضول ہے۔ قابلِ اعتراض الفاظ کیا ہو سکتے ہیں‘ ان کی فہرست 1954ء سے اب تک بھارت کا لوک سبھا سیکرٹریٹ کئی بار شائع کرتا رہا ہے۔ اس بار پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں الفاظ کے استعمال کے حوالے سے جو نئی رہنما ہدایات جاری کی گئی ہیں یا جو نئی فہرست چھپی ہے اسے لے کر کانگرس کے نیتا الزام لگا رہے ہیں کہ اس فہرست میں ایسے الفاظ کی بھرمار ہے جو وزیراعظم نریندر مودی اور بھاجپا کے لیے اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے استعمال کیے جاتے ہیں‘ جیسے اہنکاری، تانا شاہی وغیرہ۔ دوسرے الفاظ میں پارلیمنٹ تو پورے بھارت کی ہے لیکن اب اسے بھاجپا اور مودی کی نجی پارٹی کی شکل دی جا رہی ہے۔ اپوزیشن نیتاؤں کا یہ الزام بالکل صحیح سا لگتا ہے لیکن اس میں کسی قدر مبالغہ آرائی بھی ہے۔ بھارت کی لوک سبھا کے سپیکر اوم بڑلا نے صاف صاف کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں بولے جانے والے کسی بھی لفظ پر پابندی نہیں ہے۔ تمام الفاظ بولے جا سکتے ہیں لیکن سپیکرز جن الفاظ اور جملوں کو قابل اعتراض سمجھیں گے انہیں وہ کارروائی سے ہٹوا دیں گے۔ اگر ایسا ہے تو ان الفاظ کی فہرست جاری کرنے کی کوئی تُک نہیں ہے کیونکہ ہر لفظ کا مطلب اس کے آگے پیچھے کے تناظر کے ساتھ ہی واضح ہوتا ہے۔ اس معاملے میں سپیکر کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے۔ کوئی لفظ توہین آمیز یا قابلِ اعتراض ہے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ نہ تو کوئی کمیٹی کرتی ہے اور نہ ہی یہ ووٹنگ سے طے ہوتا ہے۔ کئی الفاظ کے ایک نہیں متعدد معنی ہوتے ہیں۔ 17ویں صدی کے عظیم شاعر بھوشن کی نظموں میں ایسے متعدد الفاظ کا استعمال دیکھنے لائق ہے۔ بھاشن دیتے وقت مقرر کی منشا کیا ہے‘ اس پر منحصر ہے کہ اس لفظ کا مطلب کیا لیا جانا چاہئے۔ اسی بات کو سپیکر اوم بڑلا نے دہرایا ہے۔ ایسی پوزیشن میں روزانہ استعمال ہونے والے سینکڑوں الفاظ کو قابلِ اعتراض کے زمرے میں ڈال دینا کہاں مناسب ہے؟ پارلیمانی بحث میں حصہ لیتے ہوئے اب ارکان جملہ جیوی، شکونی،لالی پاپ، چنڈال چوکڑی، گل کھلائے، پٹھو اور کورونا سپریڈر جیسے الفاظ کا استعمال بھی نہیں کر سکیں گے۔ ایسے الفاظ کا استعمال غیر اخلاقی قرار دیا جائے گا اور انہیں ایوان کی کارروائی سے حذف کر دیا جائے گا۔ کتابچے کے مطابق لوک سبھا سیکرٹریٹ نے نکما، نوٹنکی، ڈھنڈورا پیٹنا اور بہری سرکار جیسے الفاظ کو بھی غیر پارلیمانی زبان میں شامل کیا ہے۔ بدسلوکی، دھوکا دہی، ڈرامہ اور نااہل جیسے الفاظ کو بھی غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسی طرح پٹھو، اُچکا، گل کھلائے، سانڈ، انٹ شنٹ، تلوے چاٹنا وغیرہ جیسے الفاظ ہیں۔ خونریزی، خونیں، خیانت، شرمندہ، بدسلوکی، چمچہ گیری، چیلا، بچکانہ پن، کرپٹ، بزدل، مجرم، مگرمچھ کے آنسو، توہین، گدھا، ڈرامہ، غنڈہ گردی، منافقت، نااہل، گمراہ کن، جھوٹ، انارکسٹ، غدر، گرگٹ، کالا دن، کالا بازاری، خرید و فروخت، فساد، داداگیری، بیچارہ، بے حس، بے وقوف اور جنسی ہراسانی جیسے الفاظ کو بھی غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی تو مشہور و معروف محاورے ہیں۔ اگر پارلیمانی سیکرٹریٹ کی طرف سے قرار دیے گئے ان نام نہاد قابلِ اعتراض الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے تو پارلیمنٹ میں کوئی بھی بھاشن پورا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے میری نظر میں اتنے سارے الفاظ کی لسٹ جاری کرنا بے معنی ہے۔ ہاں! یہ کہا جا سکتا ہے کہ سارے ایم پیز اپنے بھاشنوں میں روایات اور شائستگی بنائے رکھیں۔ کسی کے خلاف گالی گلوچ، توہین آمیز اور فحش الفاظ کا استعمال نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں