"DVP" (space) message & send to 7575

جاپان کے سابق وزیراعظم کا افسوسناک قتل

جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے کے قتل پر دنیا بھر کے نیتاؤں نے جس طرح رد عمل کا اظہار کیا ہے‘ ویسا ردعمل کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ بھارت نے تو ان کے بہیمانہ قتل پر ہفتے کے روز قومی یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ گولی مار کر ان کی ہتھیا کرنا یوں بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ جاپان میں اسلحے پر قابو پانے کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے سخت قوانین لاگو ہیں اور ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں آتشیں اسلحے سے ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد نہایت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2014ء میں جاپان میں بندوق سے ہلاکتوں کے صرف چھ واقعات پیش آئے جبکہ امریکا میں ایسے واقعات کی تعداد 33 ہزار 599 تھی۔ بندوق کا لائسنس حاصل کرنا جاپانی شہریوں کے لیے ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے، اس کے حصول کے لیے شہریوں کو پہلے شوٹنگ ایسوسی ایشن سے سفارش حاصل کرنی ہوتی ہے اور پھر سخت پولیس چیکنگ سے گزرنا ہوتا ہے۔لوگوں کو سخت امتحان اور دماغی صحت کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سب کے بعد بھی صرف شاٹ گن اور ایئر رائفل کی اجازت ملتی ہے۔ اب تک کئی غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم کے قتل کی خبریں آ تی رہی ہیں لیکن شنزو آبے کے قتل پر بھارت کا ردعمل غیر معمولی رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آبے ایسے پہلے جاپانی وزیراعظم تھے جنہوں نے چار بار بھارت کا دورہ کیا۔ ان کے دادا نوبوشکے کشی بھی جاپان کے وزیراعظم رہے اور 1957ء میں بھارت کے وزیراعظم نہرو کی دعوت پر بھارت آئے۔ آبے نے ہی پہلی بار مشرقِ بعید یا مشرقی ایشیا کے خطے کو انڈو پیسفک کہا تھا۔ یہ بات انہوں نے اپنی 2007ء کی بھارت یاترا کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں بھاشن دیتے ہوئے کہی تھی۔ جب وہ دوبارہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے پہل کرکے اس نئے اور اصل تصور کو عملی جامہ پہنایا۔امریکا، بھارت ، جاپان اور آسٹریلیا کا جو چوگٹا (کواڈ) بنا ہے وہ انہی کی وجہ سے ہے۔ بھارت اور جاپان کے درمیان تجارتی، سٹریٹیجک اور ثقافتی تعلقات جتنے مضبوط آبے کے دورِ حکومت میں ہوئے‘ پہلے کبھی نہیں تھے۔ بھارت اور جاپان کے تعلقات کبھی کشیدہ نہیں رہے لیکن قربت کے درمیان ایک دیوار تھی اس کو ہٹانے کا کریڈٹ اس وقت کے بین الاقوامی حالات کے ساتھ ساتھ آبے کو بھی جاتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران جاپان تو امریکی دھڑے کا سرگرم ممبر رہا اور بھارت کو سوویت گروپ کا غیر سرکاری ساتھی مانا جاتا تھا۔ اس تنگ گلی سے جاپان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات کو شنزو آبے نے ہی باہر نکالا۔ جاپان کے ساتھ بھارت کے تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔جاپانی کمپنیوں کی بھارت میں سرمایہ کاری تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ جاپان کی مدد سے ہی بھارت کی سب سے تیز چلنے والی ریل بن رہی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور آبے کے تعلقات ایسے ہو گئے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کے دیشوں میں کئی بار آئے اورگئے۔ یوں بھی آبے جاپانی وزرائے اعظم میں سب سے منفرد اور غیر معمولی تھے۔ ان کے دادا جاپان کے وزیراعظم تھے تو ان کے والد وزیر خارجہ رہے۔ وہ خود دو بار وزیراعظم چنے گئے۔ انہوں نے پہلی بار 2006ء سے 2007ء تک اور دوسری بار 2012ء سے 2020ء تک وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کو سنبھالاتھا۔ اتنے لمبے وقت تک کوئی جاپانی نیتا اس عہدے پر نہیں رہا۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ جاپان کو سچی آزادی اور خودمختار ملک بنانے کی کوششیں تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کی زیادتیوں کی وجہ سے جاپانی آئین پر جو فوجی بندھن لگائے تھے انہیں توڑنے کے لیے سب سے طاقتور ضرب آبے نے ہی لگائی تھی۔ اس کام میں انہیں پوری کامیابی نہیں مل پائی لیکن دیگر اقوام کے ساتھ عسکری تعاون کی کئی جہتیں انہوں نے پہلی بار کھول دیں۔ 1904میں بگڑے جاپان‘ روس تعلقات کو بھی وہ سدھارنا چاہتے تھے۔ انہوں نے چین کے خلاف مورچہ بندی کی تو اس کے ساتھ ہی وہ چین اور جاپان کے آپس کے تعلقات کو مضبوط بنائے رکھنے میں بھی کامیاب رہے۔ ایسے عالمی لیڈر کو میری طرف سے خراجِ تحسین۔
کجریوال کے غیر ملکی سفر پر پابندی کیوں؟
دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو بیرونِ ملک جانے سے مرکزی سرکار نے روک رکھا ہے۔ پچھلے سوا مہینے سے ان کی عرضی گورنر کے دفتر میں اٹکی پڑی ہے۔ پہلے انہیں متعلقہ گورنر کی اجازت لینا پڑے گی اور پھر وزارتِ خارجہ کی۔ کسی بھی ریاست کے چیف منسٹر کو یہ عرضی کیوں دینی پڑتی ہے؟ کیا وہ کوئی جرم کر کے ملک سے فرار ہونے کی فراق میں ہے؟ کیا وہ بیرونِ ملک جا کر بھارت کی کوئی بدنامی کرنے والا ہے؟ کیا وہ ملک کے دشمنوں کے ساتھ بیرونِ ملک کوئی سازش رَچنے والا ہے؟ کیا وہ اپنے کالے دھن کو چھپانے کی وہاں کوئی کوشش کرے گا؟ آج تک کسی چیف منسٹر پر بیرونِ ملک جانے پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں لگا۔ خود نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے کئی ملکوں میں جاتے رہے ہیں۔ کانگرس کی مرکزی سرکار نے ان کے غیر ملکی دوروں میں کبھی کوئی ٹانگ نہیں اڑائی۔ تو اب ان کی سرکار نے کجریوال کی سنگاپور یاترا پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ انہیں اگست کے پہلے ہفتے میں سنگاپور جانا ہے۔ کیوں جانا ہے؟ اس لیے نہیں کہ انہیں اپنے پریوار کو موج مستی کرانی ہے۔ وہ جا رہے ہیں دنیا میں دہلی کا نام چمکانے کے لیے۔ وہ ''ورلڈ سٹیز کانفرنس‘‘ میں بھارت کے دارالحکومت دہلی کی نمائندگی کریں گے۔ دہلی کا نام ہوگا تو کیا بھارت کی شہرت نہیں بڑھے گی؟ 2019ء میں بھی ہماری وزارتِ خارجہ نے کجریوال کو کوپن ہیگن میں ہونے والے عالمی میئرز کے اجلاس میں نہیں جانے دیا تھا جبکہ اس اجلاس میں پہلے‘ پندرہ سال تک دہلی پر راج کرنے والی سابق وزیراعلیٰ شیلا دیکشت نے شاندار طریقے سے حصہ لیا تھا۔ شیلاجی نے دنیا بھر کے ممتاز میئروں کو بتایا تھا کہ انہوں نے دہلی کو کس طرح نئی شکل میں سنوار دیا ہے۔ اسی کام کو اروند کجریوال اور منیش سِسودیا نے چار چاند لگا دیے۔ امریکی صدر کے دورۂ بھارت کے دوران ان کی اہلیہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی ان کاموں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ دہلی کے ہسپتالوں، سکولوں، سڑکوں، محلہ کلینکوں، سستی بجلی اور پانی وغیرہ کے منصوبوں نے کجریوال کی 'عاپ سرکار‘ کو اتنا وقار بخشا ہے کہ پچھلے چناؤ میں کانگرس اور بھاجپا کا انہوں نے بالکل صفایا کر دیا۔ مرکزی سرکار اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ وہ گورنر کے ذریعے دہلی سرکار کو جتنا تنگ کرے گی‘ دہلی کے عوام کے درمیان وہ اتنی ہی غیر مقبول ہوتی چلی جائے گی۔ مرکزی سرکار کی یہ احتیاط مناسب ہے کہ ملک کا کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار بیرونِ ملک جا کر کوئی قابلِ اعتراض کام یا بات نہ کرے۔ اس کے لیے یہ ضروری کیا جا سکتا ہے کہ وزارتِ خارجہ انہیں ہدایات دے اور ان کی رہنمائی کرے۔ ویسے تو سارے نیتا اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اپنی غیر ملکی یاتراؤں کے دوران تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران دیے گئے بھاشنوں میں کبھی کسی سرکار یا مخالف کی مذمت نہیں کی جبکہ بھارت میں رہتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں بخشا۔ مودی سرکار یہ مان کر کیوں چل رہی ہے کہ اگر ا س کا کوئی اپوزیشن رہنما بیرونِ ملک جائے گا تو اس کی بدنامی ہی کرے گا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو بھی سرکار کے پاس اس کو راہِ راست پر لانے کے کئی طریقے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات میں ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ بیرونِ ملک ہر بڑے نیتا کے پیچھے جاسوس لگائے جاتے ہیں! مجھے یقین ہے کہ مرکزی سرکار اور گورنر صاحب اروند کجریوال کو سنگاپور یاترا کی اجازت بہت جلد دے دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں