سوشل میڈیا کی مشہور کمپنی ٹویٹر نے یہ کہہ کر عدالت کی پناہ لی ہے کہ بھارت سرکار اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ ٹویٹر پر جانے والے کئی پیغامات کو روک دیا جائے یا ہٹا دیا جائے۔ امریکی کمپنی نے بنگلور میں واقع کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے، جس میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد کو ہٹانے کے لیے بھارت سرکار کی طرف سے دیے گئے احکامات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ ٹویٹر اور مودی سرکار کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی میں ایک نئی پیش رفت ہے۔سرکار نے گزشتہ کسان تحریک کے دوران جب ایسی مانگ کی تھی‘ تب کئی ایسے پیغامات کو ہٹایا بھی گیا تھا لیکن ٹویٹر نے کئی نیتاؤں اور صحافیوں کے بیانات کو ہٹانے سے منع کر دیا تھا۔ جون 2022ء میں مودی سرکار نے پھر کچھ پیغامات کو لے کر اسی طرح کے احکامات جاری کیے تھے لیکن ابھی یہ ٹھیک ٹھیک پتا نہیں چلا کہ وہ قابلِ اعتراض پیغامات کون کون سے ہیں۔ کیا وہ ججوں کے من مانے تبصرے ہیں یا نیتاؤں کے بے تکے بیانات ہیں یا عام لوگوں کی اناپ شناپ رائے پر مبنی تجزیے ہیں۔ سرکاری اعتراضات کو ٹویٹر کمپنی نے اظہارِ رائے کی آزادی کی خلاف ورزی بتایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سرکار کو زیادہ تر اعتراض اپوزیشن نیتاؤں کے بیانوں پر ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کا کہنا ہے کہ سرکار ایسے تمام پیغامات کو ہٹوانا چاہتی ہے جو سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور انہیں تشدد کیلئے بھڑکاتے ہیں۔ ویشنو کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواہ کوئی بھی کمپنی، کسی بھی سیکٹر میں کام کرتی ہو، اسے بھارت کے قوانین کی پابندی کرنی ہی ہو گی۔ سرکار نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ معاہدے کے باوجود ٹویٹر اور دوسری سوشل میڈیا کمپنیوں نے متنازع پوسٹوں کو ہٹانے کی حکومتی درخواست پر عمل نہیں کیا۔ معلوم نہیں کرناٹک ہائیکورٹ اس معاملے میں کیا فیصلہ لے گی لیکن اصولی طور پر پر اشونی ویشنو کی بات صحیح لگتی ہے،دوسری طرف کمپنی کا موقف یہ ہے کہ جن لوگوں کے مواد کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے، انہیں مناسب نوٹس نہیں دیا جا رہا ہے جبکہ کچھ مواد کو بلاک کرنا، مثلاً سیاسی جماعتوں کے ٹویٹس کو ہٹانا اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہ بالکل درست اعتراض ہے کہ سرکار اپنے طور پر کیسے طے کرے گی کہ کون سا پیغام صحیح ہے اور کون سا غلط؟ افسروں کی ایک کمیٹی کو یہ حق دیا گیا ہے لیکن ایسے کتنے افسر ہیں جو وزرا کی ہدایات کو صوابدید پر تولنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ ہر پیغام کی غیر جانبداری سے جانچ کریں گے لیکن آخری فیصلہ کرنے کا حق اسی کمیٹی کو ہونا چاہئے جس پر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ سب کو بھروسہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ سماجی میڈیا جہاں ساری دنیا کے لوگوں کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوا ہے وہیں اس کے منفی پیغامات نے بڑے بڑے کہرام بھی مچائے ہیں۔ آج کل بھارت میں چل رہے توہین آمیز تنازعات اور قتل کے واقعات کو اسی کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ تمام انٹرنیٹ پیغامات اور ٹی وی چینلوں پر سخت نگرانی کی جائے تاکہ حدود و قیود کی خلاف ورزی کوئی بھی نہ کر سکے۔ سماجی میڈیا اور ٹی وی چینلز پر چلنے والے غیر مہذب پیغامات کی وجہ سے آج بھارت کے عوام پریشان ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ یورپ مشتعل ہے۔ اسی لیے یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے ابھی حالیہ دنوں میں دو ایسے قانون پاس کیے ہیں جن کے تحت گوگل، ایمازون، ایپل، فیس بک اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیاں اگر اپنے فورمز سے مروجہ روایات سے انحراف کریں تو ان کی کل سالانہ آمدنی کی 10 فیصد رقم تک کا جرمانہ ان پر عائد کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے قانون ان سب خلاف ورزیوں پر لاگو ہوں گے جو مذہب، رنگ، ذات اور سیاست وغیرہ کو لے کر ہوتی ہیں۔ بھارت سرکار کو بھی چاہئے کہ وہ اس ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے بھی سخت قانون بنائے لیکن اسے نافذ کرنے کے لیے درست طریقہ کار اختیار کرے۔
بھارت کو زبردست امریکی چھوٹ
جب بھارتیہ نژاد شہری دوسرے ممالک میں راج‘ کاج کے حصے دار ہوتے ہیں تو وہ کیسا چمتکار کردیتے ہیں۔ آج کل بھارتی نژاد رشی سوناک کے برطانیہ کے وزیراعظم بننے کی بات تو چل ہی رہی ہے لیکن امریکا کی ایوانِ نمائندگان (لوک سبھا)کے ایک بھارتیہ ممبر نے وہ کام کر دکھایا ہے جو ناممکن سا لگتا تھا۔ رو کھنہ نامی ممبر نے امریکا کے قومی ڈیفنس اتھارٹی ایکٹ کو بھارت پر نافذ ہونے سے رکوادیا ہے۔ یہ ایکٹ چین، شمالی کوریا اور ایران وغیرہ جیسے ممالک پر بڑی سختی کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس پابندی کو 'کاٹسا‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق جو بھی ریاست روس سے ہتھیار وغیرہ خریدتی ہے‘ اس سے امریکا کسی بھی طرح کا لین دین نہیں کرے گا۔ ترکی پر بھی کافی دباؤ پڑرہا ہے، کیونکہ وہ روسی میزائل خریدنا چاہتا ہے۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے‘ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ روس ہی بھارت کو سب سے بڑا ہتھیار اور دفاعی سامان فروخت کرنے والا ملک ہے مگر یہ آج سے نہیں‘ سرد جنگ کے زمانے سے ہے۔ چند مہینے پہلے ایک امریکی تھنک ٹینک نے یہ رپورٹ بھی دی تھی کہ بھارت کا 86 فیصد دفاعی ساز و سامان روس سے خرید کردہ یا روسی ساختہ ہے۔ یہ درست ہے مگر پچھلے دس سالوں سے بھارت میں ایک پالیسی شفٹ بھی آیا ہے۔ اب بھارت اپنے فوجی ساز و سامان کو مختلف ملکوں سے خریدنے کی کوشش میں ہے کیونکہ محض ایک ملک پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا اور روس‘ یوکرین جنگ میں روس پر پابندیاں لگنے سے یہ موقف بھی درست ہو چکا ہے مگر اب بھی بھارت کے فوجی انفراسٹرکچر کا دار و مدار روس پر ہی ہے۔ امریکا کے کئی دانشور اور پالیسی ساز بھارت کو روس کا پٹھو بھی کہتے رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد سے روس بھارت کو تیل بھی بڑے پیمانے پر سستی قیمتوں پر مہیا کر رہا ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود بھارت کو سب سے زیادہ تیل فروخت کرنے والے ممالک کی فہرست میں روس اب پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ روس سے رعایتی نرخوں پر تیل لینے والی بھارتیہ ریفائنری نے پچھلے مہینے میں 25 ملین بیرل تیل درآمد کیا جو بھارت کی کل تیل درآمد کا 16 فیصد ہے۔ اس سے پہلے اپریل میں روس کا حصہ پانچ فیصد تک تھا جو پچھلے پورے سال اور اس سال کے پہلے تین مہینوں میں ایک فیصد سے بھی کم تھا۔ بھارت نے امریکا سمیت مغربی ممالک پر واضح کیا ہے کہ وہ روس سے تیل خرید کر کسی عالمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہا۔ بھارتیہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت جتنا تیل روس سے مہینے بھر میں خرید رہا ہے، یورپ ایک دن سے بھی کم وقت میں اتنا خریدتا ہے۔ آج کل بھارت نے روس کے ساتھ ایس 400 میزائلوں کی خرید کا سودا کیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود رو کھنہ کی طرف سے لائی گئی تجویز امریکی ایوانِ زیریں نے زبردست اکثریت سے پاس کردی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے دبی زبان سے اس کا اشارہ دیا تھا‘ ورنہ امریکی صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی صوابدید کی بنیاد پر کسی ملک کو اس پابندی سے آزاد کر سکتا ہے۔ امریکا نے بھارت کے حق میں یہ تاریخی قدم تو اٹھایا ہی ہے مگر اس سے پہلے یوکرین کے سوال پر اس کی غیر جانبداری کا احترام بھی کیا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا اور مشرقِ بعید کے دو علاقائی اتحادوں میں بھارت اور امریکا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ 2008ء میں بھارت‘ امریکا سٹریٹیجک سودا صرف 500 کروڑ ڈالر کا تھا۔ وہ اب بڑھ کر 2000 کروڑ ڈالر کا ہوگیا ہے‘ یعنی اس میں ایک‘ ڈیڑھ دہائی میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت روس اور چین مل کر ایسی پالیسی چلا رہے ہیں جیسے وہ کسی گٹھ بندھن‘ کسی علاقائی اتحاد کے رکن ہوں۔ ایسے میں امریکا کے لیے بھارت کو ساتھ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ بھارت اور چین کے رشتوں میں جو کھٹاس پیدا ہوئی ہے‘ وہ امریکا کے لیے مزیدار چٹنی کی طرح ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان دوستی بڑھے اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے۔