"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت پلاسٹک فری کیسے ہو ؟

بھارت نے یکم جولائی سے ملک بھر میں سنگل یوز پلاسٹک کی اشیاکی تیاری‘ درآمد‘ ذخیرہ اندوزی‘ تقسیم‘ فروخت اور استعمال پر پابندی عائد تو کر دی ہے لیکن اس کا اثر کتنا ہے؟ فی الحال تو وہ برائے نام ہی ہے۔ وہ بھی اس کے باوجود کہ19 طرح کی پلاسٹک کی چیزوں میں سے اگر کسی کے پاس ایک بھی پکڑی گئی تو اس پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ اورپانچ سال کی سزا ہوسکتی ہے۔اتنی سخت دھمکی کا کوئی ٹھوس اثر دہلی کے بازاروں میں کہیں دکھائی نہیں پڑا ہے۔اب بھی چھوٹے موٹے دکاندار پلاسٹک کی تھیلیاں‘ گلاس‘ چمچ‘ کانٹے‘ پلیٹیں وغیرہ ہمیشہ کی طرح بیچ رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں کھلے عام خریدی بھی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ کیا یہی ہے کہ لوگوں کو ابھی تک پتا ہی نہیں ہے کہ پابندی کا اعلان ہو چکا ہے؟ سارے سیاست دان اپنے سیاسی اشتہاروں پر کروڑوں روپے روزانہ خرچ کرتے ہیں۔ سارے اخبار اور ٹی وی چینلز ہمارے ان سیاسی رہنماؤں کو مہانائیک بناکر پیش کرنے میں ہچکچاتے نہیں لیکن پلاسٹک جیسی جان لیوا چیز پر پابندی کا پرچار انہیں اہم ہی نہیں لگتا۔ سیاسی رہنماؤںنے قانون بنایا‘ یہ توبہت اچھا کیا لیکن ایسے سینکڑوں قانون طاق پر رکھے جاتے ہیں۔ ان قوانین کی افادیت کا اچھی طرح سے پرچارکرنے کی ذمہ داری جتنی سرکار کی ہے‘ اس سے زیادہ سیاسی پارٹیوں اور سماجی فلاح و بہبود کے اداروںکی ہے۔ ہمارے سادھو سنت‘ مولانا‘پادری وغیرہ بھی اگر کردار ادا کریں تو کروڑوں لوگ ان کی بات کو قانون سے بھی زیادہ مانیں گے۔ پلاسٹک کا استعمال ایک ایسا جرم ہے‘ جسے ہم اجتماعی قتل کہہ سکتے ہیں۔ اسے روکنا آج مشکل ضرورہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔سرکار کو چاہئے تھا کہ اس پابندی کا پرچار وہ جم کرکرتی اور پابندی لگنے کے دو تین ماہ کے اندر 19قسم کی پلاسٹک اشیا بنانے والے کارخانوں کو بند کروادیتی۔ انہیں کچھ آپشن بھی سجھاتی تاکہ بے کاری نہ پھیلے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ پلاسٹک کے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔ اب سے 70‘75سال پہلے تک پلاسٹک کی جگہ کاغذ‘ پتے‘ کپڑے‘ لکڑی‘ شیشے اور مٹی کے بنے سامان سبھی لوگ استعمال کرتے تھے۔پتوں اور کاغذی چیزوں کے علاوہ تمام چیز وںکا استعمال بار بار اور لمبے وقت تک کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیزیں سستی اور قابلِ رسائی ہوتی ہیں اور صحت پر ان کا الٹا اثر بھی نہیں پڑتا ہے‘ لیکن بھارت میں چلنے والی مغرب کی اندھی تقلید کو اب روکنا بہت ضروری ہے۔ بھارت چاہے تو اپنی مہم کے ذریعے ساری دنیا کو راستہ دکھا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے بے تحاشا استعمال نے کافی خطرہ پیدا کیا ہے۔ حکومتیں اور مختلف عالمی ریگولیٹری ادارے اسے روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر لوگ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارت میں فی کس پلاسٹک کی کھپت 11 کلوگرام ہے جبکہ پلاسٹک کی فی کس کھپت کی عالمی اوسط 28 کلوگرام ہے۔ بھارت کے مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں سالانہ 3.5 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ سی پی سی بی نے لکھنو ڈمپ سائٹس پر مٹی اور پانی کے معیار پر پلاسٹک کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے اثرات پر اپنی رپورٹ میں پایا ہے کہ پلاسٹک کے کچرے کو پھینکنے سے یہ مٹی اور زیر زمین پانی کے معیار کو خراب کر سکتا ہے۔
پھر آ گئے رانیل وکرم سِنگھے
سری لنکا کے صدارتی چناؤ میں رانیل وکرم سنگھے کی جیت پر ان کے دونوں حریف خاموش تو ہیں لیکن ان کے خلاف دارالحکومت کولمبو میں دوبارہ مظاہرے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔عام طور پر اندازہ یہ تھا کہ راجہ پاکسے خاندان کی حکمران پارٹی کے ناراض اراکین رانیل کے خلاف ووٹ دیں گے اور پارلیمنٹ کسی دوسرے سیاستدان کو صدرکے عہدے پرفائز کر دے گی‘ لیکن رانیل وکرم کو واضح اکثریت مل گئی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک تو حکمران جماعت میں دراڑ ضرور پڑی ہے‘ لیکن یہ اتنی چوڑی نہیں ہوئی کہ پارٹی امیدوار اس میں دب جائیں اور دوسرا یہ کہ وزیر اعظم رہتے ہوئے رانیل وکرم سنگھے نے پچھلے کچھ ہفتوں میں ہی بھارت اور کئی بین الاقوامی تنظیموں کو اتنا قائل کر لیا تھا کہ سری لنکا کو اربوں روپے کی مدد آنے لگی تھی۔ویسے بھی رانیل وکرم چھ بار سری لنکا کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اتنے تجربہ کار سیاستدان اب صدر بننے پر شاید سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکال لے جائیں۔ اسی یقین نے انہیں جتوایا ہے لیکن ان کا آگے کا راستہ بہت کانٹوں والا ہے۔ ایک تو سری لنکا کی ساری باغی جنتا مان کر چل رہی ہے کہ وہ راجہ پاکسے خاندان کے بھگت ہیں۔ وہ ان کے کہے کے مطابق ہی کام کریں گے۔ اس لیے اب عوام کا غصہ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوگا۔جو سیاستدان ان سے ہارے ہیں وہ عوام کو بھڑکائے بغیر نہیں رہیں گے‘ حالانکہ انہوں نے اپنی ہار کو عاجزی سے قبول کر لیا ہے۔ یہ تو بالکل واضح ہے کہ اگر صدارتی چناؤ میں سری لنکا کے عوام چاہتے تو رانیل وکرم سنگھے کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔اب دیکھنا یہی ہے کہ رانیل وکرم سنگھے سری لنکا کے موجودہ مسائل کا حل کیسے نکالتے ہیں اور عوام کے غصے کو کیسے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ پتا نہیں کہ وہ اب وزیر اعظم کسے بنائیں گے؟اگر اس وقت وہ کسی اپوزیشن رہنما جیسے سجت پریم داس کو وزیر اعظم بنا دیں تو شاید انہیں سیاسی طوفانوں کا سامنا کم ہی کرنا پڑے گا۔ سجت نے صدارتی کے چناؤ سے اپنا نام بھی واپس لے لیا تھا۔اگر ایسا ہو سکے تو سری لنکا میں ایک آل پارٹی اور ہمہ گیر کابینہ بن سکتی ہے جو عام جنتا کی مخالفت کو بھی ٹھنڈا کر سکے گی اور موجودہ بحران کاحل بھی تلاش کر سکتی ہے۔ سری لنکا میں پٹرول کی رسد شدید متاثر ہے اور پٹرول کی بچت کے لیے حکومت نے غیر ضروری دفاتر اور سکولوں میں تعلیمی سلسلے کو بھی بند کر رکھا ہے۔ رواں برس اپریل میں سری لنکا پر غیر ملکی قرضہ 51 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کیے تھے؛ تاہم اس میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔سری لنکا کو پٹرول کے ساتھ ساتھ گیس‘ خوراک اور ادویات کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ ایندھن کے حصول کے لیے شہریوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ صورتِ حال گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے سری لنکا کی سیاحت کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا جبکہ بیرونِ ملک سے آنے والے زرِ مبادلہ میں کمی اور کھادوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل پر پابندی نے بھی ملک کی معیشت کو دھچکا دیا تھا۔سری لنکا میں جون میں مہنگائی کی شرح 54 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور مرکزی بینک نے خبردار کیا تھا کہ آئندہ چند ماہ کے دوران یہ 70 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔جہاں تک بھارت کا سوال ہے‘سری لنکن صدر کے اس چناؤ میں بھارت کا کردار کافی منصفانہ رہا ہے۔ اس نے اب تک تقریباً چار بلین ڈالر کی مدد سری لنکا کو دی ہے اور وہ اب بھی اپنے اس قریبی پڑوسی ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں