اس وقت بھارت کی مرکزی سرکار کئی سیٹھوں اور سیاستدانوں کے یہاں چھاپے ڈلوارہی ہے۔ اس میں عموماً کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی کیونکہ اب سے تقریباً 300 سال پہلے فرانسیسی دانشور سینٹ سائما نے جو کہا تھا وہ آج بھی بہت حد تک سچ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تمام دولت چوری کا مال ہوتی ہے۔ فی الحال ان کے اس فلسفیانہ قول کی گہرائی میں اترے بغیر ہم یہ مان کر چل سکتے ہیں کہ کچھ ہیرا پھیری کئے بغیر بڑا مال کمانا مشکل ہی ہے۔صنعت اور تجارت میں تو پیسہ بنانے کے لیے کئی قانونی اور غیر قانونی طریقے اپنانے ہی پڑتے ہیں لیکن سیاست میں بدعنوانی کئے بغیر پیسہ بنانا ناممکن ہے اور جمہوریت کی چناوی سیاست تو موٹے پیسے کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتی۔ پچھلے 76‘75سالوںسے میں ایسے کئی نیتاؤں کو جانتا ہوں‘ جن کے پاس کھانے اور پہننے کو بھی ٹھیک ٹھاک وسائل نہیں تھے لیکن آج وہ کروڑوں کے مالک ہیں۔پیسے کے کھیل نے دنیا کی ساری جمہوریتوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بھارتی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانی جاتی ہے‘ اس لیے اس صاف صفائی کے لیے مودی سرکار جو کارروائیاں کر رہی ہے وہ اچھی ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کارروائیاں اپوزیشن جماعتوں کے نیتاؤں اور صرف انہی سیٹھوں کے خلاف کیوں ہو رہی ہیں جو کچھ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ نتھی رہے ہیں؟ اگر سونیا گاندھی کے خلاف جانچ ہو رہی ہے تو کیا دیگر سبھی پارٹیوں کے نیتادودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ سبھی پارٹیوں کے سیاستدانوں کے یہاں چھاپے کیوں نہیں پڑ رہے ہیں؟گزشتہ برس بالی وڈ اداکار سونو سود‘ سماجی کارکن ہرش مندر اور دو نیوز پورٹلز کے خلاف انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ محکمہ کے چھاپوں کو بھی زبان بند کرانے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی‘ انسانی حقوق اور صحافیوں کی تنظیمو ں نے ان چھاپوں پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ مودی مخالف افراد یا تنظیموں کے خلاف کارروائیاں انجام دینے والے حکومتی ادارے اپنی کارروائیوں کو چھاپے کے بجائے سروے کا نام دیتے ہیں لیکن یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کسی فرد یا ادارے کا زبردستی سروے کرنا کہاں تک درست ہے؟ سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی‘ معروف سماجی شخصیات‘ دانشوروں اور ماہرین قانون نے حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے محکمہ انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسے حکومتی اداروں کی آڑ لینے پر مودی حکومت کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ اگر نریندر مودی کچھ بھاجپا کے سیاستدانوں کے یہاں بھی چھاپہ ڈلوانے کی ہمت کرلیں تو وہ بھارت کے منفرد اور تاریخی وزیر اعظم مانے جائیں گے۔ بھاجپا کے کئی وزرا اوروزرائے اعلیٰ کو ان کے عہدوں سے ہٹایاجانا کافی نہیں ہے‘ان کی جانچ کروانا اور قصوروار پائے جانے پر انہیں سزا دلوائی جائے تو بھارتیہ سیاست میں صفائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ میرے ایک کانگرسی وزیر اعظم دوست نے مجھ سے پوچھا کہ چناؤ جیتنے کے لیے کوئی گُر بتائیں۔ میں نے تین گُر بتائے:ان میں پہلایہی تھا کہ بدعنوان کانگرسیوں کے یہاں آپ چھاپے ڈلوادیجئے۔ آپ بھارت کے مہا نائیک بن جائیں گے۔لیکن جو سرکار صرف اپنے مخالفین کے یہاں ہی چھاپے ڈلواتی ہے اور ان سیاستدانوں اور سیٹھوں کو کھلاچھوڑ دیتی ہے جو اس کے اپنے مانے جاتے ہیں‘ اس سرکار کی شبیہ خاموش پیندے میں بیٹھی چلی جاتی ہے۔ اس کا ایک برا اثر حکمران پارٹی کے سیاستدانوں اور کارکنوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ بے خوف پیسہ بنانے میں جُت جاتے ہیں۔ اپنے مخالفین کے خلاف کی گئی کارروائیاں قانونی لحاظ سے ٹھیک ہیں لیکن ان کا اخلاقی جواز تبھی درست ہوگا جب وہ سب کے خلاف یکساں ہوں۔
بھارت میں کون اقلیت ‘کون اکثریت
بھارتی سپریم کورٹ میں آج کل ایک عجیب سے معاملے پر بحث چل رہی ہے۔معاملہ یہ ہے کہ کیا بھارت کی کچھ ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیت مانا جائے یا نہیں؟اقلیت اور اکثریت ہونے کا فیصلہ قومی سطح پر ہونا چاہئے یا ریاستوں کی سطح پر؟ابھی تک سارے بھارت میں جن لوگوں کی تعداد دھرم کے لحاظ سے کم ہے‘انہیں ہی اقلیت مانا جاتا ہے۔اس پیمانے پر بھارت کی مرکزی سرکار نے مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ پارسیوں‘ سکھوں‘ بودھوں اور جینیوں کو اقلیت تسلیم کر رکھا ہے۔یہ اصول ان لوگوں پر تمام صوبوں میں لاگو ہوتا ہے اورجن صوبوں میں یہ لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں وہاں بھی انہیں اقلیتوں کی تمام سہولیات ملتی ہیں۔ایسے تمام اقلیتوں کی تعداد سارے بھارت میں تقریباً 20فیصد ہے۔اب عدالت میں ایسی پٹیشن دائر کی گئی ہے کہ جن صوبوں میں ہندو اقلیت ہیں‘ وہاں انہیں اکثریت کیوں نہیں مانا جاتا؟جیسے لداخ‘ میزورم‘لکش دویپ‘ ناگالینڈ‘ میگھالیہ‘ پنجاب‘اروناچل پردیش اور منی پور میں ہندوؤں کی تعداد صرف ایک فیصد سے لے کر زیادہ سے زیادہ 41فیصد تک ہے۔ان ریاستوں میں انہیں اقلیتوں کو ملنے والی تمام سہولیات کیوں نہیں دی جاتیں؟یہی بات زبان کی بنیاد پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ اگر مہاراشٹر میں کنڑ بھاشی اقلیت مانیں جائیں گے تو کرناٹک میں مراٹھی بھاشی اقلیت کیوں نہیں کہلائیں گے؟اگر اقلیت کی بنیاد زبان کو بنا لیا جائے تو بھارت کے تقریباً سبھی زبانیں بولنے والے کسی نہ کسی صوبے میں اقلیت مانے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس مدعے پر جو بحث چلائے گا‘وہ بندھے بندھائے گھیرے میں چلائے گا اور کچھ ریاستوں میں ہندوؤں کو شاید وہ اقلیتوں کا درجہ بھی دے دے لیکن اس طرح یہ اقلیتی لوگ ہی میری رائے میں محروم رہیں گے۔2019ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے شمال مشرق کی ان سات ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیت کا درجہ دینے سے انکار کردیا جہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کے مقابلے میں ان کی آبادی کم ہے۔چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ زبانیں ریاستی سطح پر محدود ہیں‘ مذاہب کی کوئی ریاستی سرحدیں نہیں ہوتیں‘ ہمیں اسے پورے بھارت کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ زبانوں کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل ہوئی تھی لیکن مذہب کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے اس لیے ریاستی آبادی کی بنیاد پر کسی فرقہ کو اقلیتی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ملک کے کسی بھی شخص کو ذات پات‘مذہب اور زبان کی بنیاد پر اقلیت یا اکثریت کا درجہ دینا اپنے آپ میں غلط ہے۔اگر یہ ریاستوں میں بھی سبھی پر نافذ کر دیا گیا تو بے شمار مصیبتیں کھڑی کر دے گا۔ہر طبقے کے لوگ سہولیات کے لالچ میں پھنس کر اپنے آپ کو اقلیت اعلان کروانے پر اتارو ہوجائیں گے۔اس کے علاوہ ریاستوں کانقشہ بدلتا رہتا ہے۔جو لوگ کسی ریاست میں آج اکثریت میں ہیں‘وہی وہاں کل اقلیت بن سکتے ہیں۔ذات پات ‘مذہب اور زبان کی بنیاد پر لوگوں کو دو زمروں میں تقسیم کر کے رکھنا قومی اتحاد کے نظریے سے بھی مناسب نہیں ہے۔اپنے آپ کو یہ لوگ بھارتیہ کہنے سے پہلے فلاں فلاں ذات‘مذہب یا زبان والا بتانے پر آمادہ ہوں گے۔یہ فرقہ پرستی اور معاشرتی تقسیم بھارتی جمہوریت کو بھی اندر سے کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔جب عام لوگ ووٹ دینے جاتے ہیں تو اکثر وہ ذات پات‘مذہب اور زبان کو بنیاد بناتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہیں۔ جمہوریت تبھی مضبوط ہوتی ہے جب ووٹر لوگ خالص خوبیوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری عوامی اور اجتماعی زندگی میں ذات پات‘ مذہب اور زبان کو بہت زیادہ محدود اہمیت دی جائے۔ذاتی زندگی کی اہم پہچانوں کو عوامی زندگی پر لادنا کسی بھی تندرست جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔