"DVP" (space) message & send to 7575

نوکریوں میں انگریزی کی لازمیت سے نقصان

اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ دہلی کی عام آدمی پارٹی (عاپ) سرکار نے تعلیم کے شعبہ میں کئی نئی اور اچھی پہل کی ہیں۔ ان کے نئے تعلیمی نظام کو دیکھ کر کئی بین الاقوامی شخصیات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اب دہلی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ وہ 50 سنٹروں میں ایک لاکھ ایسے بچے تیار کرے گی جو فراٹے دار انگریزی بول سکیں گے۔ انگریزی کی لازمی پڑھائی تو بھارت کے سبھی سکولوں میں ہوتی ہے لیکن انگریزی میں بات چیت کرنے کی مہارت کم ہی طلبہ میں پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ نہ تو اچھی نوکریاں لے پاتے ہیں نہ آگے بڑھ پاتے ہیں جبکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان غریب اور پسماندہ پریواروں کے طلبہ کو ہوتا ہے۔ انہیں گھٹیا عہدوں اور کم تنخواہ والی نوکریوں سے ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے طلبہ کو زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع ملے اسی لیے دہلی سرکار اب 12ویں پاس طلبہ کو انگریزی بولنے کی مشق مفت میں کروائے گی۔ شروع میں وہ ان سے 950 روپے فیس لے گی تاکہ وہ نصاب کے تئیں سنجیدہ رہیں۔ یہ رقم انہیں آخر میں لوٹا دی جائے گی۔ یہ نصاب صرف تین سے چار ماہ کا ہی ہوگا۔ یہ 'انگریزی بڑھیا بولی مہم‘ 18 سے 35 سال کے نوجوانوں کے لیے رہے گی۔ ظاہری طور پر دہلی سرکار کی اس سکیم کے پیچھے اس کی منشا پوری طرح قابلِ تعریف ہے لیکن دہلی کی ہی نہیں ہمارے سبھی صوبوں اور مرکز کی سرکار نے کیا کبھی سوچا کہ ہمارے تعلیم کے شعبے اور نوکریوں میں انگریزی کی لازمیت نے بھارت کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے؟ اگر سرکاری نوکریوں سے انگریزی کی لازمیت ہٹا دی جائے تو کون والدین اپنے ہرن جیسے بچوں پر گھاس لادنے کی غلطی کریں گے؟ چینی زبان کے علاوہ کسی بھی بدیشی زبان کو سیکھنے کے لیے سال‘ دو سال کافی ہوتے ہیں لیکن بھارت میں بچوں پر یہ گھاس 10 سے 12سال تک کے لیے لاد دی جاتی ہے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی میں میں نے انگریزی کے علاوہ جرمن، روسی اور فارسی زبانیں سال‘ سال بھر میں آسانی سے سیکھ لی تھیں۔ انگریزی سے کشتی لڑنے میں طلبہ کا سب سے زیادہ وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ دیگر مضامین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اصلیت تباہ ہو جاتی ہے۔ احساس کمتری پنپنے لگتا ہے۔ نخوت اور ڈھونگ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام چوپٹ ہو جاتا ہے۔ آزادی کے 75 سال پورے ہو رہے ہیں لیکن اب بھی ہم لسانی اور عقلی غلامی میں جی رہے ہیں۔ گاندھی جی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا جیسا ایک بھی نیتا آج تک دیش میں اتنی ہمت والا نہیں ہوا کہ وہ میکالے کی اس غلام گری کو چنوتی دے سکے۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں وزیر تعلیم ترگن سین اور بھاگوت جھا آزاد نے کچھ قابلِ تعریف قدم ضرور اٹھائے تھے لیکن لارڈ میکالے کی تعلیم کی نقل آج بھی جوں کی توں ہو رہی ہے۔ انگریزی کی غلامی کی وجہ سے پورا بھارت نقال بن گیا ہے۔ وہ اپنی اصلیت‘ قدیم اسلوب اور کارناموں سے خود کو محروم کرتا ہے اور مغربی سوچ اور طرزِ زندگی کی اندھی تقلید کرتا ہے۔ اسی لیے کئی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھارت آج بھی پسماندہ ہے۔ غیرملکی زبانوں اور غیرملکی سوچ کا فائدہ اٹھانے سے کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہیے لیکن جو اپنی زبانوں کو نوکرانی اور غیرملکی زبان کو مہارانی بنا دیتے ہیں وہ چین اور جاپان کی طرح خوشحال اور طاقتور نہیں بن سکتے۔ بھارت جیسے درجنوں ملک‘ جو برطانیہ کے غلام تھے‘ آج بھی کیوں لنگڑا رہے ہیں؟ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال اور وزیر منیش سسودیا سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ دیگر چیف منسٹرز اور وزرائے اعظم کی طرح پٹے پٹائے راستے پر تیز رفتاری سے چلنے کے بجائے ایسی زبردست مہم چلائیں گے کہ بھارت میں نوکریوں اور تعلیم کے شعبے سے انگریزی کی لازمیت ختم ہو جائے گی۔ جنہیں اعلیٰ تحقیق، بدیشی بیوپار اور سفارت کاری کے لیے بدیشی زبانیں سیکھنی ہوں وہ ضرور سیکھیں۔ انہیں پوری سہولتیں فراہم کی جائیں مگر خواہ مخواہ اپنے بچوں کو انگریزی زبان کے بوجھ تلے دفن نہ کریں۔
بھارتی اپوزیشن کی حالتِ خستہ
بھارتیہ صدر کے لیے دروپدی مرمو کے چناؤ نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کو ٹکر دینے میں آج بھی ناکام ہیں اور 2024ء کے چناؤ میں بھی بھاجپا کے سامنے وہ بونی ثابت ہوں گی۔ اب نائب صدر کے چناؤ میں ترنمول کانگرس نے اپوزیشن کی امیدوار مارگریٹ الوا کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ یعنی اپوزیشن کی امیدوار نائب صدر کے چناؤ میں بھی بری طرح سے ہاریںگی۔ الوا کانگریسی ہیں۔ ترنمول کانگرس کو کانگرس سے کافی اعتراضات ہیں، حالانکہ اس کی نیتا ممتا بینر جی خود کانگریسی نیتا رہی ہیں اور اپنی پارٹی کے نام میں انہوں نے کانگرس کا نام بھی جوڑ رکھا ہے۔ ممتا بینر جی نے صدارتی انتخاب کے لیے یشونت سنہا کی بھی ڈٹ کر حمایت نہیں کی حالانکہ سنہا انہی کی پارٹی کے رکن تھے۔ اب پتا چلا ہے کہ ممتا بینر جی دروپدی مرمو کی ٹکر میں اوڈیشہ کے ایک آدی واسی (قبائلی) رہنما تلسی منڈا کو کھڑا کرنا چاہتی تھیں۔ ممتا نے یشونت سنہا کو اپنے پرچار کے لیے مغربی بنگال آنے کی بھی درخواست تک نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ترنمول کانگرس کے کچھ قانون سازوں اور ممبرانِ اسمبلی نے بھاجپا کے امیدوار مرمو کو اپنا ووٹ دے دیا۔ نومنتخب صدر دروپدی مرمو نے 15 ویں بھارتیہ صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے ان سے حلف لیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی کابینہ کے ارکان راج ناتھ سنگھ، ایس جے شنکر اور امیت شاہ سمیت کئی رہنما موجود تھے۔ صدر مرمو نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ میرے صدر بننے سے ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت میں غریبوں کے خواب بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں بھارت کی آزادی کے بعد پیدا ہونے پہلی بھارتی صدر ہوں۔ مرمر نے 2428 ووٹ لیے جبکہ ان کے مدمقابل سنہا نے 1877 ووٹ حاصل کیے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تو کھٹائی میں پڑا ہی ہواہے۔ ان پارٹیوں کے اندر بھی غیرمطمئن عناصر کی بھرمار ہے۔ اسی کا ثبوت یہ بات ہے کہ مرمو کے حق میں کئی پارٹیوں کے قانون سازوں اور ایم پیز نے اپنے ووٹ ڈال دیے۔ کچھ غیر اتحادی پارٹیوں نے بھی مرمو کی حمایت کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جس بھاجپا امیدوار مرمو کے 49 فیصد ووٹ پکے تھے، انہیں تقریباً 65فیصد ووٹ مل گئے۔ دروپدی مرمو کے چناؤ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے پاس نہ تو کوئی ایسا نیتا ہے اور نہ ہی ایسا مدعا جو سب کو ایک دھاگے میں باندھ سکے۔ ان سب کا کردار برائے نام رہ گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کی سرگرمیاں ضرور ٹھپ کر سکتی ہیں اور اپنے نیتاؤں کی خاطر عوامی مظاہرے بھی کر سکتی ہیں، لیکن ملک کے عام شہریوں پر ان کی سرگرمیوں کا اثر الٹا ہی ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر وہ صدارتی انتخاب کے لیے کسی اہم اور غیرمتنازع لیڈر کو تیار کر لیتیں اور وہ ہار بھی جاتا تو اپوزیشن کے اتحاد کو مضبوط بنا سکتا تھا۔ لیکن بھاجپا کے سابق نیتا یشونت سنہا کو اپنا امیدوار بنا کر اپوزیشن نے یہ پیغام دیا کہ اس کے پاس اہل رہنمائوں کی کمی ہے۔ مارگریٹ الوا بھی اپوزیشن کی مجبوری کی علامت دکھائی دیتی ہیں۔ سونیا گاندھی کی شدید ناقد رہی 80سالہ الوا کو نائب صدارت کے عہدے کے لیے اپوزیشن نے آگے کرکے اپنے آپ کو پیچھے کردیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نائب صدر کے لیے جگدیپ دھنکھڑ کے حق میں صدر کو ملے ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ ملیں گے یعنی اپوزیشن کی بدحالی اب اور بھی زیادہ سنگین ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں