بھاجپا سرکار نے صدارتی عہدے کے لیے دروپدی مرمو کو امیدواربنایا تھا ا ور اب نائب صدر کے عہدے کے لیے جگدیپ دھنکھڑ کے نام کا اعلان ہواہے۔ ان دونوں کو وزیر اور گورنر رہنے کا تجربہ ہے‘ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ دونوں کو ان اعلیٰ عہدوں کیلئے چنتے ہوئے بھاجپا نیتاؤں نے کس بات کو دھیان میں رکھا؟ یہ بات ہے محروموں کے اعتماد اور وو ٹ بینک کی۔ایک امیدوار دیش کے سبھی آدی واسیوں کو بھاجپا سے جوڑ ے گا اور دوسراسبھی پچھڑوں کو! یہ دیش کے آدی واسیوں اور پسماندہ جاتیوں میں یہ جذبہ بھی بھرے گا کہ وہ لوگ چاہے صدیوں سے دبے‘پسے رہے لیکن اگر ان کے دو شخص بھارت کے سب سے اونچے عہدوں پر پہنچ سکتے ہیں تو وہ زندگی میں آگے کیوں نہیں بڑھ سکتے؟ کسان کے بیٹے دھنکھڑ کے نائب صدر بننے کا واقعہ بھارت کے کسانوں میں نئی امنگ جگائے گا۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال‘ جھاڑکھنڈ اور اڑیسہ کے آدی واسیوں کو بھاجپا کی طرف کھینچنے اور ممتا بینرجی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے میں یہ دونوں عہدے کوئی نہ کوئی کردار ضرور نبھائیں گے۔ جگدیپ دھنکھڑ کی موجودگی کا فائدہ بھاجپا کو راجستھان‘ اتر پردیش اور ہریانہ میں بھی ملے گا۔دھنکھڑ نائب صدرکے طور پر راجیہ سبھا کے چیئرمین ہوں گے۔ یہ شاید پہلا اتفاق ہوگا کہ لوک سبھا کے سپیکر اوم بڑلا اور راجیہ سبھا کے چیئرمین دھنکھڑ ایک ہی صوبہ راجستھان کے ہوں گے۔ یہ حقیقت راجستھان کی کانگرس سرکار کے لیے چنوتی بھی بن سکتی ہے۔ دھنکھڑ کو ودھان سبھا کا رکن اور مرکزی وزیر رہنے کا تجربہ بھی ہے۔ وہ جنتا پارٹی اور کانگرس میں بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں نائب صدر کے عہدہ پر بھاجپا بٹھا رہی ہے‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھاجپا اپنے دروازے بڑے کر رہی ہے۔ وہ اگر اپنی عاجزی کے لیے جانے جاتے ہیں تو ان کی صاف گوئی بھی مشہور ہے۔ ان کے جیسے دو ٹوک گورنر دیش میں کتنے ہو ئے ہیں؟ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی جتنی کھلی کھنچائی دھنکھڑ نے کی‘ کیا کوئی دوسرا گورنر کسی وزیراعلیٰ کی کر پایا ہے ؟ اس لیے انہیں ''جنتا کا گورنر‘‘ کہا جاتا ہے۔ پچھلے سال جب جگدیپ جی نے میری خاطر اپنے راج بھون میں ڈنر منعقد کیا تو میں نے اپنے کولکتہ کے سبھی خاص دوستوں کو مدعو کیا۔ ان میں بھاجپائیوں اور سنگھیوں کے علاوہ کانگرسی‘ ممتا کے ترنمولی اور کچھ اخبار نویس بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر گورنر نے کچھ لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں سے میں بہت ناراض ہوں‘ لیکن آپ ویدک جی کے دوست ہیں‘ اس لیے آپ کا خصوصی استقبال ہے۔ کون کہے گا ایسی دو ٹوک بات ؟دھنکھڑ راجستھان کے کسان پریوار کے بیٹے ہیں لیکن انہوں نے اپنی قابلیت کے دم پر اپنی وکالت کی دھاک سپریم کورٹ تک میں بنارکھی تھی۔ مغربی بنگال میں اس بار بھاجپا ودھان سبھا کے اراکین کی تعدادتین سے بڑھ کر 71 ہو گئی۔ اس کا بڑا سہرا گورنر جگدیپ دھنکھڑ کو بھی ہے۔جگدیپ دھنکھڑ 18 مئی 1951ء کو راجستھان کے ضلع جھنجھنو کے گاؤں کیتھانہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 30 جولائی 2019ء کو بنگال کے گورنر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ دھنکھڑ نے 1979ء میں راجستھان بار کونسل میں شمولیت اختیار کی‘ 27 مارچ 1990ء کو وہ سینئر وکیل بن گئے۔ اس وقت سے دھنکھڑ سپریم کورٹ میں بھی پریکٹس کرتے رہے۔ وہ 1987ء میں راجستھان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ دھنکھڑ کا سیاسی کیریئر سال 1989 سے شروع ہوا۔ اس سال انہوں نے بی جے پی کی حمایت سے جنتا دل کے ٹکٹ پر جھنجھنو سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ وہ مرکز میں وزیر بھی رہے۔ جنتا دَل کی تقسیم کے بعد وہ سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کے کیمپ میں چلے گئے لیکن جنتا دَل سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد وہ کانگریس میں چلے گئے۔ انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر اجمیر سے لوک سبھا کا الیکشن بھی لڑا‘ لیکن ہار گئے۔ اس کے بعد سال 2003 ء میں وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ 1993ء اور 1998ء کے درمیان وہ اجمیر کے کشن گڑھ سے ودھان سبھا کے رکن رہے۔ لوک سبھا اور ودھان سبھا میں اپنے دور میں وہ کئی اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔ دروپدی مرمو توکامیاب ہو کر صدر بن چکی ہیں؛ البتہ بھارتیہ نائب صدر کا انتخاب 6 اگست کو ہونا ہے۔ نامزدگی کی آخری تاریخ 19 جولائی تھی جبکہ موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو کی میعاد 10 اگست کو ختم ہو رہی ہے۔ نئے نائب صدر 11 تاریخ کو حلف لیں گے۔ دھنکھڑ کی جیت تو یقینی ہے ہی‘ ان کے اچھے سلوک کا اثر بھارتی اپوزیشن پر بھی دیکھنے کو ملے گا۔مجھے یقین ہے کہ اب راجیہ سبھا کا ایوان ذرابہتر اور ڈسپلن سے کام کرے گا۔
میڈیکل کی پڑھائی ہندی میں
آزادی کے 75 ویں سال میں میکالے کی غلامی والا تعلیمی طرز بدلنے کی شروعات اب مدھیا پردیش سے ہو رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ مدھیا پردیش کے وزیراعلیٰ شوراج چوہان اور میڈیکل ایجوکیشن کے وزیر وشواس سارنگ کو ہے۔ میں نے پچھلے 60سال میں مدھیا پردیش کے ہر وزیر اعلیٰ سے درخواست کی کہ میڈیکل اور قانون کی پڑھائی ہندی میں شروع کروائیں لیکن مدھیا پردیش کی موجودہ سرکار بھارت کی ایسی واحد سرکار ہے بھارت کی تعلیمی تاریخ میں جس کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ بھارت کے وزیر اعظم اور وزیر صحت مدھیا پردیش سے کچھ سیکھیں اور تمام موضوعات کی اعلیٰ پڑھائی کا میڈیم بھارتی زبانوں کو قرار دلوائیں۔ دنیا کے جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں اعلیٰ تحقیق اورتصنیف اپنی زبان میں ہی ہوتی ہے۔ ڈاکٹری کی پڑھائی مدھیا پردیش میں ہندی میڈیم میں ہونے کے کئی فائدے ہیں‘ پہلا تو یہی کہ فیل ہونے والوں کی تعداد ایک دم گھٹے گی۔ دوسرا سٹوڈنٹس کی صلاحیت بڑھے گی۔ 70‘ 80 فیصد سٹوڈنٹس ہندی میڈیم سے پڑھ کر ہی میڈیکل کالجوں میں بھرتی ہوتے ہیں۔ انہیں عوام کے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ تیسرا‘ مریضوں کی ٹھگی کم ہو گی۔ علاج جادو ٹونہ نہیں بنا رہے گا۔ چوتھا‘ مریضوں اور ڈاکٹروں کے درمیان بات چیت آسان ہو جائے گی۔ پانچواں‘ سب سے زیادہ فائدہ ان غریب اور پسماندہ طبقات کے بچوں کو ہوگا جو انگریزی کی وجہ سے ڈاکٹر نہیں بن پاتے۔ مدھیا پردیش سرکار نے میڈیکل ایجوکیشن کی کتابیں ہندی میں تیار کروانے کے لیے جو کمیٹی بنائی ہے اس سے میرا رابطہ بنا رہتا ہے۔ کچھ کتابیں بنیادی طور پر ہندی میں تیار ہو گئی ہیں اور کچھ کے ترجمے بھی ہو گئے ہیں۔ ستمبر کے آخر میں شروع ہونے والے نئے اجلاس سے سٹوڈنٹس کو ہندی میڈیم کی چھوٹ مل جائے گی۔ جو سٹوڈنٹس انگریزی میڈیم سے پڑھنا چاہیں گے انہیں چھوٹ رہے گی۔ مدھیا پردیش کے چار ہزار میڈیکل سٹوڈنٹس میں سے اب تقریباً سبھی اپنی زبان کے ذریعہ سے پڑھنا چاہیں گے۔اگر ایسا ہو گا تو ہندی میں نئے نئے تحقیقی مضامین بھی ہر سال شائع ہوتے رہیں گے۔ اگر اس میڈیکل کی پڑھائی کو اور بھی زیادہ قابل استعمال بنانا ہو تو میری تجویز یہ ہے کہ ایک نئی ڈگری تیار کی جائے جس میں ایلوپیتھی‘ آیوروید‘ حکمت‘ ہومیو پیتھی‘ اور قدرتی علاج کے سلیبس ملے جلے ہوں تاکہ مریضوں کا اگر ایک دوا سے علاج نہ ہو تو دوسری دوا سے ہونے لگے۔ اگر ہمارے نظام میں ایسا کوئی انقلابی بدلاؤ مدھیا پردیش کی سرکار کروا سکے تو دیگر ریاستوں کی سرکاریں اور مرکزی سرکار بھی پیچھے نہیں رہے گی۔ یہ دنیا کو بھارت کی انوکھی دین ہو گی۔ یہ ڈاکٹری کی تعلیم اتنی آسان اور سستی ہوگی کہ بھارت اور پڑوسی دیشوں کے غریب سے غریب لوگ اس کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ایک بار پھر دنیا بھر کے سٹوڈنٹس ڈاکٹری کی پڑھائی کیلئے بھارت آنے لگیں گے جیسا کہ وہ صدیوں پہلے دور دیشوں سے آیا کرتے تھے۔