مغربی بنگال میں ترنمول کانگرس کی سرکار خوفناک بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ممتا بینر جی کی سرکار اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کر سکتی ہے۔ ممتا راج میں مَیں جب جب کولکتہ گیا ہوں‘ وہاں کے کئی پرانے صنعت کاروں اور تاجروں سے بات کرتے ہوئے مجھے لگتا تھا کہ ممتا کے خوف کے مارے سے اب وہ کوئی غلط کام نہیں کر پا رہے ہوں گے۔ لیکن ان کے صنعت و تجارت کے وزیر پارتھو چٹر جی کو پہلے تو ای ڈی (Directorate of Enforcement) نے گرفتار کیا اور پھر ان کے ذاتی معاونین، دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں سے جو نقد کروڑوں روپے کی رقمیں پکڑی گئی ہیں، انہیں ٹی وی چینلوں پر دیکھ کر سب دنگ رہ گئے ہیں۔ ابھی تو ان کے کئی دیگر فلیٹوں پر چھاپے پڑنا باقی ہیں۔ ایجنسی نے ان کے بینک کھاتوں کو بھی منجمد کر دیا ہے۔ ای ڈی کے ذرائع نے کہا کہ اب وہ ان بینک کھاتوں میں دو طرفہ رقومات کے لین دین کی نشان دہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مغربی بنگال سکول سروس کمیشن میں گھوٹالے پر ان کے آٹھ بینک اکائونٹس میں آٹھ کروڑ روپوں کا لین دین ہوا ہے۔ ایجنسی کے ایک افسر نے کہا ہے کہ 3 اگست تک پارتھو چٹر جی کی حراست کے اس مرحلے کے بقیہ دنوں میں ہم اس موضوع پر ان سے پوری طرح پوچھ گچھ کریں گے۔ اگر ضروری ہوا تو ان کھاتوں کا فارنزک آڈٹ بھی کرایا جائے گا۔ سابق وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے؛ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ برآمد کی گئی بھاری رقم اور سونے کا اصل مالک کون ہے تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ای ڈی نے 23 جولائی کو جنوبی کولکتہ کے ٹالی گنج میں واقع ان کے ایک ساتھی کے فلیٹ سے 31.20 کروڑ روپے کی بھارتی کرنسی، تقریباً 60 لاکھ روپے کی بیرونی کرنسی اور 90 لاکھ روپے کے سونے کے گہنے برآمد کیے۔ 28 جولائی کو ای ڈی حکام نے ایک بار پھر ایک اور فلیٹ سے 27.90 کروڑ روپے کی ہندوستانی کرنسی اور 6 کلو سونا ضبط کیا۔ ای ڈی کے عہدیداروں نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ جو کچھ برآمد ہوا ہے وہ کروڑوں کے گھوٹالے میں حقیقی مالیاتی شراکت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں جو بھی نقدی، سونا اور گہنے وغیرہ چھاپے میں ملے ہیں‘ ان کی قیمت کا 100 کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر جانچ ڈائریکٹوریٹ کے چنگل میں ممتا سرکار کے کچھ دوسرے وزرا بھی پھنس گئے تو یہ رقم کئی ارب تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ بنگال کے مار واڑی تاجروں کا خون چوسنے میں ممتا سرکار نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پارتھو چٹر جی صرف تین محکموں کے منتری رہے ہیں۔ انہیں ممتا بینر جی کا نائب وزیراعلیٰ بھی ماناجاتا تھا۔ اس حیثیت میں ممتا جی کا سارا لین دین وہی کرتے رہے ہوں تو کوئی حیرانی نہیں ہے۔ وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ممتا حکومت میں وہ سب سے سینئر وزیر تھے اور پانچ بار ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچھلے گیارہ سالوں سے مسلسل وزیر چلے آ رہے تھے اور اس سے پہلے پانچ سال تک وہ بنگال کی قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ ابھی پارتھو کے پاس صنعت، تجارت اور پارلیمانی امور جیسی اہم وزارتوں کے چارج تھے۔ انہیں بنگال کے لوگ پارٹی کی ناک سمجھتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی گرفتاری کے 6 دنوں بعد تک ان کے خلاف پارٹی نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹتا رہا۔ ترنمول کے رہنما بھاجپا سرکار پر انتقامی کارروائی کا الزام لگاتے رہے۔ اب جبکہ پورے بھارت میں ممتا سرکار کی بدنامی ہونے لگی ہے توکچھ ہوش آیا ہے اور پارتھو چٹرجی کو وزارت اور پارٹی کی رکنیت سے بر خاست کیا گیا ہے۔ یہ برخاستگی نہیں صرف معطلی ہے، کیونکہ پارٹی ترجمان کہہ رہے ہیں کہ جانچ میں کھرے اتریں گے تب ان کو ان کے سارے عہدوں سے دوبارہ نواز دیا جائے گا۔ یہ معاملہ صرف ترنمول کانگرس کی کرپشن کا ہی نہیں ہے۔ بھارت کی کوئی بھی پارٹی اور کوئی بھی نیتا یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کرپشن سے مکمل طور پر پاک ہے۔ ہمارے موجودہ سسٹم میں کرپشن کے بغیر یعنی اخلاقیات اور قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر کوئی بھی شخص ووٹوں کی سیاست کر ہی نہیں سکتا۔ روپوں کا پہاڑ لگائے بغیر آپ چناؤ کیسے لڑیں گے؟ انتخابی حلقے کے 5 لاکھ سے 20 لاکھ ووٹرز کو ہر امیدوار کیسے پٹائے گا؟ نوٹ سے ووٹ اور ووٹ سے نوٹ کمانا بھارتیہ سیاست کا بنیادی منتر ہے۔ اسی لیے ہمارے کئی وزرائے اعلیٰ تک جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ نوٹ اور ووٹ کی سیاست اب افکار، نظریات اور کردار کی سیاست پر حاوی ہوگئی ہے۔ اگر ہم بھارتیہ جمہوریت کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں تو سیاست میں یاتو اچاریہ چانکیہ یا افلاطون کے 'فلسفیانہ نیتا‘ جیسے لوگوں کو ہی انٹری دی جانی چاہیے ورنہ آپ جس نیتا پر بھی چھاپہ ماریں گے وہ آپ کو کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہی ملے گا۔
''راشٹرپتی‘‘ لفظ کی بحث
لوک سبھا (نیشنل اسمبلی) میں کانگرس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے راشٹر پتی (صدر) کی جگہ ''راشٹر پتنی‘‘ کا لفظ بول کر طوفان ساکھڑا کر لیا ہے۔ یہ لفظ انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر کہیں بول دیا تھا۔ بھاجپا کے کئی مقامی رہنما اور کارکنان ملک میں جگہ جگہ مظاہرے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ نئی بھارتیہ راشٹرپتی دروپدی مرمو کی توہین ہے‘ اسے وہ برداشت نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی بھی اس مدعے کولے کر ٹھپ ہو گئی ہے۔ بھاجپا کے منتری اور ممبرانِ اسمبلی درخواست کررہے ہیں کہ ادھیر رنجن پارلیمنٹ میں معافی مانگیں۔ ادھیر رنجن کا کہنا ہے کہ وہ بھاجپائیوں سے معافی کیوں مانگیں؟ کانگرس کی صدر سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی صدرِ مملکت سے معافی مانگ لی ہے۔ ان کی زبان پھسل جانے کا انہیں افسوس ہے۔ وہ بنگالی ہیں‘ انہیں ہندی ٹھیک سے نہیں آتی۔ میری نظر میں یہ دلیل خاصی کمزور ہے۔ کیا کوئی بنگالی کہہ سکتا ہے کہ وہ پتی اور پتنی کے الفاظ میں فرق کرنا نہیں جانتا؟ ویسے ادھیر رنجن اس طرح کی غلطیاں کرنے کے لیے پہلے سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی کو ایک بار ''گندی نالی‘‘ سے تشبیہ دی تھی۔ انہوں نے وادیٔ کشمیر کو بھارت کا صرف جغرافیائی حصہ بتایا تھا۔ انہوں نے مغربی بنگال کے گورنر اور اب نائب صدارت کے امیدوار جگدیپ دھنکھڑ کو ''پاگل‘‘ تک کہہ دیا تھا۔ امید ہے کہ بھاجپائیوں کا یہ غصہ اور مظاہرہ انہیں اب ادھیر رنجن سے ''سدھیر‘‘ رنجن بنا دے گا۔ لیکن اس تنازع نے میری ایک پرانی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ پچاس سال پہلے سے میں سوچتا رہتا تھا کہ اگر کوئی خاتون ہمارے ملک کے اس اعلیٰ عہدے پر پہنچے گی تو کیا اسے بھی ہم ''راشٹر پتی‘‘ ہی کہیں گے؟ تب مجھے لگتا تھا کہ اس لفظ کا کوئی متبادل تلاش کرنا چاہیے ورنہ بڑی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ تب میرے دماغ میں ایک متبادل لفظ آیا تھا ''راشٹر ادھیکش‘‘۔ تب میں سوچتا تھا کہ اگر کوئی خاتون اس عہدے پر چنی گئی تو اسے ہم ''راشٹر ادھیکشا‘‘ آسانی سے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اپنا ملک تو انگریزوں کا غلام ہے۔ اس میں ''پریذیڈنٹ‘‘ لفظ کا استعمال کسی بھی خاتون یا مرد‘ دونوں کیلئے ہو سکتا ہے تو انگریزی کے لفظ ''پریذیڈنٹ‘‘ کا ہندی ترجمہ ''راشٹرپتی‘‘ بھی دونوں پر تھوپا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں یہ غلط ہے۔ راشٹر پتنی لفظ کو قابلِ اعتراض بتا کر ہم کیا بھارت کی خواتین کی توہین نہیں کر رہے؟ لیکن اس سوال کا مناسب حل یہی ہے کہ ہم پتی اور پتنی کی دلدل میں نہ پھنسیں۔ راشٹرپتی اور راشٹر پتنی کے بجائے کوئی اور اصطلاع استعمال کریں۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے لیے ادھیکشوں اور ادھیکشاؤں کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ویسے ہندی کا لفظ پتی ایسا نہیں ہے کہ اس کا استعمال صرف پتنی کے مذکر کے طور پر ہی کیا جائے۔