"DVP" (space) message & send to 7575

مالِ مفت دلِ بے رحم

اردو کی ایک کہاوت ہے ''مالِ مفت‘ دلِ بے رحم‘‘۔ اسے تمام بھارتی سیاسی جماعتیں صحیح ثابت کررہی ہیں یعنی چناؤ جیتنے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے وہ ووٹروں کو مفت کی چوسنیاں پکڑاتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ریوڑی کلچر کہا ہے جو بہت صحیح لفظ ہے۔ کہاوت تو یہ ہے کہ ''اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنوں کو دے‘‘ لیکن بھارتی سیاستدان اندھے نہیں ہیں۔ ان کی دو نہیں‘ تین آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی تیسری آنکھ سے صرف اپنے فائدے ٹٹولتے رہتے ہیں۔ اس لیے سرکار ی ریوڑیاں بانٹتے وقت اپنے پرائے کا امتیاز نہیں کرتے۔ ان کی جیب سے کچھ نہیں جاتا۔ وہ ووٹروں کو مفت مال بانٹ کر اپنے لیے تھوک کے حساب سے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کیاکیا بانٹ رہے ہیں‘ اس کی فہرست بنانے لگیں تو یہ سارا کالم اسی فہرست سے بھر جائے گا۔ شراب کی بوتلوں اور نوٹوں کی گڈیوں کو چھوڑ بھی دیں تو وہ جو چیزیں کھلے عام مفت میں بانٹتے ہیں ان کا خرچ سرکاری خزانہ اٹھاتا ہے۔ ان چیزوں میں عورتوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ‘ سکول کے طالب علموں کو مفت کپڑے اور کھانا‘ کئی طبقات کیلئے ریل کا مفت سفر‘ کچھ طبقات کے لیے مفت علاج اور کچھ کو مفت اناج بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی تقریباً تمام ریاستیں گھاٹے میں اُتر گئی ہیں۔ کئی ریاستیں تو اتنے قرضوں میں دبی ہوئی ہیں کہ اگر ریزرو بینک آف انڈیا ان کی مدد نہ کرے تو انہیں اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دینا ہو گا۔ان ریاستوں میں بھاجپا اور کانگرس سمیت تقریباً تمام پارٹیوں کی ریاستیں ہیں۔ تامل ناڈو اور اُتر پردیش پر تقریباً ساڑھے 6 لاکھ کروڑ‘ مہاراشٹر‘ بنگال‘ راجستھان‘ گجرات اور آندھرا پردیش پر 4 لاکھ کروڑ سے 6لاکھ کروڑ روپے تک کا قرض چڑھا ہوا ہے۔ ان ریاستوں کی حالت سری لنکا جیسی ہے۔ اس کی وجہ ان کی ریوڑیاں بانٹنے کی پالیسی ہی ہے۔ اس حوالے سے مفادِ عامہ کیلئے پٹیشنیں دائر کرنے والے مشہور وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ عدالت کے ججوں نے چناؤ کمیشن اور سرکاری وکیل کی کافی کھنچائی کی ہے۔ لیکن اشونی اپادھیائے نے کہا کہ خزانہ کمیشن اس معاملے میں مداخلت کرے۔ چناؤ کمیشن نے اپنے ہاتھ اُٹھا لیے ہیں۔ اس نے اپنی نااہلی کا اظہار کردیا ہے۔ اس نے کہا کہ مفت کی ان ریوڑیوں کا فیصلہ عوام ہی کر سکتے ہیں۔ اس سے کوئی پوچھے کہ جو عوام ریوڑیوں کا مزہ لیں گے وہ فیصلہ کیاکریں گے؟ میری رائے میں اس معاملے میں پارلیمنٹ کو جلد ہی تفصیلی بحث کرکے کچھ مستقل معیار مقرر کر دینے چاہئیں جن کی پابندی مرکز اور ریاستوں کی سرکاروں کو کرنی ہو گی۔ کچھ نازک حالات میں ضرور استثنا مل سکتا ہے۔ جیسے کورونا دور میں 80 کروڑ لوگوں کو مفت بانٹا گیا اناج۔ ویسے یہ ریوڑیاں عوام کو دی جانے والی خالص رشوت کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
بھارت اور کینیڈا کے آدی واسی
بھارت میں آدی واسیوں (قبائلیوں) کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے‘ اسے آپ اس حقیقت سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت بھارت کی صدر ایک آدی واسی‘ وہ بھی ایک خاتون‘ دروپدی مرمو ہیں اور 3گورنر آج بھی آدی واسی ہیں۔ چھتیس گڑھ کی گورنر انوسیا اوئیکے‘ جو اصل میں مدھیا پردیش سے تعلق رکھتی ہیں‘ نے آدی واسیوں کے حقوق کے لیے کئی ایک اقدام کیے ہیں۔ بھارت میں اس وقت کئی آدی واسی وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر بھی ہیں اور پہلے بھی رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی بھارت کے تقریباً 50 ممبران آدی واسی ہوتے ہیں۔ کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور پروفیسرز بھی آدی واسی ہیں۔ بھارت کے کئی ڈاکٹر اور وکیل بھی آپ کو آدی واسی مل جائیں گے۔ سرکاری نوکریوں اور پارلیمنٹ میں انہیں کوٹے کی بھی سہولت حاصل ہے لیکن آپ ذرا جانیں کہ امریکہ اور کینیڈا کے آدی واسیوں کا کیا حال ہے۔ میں اپنی جوانی سے ان ملکوں میں پڑھتا اور پڑھاتا رہا ہوں۔ مجھے ان کے کئی آدی واسی علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ میرے ساتھی سٹوڈنٹس میں سے کبھی کوئی امریکی یا کینیڈین آدی واسی نہیں رہا۔ وہاں کے آدی واسی آج بھی جانوروں کی سی زندگی جی رہے ہیں۔ ان سے معافی مانگنے کیلئے گزشتہ دنوں پوپ فرانسس کینیڈا گئے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے پوپ وہاں کیوں گئے؟ وہ وہاں عیسائی پادریوں اور گوروں کی طرف سے وہاں کے آدی واسیوں پر کیے گئے مظالم پر معافی مانگنے کیلئے گئے تھے۔ کینیڈا میں پچھلے 80‘90 برسوں میں آدی واسیوں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے لاپتا ہو چکے ہیں۔ ان پر ہوئے مظالم کی کہانی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ان کے عیسائی سکول ان کے گاؤں سے اتنے دور بنائے جاتے تھے کہ ان کے ماں باپ ان تک نہ پہنچ سکیں۔ کینیڈا سرکار نے تحقیقاتی کمیشن بنا کر جو حقائق اجاگر کیے ہیں ان سے پوپ حیران رہ گئے اور کینیڈا جا کر ان آدی واسیوں سے معافی مانگنے کا عزم کیا۔کینیڈین حکومت نے ان کی بحالی کے لیے 40 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے آدی واسیوں کو ''ریڈ انڈین‘‘ اور ''انڈین‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ذرا دیکھیے کہ ان ملکوں اور بھارت کے آدی واسیوں میں کتنا فرق ہے۔
محمد زبیر کے ساتھ انصاف؟
بھارتی سپریم کورٹ نے محمد زبیر کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے؟ اس نے محمد زبیر کے خلاف کی گئی درجنوں ایف آئی آرز کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف جو بھی مقدمے چلیں‘ وہ کسی ایک ہی شہر میں چلیں۔ کئی شہروں میں اگر ان پر مقدمے چلتے رہے تو کئی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ کئی مقدموں کے فیصلوں پر اعتراض اُٹھایا جا سکتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ محمد زبیر کتنے شہروں کی عدالتوں کے چکر لگا تے رہیں گے؟ تیسرا مسئلہ محمد زبیر کی اپنی حفاظت کا ہے۔ جن لوگوں کو قانون کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہے‘ انہیں معلوم ہے کہ محمدزبیر کو عدالت بے قصور قرار دینے والی ہے۔ اگرچہ محمدزبیر کو ہفتوں جیل میں ڈالے رکھا گیا ہے۔ انہیں ضمانت بھی نہیں ملی تھی۔ سپریم کورٹ نے انہیں فوراً رہا کیا اور اُترپردیش کی سرکار اور پولیس پر بھی سخت تنقید کی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا ہے کہ کسی بھی صحافی کی اظہارِ رائے کی آزادی میں کوئی بھی رکاوٹ کیسے بن سکتا ہے۔ اگر محمدزبیر نے 2018ء میں کسی فلم کے سکرین شاٹ کو ٹویٹ کردیا تھا تو کیا انہوں نے اتنا خطرناک کام کردیا کہ انہیں جیل میں بند کردیا جائے۔ انہیں ضمانت بھی نہ دی جائے اور انہیں دنگے بھڑکانے کیلئے ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے؟ ججوں نے اس امر پر بھی اعتراض ظاہر کیا ہے کہ محمدزبیر کے خلاف کئی ایجنسیاں جانچ پڑتال میں جت گئی ہیں۔ محمد زبیر پر اُترپردیش کی پولیس نے طرح طرح کے الزامات لگائے ہیں۔ اُتر پردیش پولیس کی دلیل تھی کہ محمد زبیر صحافی نہیں ہیں۔ وہ ایک سرمایہ کار ہیں لیکن اب محمدزبیر پر لگائے گئے سب الزامات کی جانچ دہلی کی عدالت کرے گی۔محمد زبیر کے خلاف سرکار کے رویے سے اوپر اٹھ کر بھارتی سپریم کورٹ نے جو غیرجانبدارانہ رویہ اپنایا ہے‘ وہی سیکولر بھارت میں مناسب اور بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں