"DVP" (space) message & send to 7575

کون سی آزادی ہے یہ؟

یہ اچھی علامت ہے کہ بھارت میں نظامِ انصاف کی بدحالی پر وزیراعظم اور چیف جسٹس صاحبان نے آج کل کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت آزادی کا 75واں سال منا رہا ہے لیکن کون سی آزادی ہے یہ! یہ تو صرف سیاسی آزادی ہے یعنی اب بھارت میں برطانوی مہارانی کی جگہ صدر اور برطانوی پرائم منسٹر کی جگہ بھارتی وزیراعظم کو دے دی گئی ہے۔ ہمارے چُنے ہوئے ایم پیز اور قانون ساز قانون بھی بناتے ہیں لیکن یہ تو رسمی سیاسی آزادی ہے۔ کیا بھارت کو ثقافتی، معاشی اور سماجی آزادی ملی ہے؟ کیا ہم بھارت میں ترقی پسند فلاحی سماج کی تعمیر کر پائے ہیں؟ یہ کام بھی کچھ حد تک ہوئے ہیں لیکن یہ ہوئے ہیں حاشیے کے طور پر! اصل صفحے پر آج بھی انگریز کی غلامی چھائی ہوئی ہے۔ صرف 3 شعبوں کو ہی لے لیں۔ تعلیم، علاج اور انصاف! ان تینوں شعبوں میں جو غلامی پچھلے 200 سال سے چلی آ رہی ہے‘ وہ جوں کی توں ہے۔ بھارت کے وزیراعظم‘ لوگ اور ججز اس غلامی کے خلاف آج کل کھل کر بول رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں ہے کہ اس غلامی سے بھارت کو چھٹکارا کیسے دلایا جائے۔ تعلیم اور علاج پر تو میں پہلے بھی بہت بار لکھ چکا ہوں۔ اس بار انصاف کی بات کریں۔ بھارت کی عدالتوں میں اس وقت 4 کروڑ 70 لاکھ مقدمے لٹکے پڑے ہیں۔ اس وقت جیلوں میں قید 6 لاکھ 10 ہزار قیدیوں میں سے 76 فیصد ایسے افراد ہیں جن کے معاملے عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں، یعنی ابھی تک ان کا جرم ثابت ہی نہیں ہوا ہے لیکن وہ پچھلے 10‘ 10سال سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ 10‘ 15سال جیل کاٹنے کے بعد جب عدالتیں انہیں بے قصور ثابت کرتی ہیں تو کیا انہیں کوئی ہرجانہ ملتا ہے؟ کیا ان کے خلاف جھوٹے کیس کرنے والوں کو کوئی سزا ہوتی ہے؟ کیا پولیس والوں اور ایف آئی آر لکھنے والوں کو کوئی سزا ملتی ہے؟ 76 فیصد قیدیوں کے مقدمات زیرِ سماعت ہونا اور ان پر جرم ثابت ہوئے بغیر طویل مدت تک ان کا جیلوں میں رہنا یقینا تشویش کی بات ہے۔ اس کے علاوہ عدالتی کارروائی اتنی لمبی اور مہنگی ہے کہ بھارت کے زیادہ تر لوگ اس کا فائدہ ہی نہیں اُٹھا پاتے۔ 76فیصد مذکورہ قیدیوں میں سے 73 فیصد دلت، آدی واسی، پسماندہ اور اقلیتی لوگ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر جسٹس این وی رمنا کا گزشتہ دنوں کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس قانونی عمل پر سوال اٹھایا جائے جس کے نتیجے میں مقدمہ چلائے بنا ملزموں کو ایک طویل مدت تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ ویسے تو بھارت کے نظام انصاف کے بارے میں بے شمار شخصیتوں نے متعدد مرتبہ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس میں بے شمار نقائص کی نشاندہی کی ہے لیکن ایک حاضر سروس چیف جسٹس کی جانب سے اس طرح کی تشویش قابلِ غور ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے نظام انصاف کے بارے میں حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں انگریزی میں چلنے والی عدالتوں کی بحث اور فیصلے کسی جادو ٹونے سے کم نہیں ہوتے۔ مدعی اور ملزم کے پلے ہی نہیں پڑتا کہ ان کے معاملوں میں بحث کیا ہوئی ہے اور فیصلے کی بنیاد کیا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ بھارت کے جج اور وکیل بڑے قابل ہوتے ہیں لیکن ان کی ساری طاقت کو انگریزی چاٹ لیتی ہے۔ اگر سرکاریں، ججز اور وکیل لوگ مذکورہ کمزوریوں کا حل تلاش کرنے لگیں تو سچ میں عدلیہ کی آزادی قائم ہو سکتی ہے۔ مقدمے جلدی جلدی نمٹیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے تمام جج صاحبان سال کے 365دنوں میں کم از کم 8 گھنٹے روزنہ کام کریں اور سال میں کم از کم 250 سے 275 دن کام کریں۔ ابھی تو وہ سال میں صرف 168دن کام کرتے ہیں۔ وہ بھی صرف 5 سے 6گھنٹے روزانہ! قانون کی پڑھائی بھی مقامی زبان میں شروع کی جائے اور تمام صوبائی عدالتوں میں بحث اور فیصلے بھی انہی کی زبان میں ہوں۔ سپریم کورٹ میں صرف اگلے 5برسوں تک انگریزی کا آپشن رہے لیکن سارا کام کاج ہندی میں ہو۔ ججوں کی تقرری میں سرکاری دخل اندازی کم از کم ہو تاکہ ایوانِ انصاف کی آزادی برقرار رہے۔ دنیا کے وہ کئی ممالک‘ جو پہلے بھارت کی طرح غلام رہے‘ ان میں بھی آزادی کے بعد عدالتیں اپنی زبانوں میں ہی کام کرتی ہیں۔ جن ممالک کی عدالتیں آج بھی غیر ملکی زبانوں کے ذریعے سے چلتی ہیں وہ پسماندہ ہی رہ گئے ہیں۔ بھارت کی آزادی کے 75 ویںسال میں ہمارے نیتا اور ججز اگر کھوکھلے بھاشن ہی جھاڑتے رہیں تو اس سے بڑا مذاق اس قوم کے ساتھ اور کیا ہوگا۔
تعلیم میں انقلاب
بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ جس طرح تعلیم میں بھارتیہ زبانوں کے میڈیم کی حمایت کررہے ہیں‘ آج تک ویسی جی داری میں نے بھارت کے کسی وزیراعظم یا وزیر تعلیم میں نہیں دیکھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ لارڈ میکالے کی غلامی سے بھارتیہ تعلیم کو آزاد کروانے کی کوشش مولانا ابوالکلام آزاد، ترگن سین، ڈاکٹر جوشی، بھاگوت جھا آزاد اور پروفیسر شیر سنگھ جیسے وزرائے تعلیم نے ضرور کی تھی، لیکن امت شاہ نے انگریزی کے تسلط کے خلاف مورچہ ہی کھول دیا ہے۔ انگریزی کی لازمیت کے خلاف وہ مہارشی دیانند، گاندھی، لوہیا یا میری طرح نہیں بول رہے ہیں۔ وہ جو کچھ بول رہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ بھارت کے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلی آنی چاہئے۔ اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ ڈاکٹری، وکیلی، انجینئرنگ، سائنس، ریاضی وغیرہ کی پڑھائی کا میڈیم مادری زبانیں یا بھارتیہ زبانیں ہی ہونی چاہئیں۔ کیوں ہونی چاہئیں؟ کیونکہ امت شاہ کہتے ہیں کہ بھارت کے 95 فیصد بچے اپنی ابتدائی تعلیم اپنی مقامی زبان کے میڈیم میں حاصل کرتے ہیں۔ صرف 5 فیصد بچے، پرائیویٹ سکولوں میں انگلش میڈیم سے پڑھتے ہیں۔ یہ کن کے بچے ہوتے ہیں؟ مالدار لوگوں، نیتاؤں، بڑے افسروں اور اونچی ذات والوں کے بچے ہی موٹی‘ موٹی فیسیں بھر کر ان سکولوں میں جاپاتے ہیں جہاں تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ امت شاہ کی فکر ان 95 فیصد بچوں کے لیے ہے جو غریب ہیں، دیہات سے ہیں، پسماندہ ہیں اور اقلیتی ہیں۔ یہ بچے آگے جاکر سب سے زیادہ فیل ہوتے ہیں۔ یہی پڑھائی درمیان میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری کے شکار بھی یہی سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر مرکز کی بھاجپا سرکار راجیوں پر دبائو ڈالے تو وہ اپنی تعلیم اپنی مقامی زبانوں میں شروع کر سکتی ہے۔ 10 ریاستوں نے مرکز سے اتفاق کیا ہے۔ اب 'جی‘ اور'نیٹ‘ کے امتحانات بھی 12زبانوں میں ہوں گے۔ مرکز اپنی بھاشا پالیسی ریاستوں کے لئے لازمی نہیں کر سکتی لیکن حکمران جماعت کے کروڑوں کارکنان کیا کر رہے ہیں؟ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں تمام پارٹیوں کے نیتاؤںسے تعلیم میں انقلاب لانے کی درخواست کیوں نہیں کرتے؟ امت شاہ غیر بھاجپا ریاستوں سے بات کر رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم نریندر مودی خود اور وزیر تعلیم بھی ان سے بات کریں تو یہ انقلابی قدم جلد ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ مدھیا پردیش کی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر سے ڈاکٹری کی پڑھائی ہندی میں شروع کر رہی ہے۔ صرف نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیناکافی نہیں ہے۔ پچھلے 8 برسوں میں باتیں بہت ہوئی ہیں۔ تعلیم اور علاج میں سدھار کی۔ لیکن ابھی تک ٹھوس کامیابی خواب و خیال ہی رہی ہے۔ اگر بھارت کی تعلیم اور میڈیکل کو مرکزی سرکار نوآبادیاتی غلامی سے آزاد کرا سکی تو اسے کئی دہائیوں تک یاد کیا جائے گا۔ پھر بھارت کو ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں